مناظر اسلام مولانا عبدالستار تونسویؒ صاحب کردار شخصیت
تحریر:قاضی محمداسرائیل گڑنگی
قلم اُٹھایا،کاغذلیا،ذہن کی سکرین گھومی زبان بقولِ بھلے شاہ رحمۃ اﷲ علیہ
بول پڑی
اوبندیانہ کر میری میری نہ تیری نہ میری
چار دنادادنیامیلہ پھرمٹی دی ڈھیری
مجھے وہ حسن وجمال کا پیکر،جلال وجمال کاسپوت ،علم وفضل کاپہاڑ،محنت وجستجو
کا امام ،عجزوانکسار کاپیکر،توحیدکی صدابلندکرنے والا،سنت کی بہار سے
دنیاکومعطرکرنے والا،صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے ترانے سنانے والا،اہلبیت کی
عظمت کے گُن گانے والا،اولیاء اﷲ کی شان سنانے والا،علماء حق کی آوازدنیاتک
پہنچانے والا،خود اپنے عمل سے حق وصداقت کاترجمان بن کرزندگی بسر کرنے
والا،اہلِ حق کوصدائے حق کے لیے تڑپانے والا،
کلمہ حق کی صدالگاتے ہوئے مسکراتے چہرے کے ساتھ جاکر عالمِ برزخ میں
سوگیایوں محسوس ہواکہ دُکھوں کاماراآج سُکھ سے جنت کے ایک باغ قبر میں
جاکرسوگیا۔
صحابہ کرام کاخادم،اہلبیت کانوکر،اولیاء اﷲ کامداح،ولایت کاامام،امامِ سنی
انقلاب محدث العصر حضرت مولاناحق نواز جھنگوی ؒ کے استاذاور لاکھوں
مسلمانوں کے دلوں پر حکمرانی کرنے والا،قریہ قریہ بستی بستی نگر نگر گھوم
گھوم کر صدائے حق لگانے والاان کے اوصاف کمالات کودیکھ کر پھر قلم لکھنے پر
مجبور ہوجاتاہے ہاتھ حرکت کرتا ہے اورقلم لکھنے پر مجبور ہوجاتاہے۔
وہ خطیب اسلام تھے وہ قائداہلسنت تھے وہ شیخِ وقت تھے وہ امامِ اہلسنت تھے
وہ پیرِ طریقت تھے وہ رہبرشریعت تھے
وہ ولی کامل تھے وہ شیخ العرب والعجم تھے وہ فاتح رافضیت وخارجیت تھے وہ
قاطع شرک وبدعت تھے وہ سنت کے شیدائی تھے وہ اکابر کے علوم ومعارف کے امین
تھے
وہ روایاتِ اکابر کے پاسبان تھے وہ مسلک اہل سنت والجماعت کے ترجمان تھے وہ
حضرت مولاناعبدالشکورلکھنویؒکے علوم ومعارف کے حقیقی وارث تھے
وہ شیخ العرب والعجم حضرت مولاناسید حسین احمدمدنیؒ کے مایہ ناز شاگرد تھے
حضرت تونسوی ؒکابیان عالمانہ ہوتاتھاوہ اپنے سامنے کتابوں کے انبارحوالوں
کے لیے رکھ کر بیان فرماتے تھے دلائل اس انداز سے پیش کرتے کہ فریقِ مخالف
بھی حیران ہوجاتاان کاتکیہ کلام یہ تھامیرے بھائیو۔۔میرے بھائیو۔۔میرے
بھائیو۔
مخالف کوبھی پیار سے سمجھاتے تھے اور اسی مبارک جملے سے مخاطب کرتے
تھے۔حضرت ؒ کابیان جمالی انداز میں ہوتاتھاجب دلائل کے انبارلگالیتے
پھرفرماتے میں نے جودلائل پیش کیے ہیں اگر ان میں سے کوئی بھی غلط ہوتومیں
لکھ کے دیتاہوں مجھے گولی ماردومیراخون حلال ہے۔
ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کہ ذاتِ رسول ﷺ تک رسائی کے لیے اصحاب رسول ؓ
واہلبیت رسول ؐ کاواسطہ ضروری ہے اس کے بغیر وہاں تک رسائی ناممکن ہے اوراﷲ
پاک تک رسائی کے لیے رسول پاک ؐ کاوجودمسعود ہے رب کاتعارف کائنات میں
انبیاء ؑنے کروایاہے ہمارے پیارے نبی ؐ نے پتھروں کی بارش میں بھی
فرمایاتھاکہ رب کے سواکوئی معبود نہیں۔اس وقت دوگروہ کام کر رہے ہیں ایک
جماعت ِرسول ؓ کامخالف ہے اور ایک اہلبیت رسول ؓ کامخالف ہے۔ہمارے بزرگ
اہلسنت والجماعت اکابردیوبندان دونوں بدنصیب گروہوں کی سرکوبی کے لیے میدان
میں آئے انہوں نے اہلبیت رسول ؓ کی عظمت کوبلند کیااوراصحاب رسول ؓ کے
ناموس کی بھی پہرہ داری کی اور یہ اعلان کیاکہ ہم دونوں کے غلام ہیں بلکہ
یہانتک صدائے حق بلندکی کہ ہم ان دونوں کے غلاموں کے بھی غلام ہیں اس میدان
میں قریب کے دور میں جن حضرات نے کردار اداکیاان میں حضرت مولاناقاضی
مظہرحسین چکوال ،حضرت مولاناقاضی عبدالطیف جہلم،حضرت مولانادوست
محمدقریشی،حضرت مولاناسیدنورالحسن بخاری،حضرت مولاناعبدالشکور دینپوری،حضرت
مولاناحق نوازجھنگوی،حضرت مولانامحمدضیاء القاسمی،حضرت مولاناضیاء الرحمان
فاروقی ،حضرت مولانااعظم طارق،حضرت مولاناعلی شیر حیدری،حضرت
مولاناعبدالستارتونسوی سرفہرست ہیں
ان حضرات کاکام اور نام تاریخ کے نقوش میں ہمیشہ زندہ رہے گاان حضرات کے
قافلہ کے ایک مرد مجاہدعالم اسلام کے نامورعالم دین حضرت مولاناخالد
محمودمدظلہ اس وقت موجود ہیں ان حضرات نے قلمی اور زبانی شاگردانِ رسول ؓ
کادفاع کیااپناتن من دہن سب کچھ لگایابلکہ اس میدان میں یہ حضرات شاگردانِ
رسولؐ کے چوکیدار بن گئے اوراسی چوکیداری سے مشہورومعروف ہوگئے اس قافلہ
میں مولاناعبدالستارتونسوی ؒایک نمایاں مقام رکھتے تھے ان کی ادااس سلسلہ
میں ایک نئی جہت کامنظرپیش کرتی تھی۔حضرت ؒ نے جوعہدمولاناعبدالشکورلکھنوی
سے کیااورمولاناسیدحسین احمدمدنیؒسے جوسبق سیکھازندگی بھر اسی کودنیامیں
پھیلایا
خاندانی پسِ منظر
1926ء کوحضرت مولاناحکیم اﷲ بخش تونسوی ؒ کے گھرمیں پیداہوئے آپ کا اسم ِ
گرامی عبدالستار رکھاگیا۔آپ بلوچ لنڈگوت سے تعلق رکھتے تھے اس کی ایک جھلک
دیکھنے کے لیے گوجرانسائیکلوپیڈیامصنفہ مس حمیراچوہدری ملاحظہ فرمائیں جس
میں بلوچ گوت کی عظمت رفتہ کازبردست الفاظ میں تذکرہ کیاگیاہے۔آپ دوبھائی
تھے آپ کے دوسرے بھائی حضرت مولانااحسان اﷲ تونسوی ؒجو1991ء میں وصال
فرماگئے۔آپ ؒ نے دوشادیاں کیں جس سے آپ ؒ کے چھ بیٹے اورپانچ بیٹیاں
ہیں۔بڑی اہلیہ محترمہ سے حضرت مولاناعبدالغفارتونسوی،حضرت
مولاناعبدالجبارتونسوی،حضرت مولاناعبدالطیف تونسوی اوردوسری اہلیہ محترمہ
سے حضرت مولاناعمرفاروق تونسوی،حضرت مولاناحسنین احمدتونسوی،حضرت
مولاناعثمان حیدرتونسوی ۔عجیب اتفاق ہے کہ پوراخاندان علم وفضل کے کمال پہ
ہے اس خاندان کودیکھ کر فارسی کاجملہ زبان پہ جھوم جاتاہے ۔۔۔ایں جملہ
خاندان مثل آفتاب است(یہ ساراخاندان سورج کی طرح چمک رہاہے)
آپؒ نے 1947ء کودارلعلوم دیوبند سے سندفراغت حاصل کی آپؒ نے اکابرعلماء
امت سے علم حاصل کیا۔آپ کی زندگی بھی عجیب تھی اورموت بھی۔۔۔حضرت ؒ کے وصال
کے وقت ان کے صاحبزادے حضرت مولاناعمرفاروق تونسوی وحضرت مولانا عثمان
حیدرتونسوی ان کے پاس موجود تھے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت کی موت کلمہ طیبہ
کاوردکرتے ہوئے ہوئی اورکافی دیرتک انگلیوں اورانگوٹھے میں حرکت رہی
(2)
محسوس یہ ہورہاتھاکہ اشاروں میں بتارہے ہیں کہ اﷲ پاک کے سواکوئی معبود
نہیں اورحضرت محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں۔
جیوتویوں جیوزندگی کوبھی رشک آئے مروتویوں کہ موت بھی کہے ہائے کون مرگیا
اسی طرح حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی ؒ کے بارے میں مفتی اعظم پاکستان
حضرت مولانامفتی محمدشفیع ؒ فرماتے تھے کہ جب حضرت نے وصال فرمایاان کے
ہاتھوں کی انگلیوں سے روشنی آرہی تھی
تونسویؒ کی وفات سے علم کاایک دروازہ بند ہوگیا۔اس کائنات میں خوش نصیب رب
کے بندے وہ ہیں جودنیاسے توپردہ فرمالیتے ہیں مگر ان کا فیض جاری وساری
رہتاہے انہی خوش نصیب لوگوں میں میرے استاذمحترم حضرت
مولاناعبدالستارتونسوی ؒ ہیں جوعلم وفضل کے ایک پہاڑتھے وہ اپنے اندازِ
گُفتگوکے خود ہی موجد تھے وہ صرف خطیب ومقررہی نہیں بلکہ خطیب گرتھے ۔آج ان
کے ہزاروں شاگرددنیامیں موجود ہیں جواسلام کی خدمت میں مصروف ہیں۔مولانا کی
پوری زندگی خدمت اسلام میں گُزری انکی مثل لانامشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے
گوشہ اکابر
واہ حضرت تونسوی رحمہ اﷲ حکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمدطیب کی نظر میں(
مہتمم دارالعلوم دیوبند)
ایک مرتبہ جب حضرت تونسوی ؒ حرمین شریفین میں تحفظ مسلک اہلسنت کے موضوعات
پر دروس ارشاد فرمارہے تھے توایک درس میں مہتمم دارالعلوم دیوبندحضرت
مولاناقاری محمدطیب قاسمیؒ بھی اچانک شریک ہوگئے اورکافی دیرتک آپ کادرس
سماعت فرماتے رہے اختتام درس پرحضرت قاری صاحب نے حضرت تونسوی کوگلے
لگاکران کی پیشانی پر بوسہ دیاپھرجب حضرت تونسوی نے یہ بتایاکہ میں ناچیزآپ
کا ادنیٰ شاگردہوں اوردارالعلوم دیوبند میں میں نے آپ سے ابن ماجہ شریف
پڑھی ہے توحضرت قاری محمدطیب قاسمیؒ نے فرمایا:
آج آپ کے درس سے ہم بہت مستفید ہوئے ـ․․․․․․آپ تومیرے استادمعلوم ہوتے
ہیں(خواتین کااسلام شمارہ نمبر516صفحہ نمبر2)
حضرت کی محفل کے دس پھول ملاحظہ فرمائیں
۱۔صحابہ کرام رضی اﷲ عنھمکیسے خوشبخت ہیں جن کے اتالیق محمدمصطفیﷺ تھے
۲۔صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کی اقتداء نجات کاراستہ ہے
۳۔صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم شاگردانِ رسول اورتربیت یافتگان رسول ہیں
۴۔میں نے بخاری شریف اورترمذی حضرت شیخ الاسلام مولاناسیدحسین احمدمدنی
رحمۃ اﷲ علیہ سے پڑھی
۵۔حضرت سیدناعلی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اقرب الی الحق تھے
۶۔حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قریب الی الحق تھے
۷۔حضرت سیدناحسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کایزیدمجرم ہے
۸۔المہندعلی المفندہمارے اکابر کی تحقیقات کاایک جھنڈاہے
۹۔جوقوم چاقوکوکاچوکہے ،بندوق کوبندوخ کہے ،آرام کوارمان کہے اس پر علمی
وعظ کیااثر کرسکتاہے
۱۰۔علماء دیوبندکی تحقیقات اقرب الی السنۃ ہیں
ان کی مبارک زندگی کودیکھ کر بزبانِ کوثرنیازی کہناپڑتاہے
جن کی یادوں سے رگِ جاں میں دکھن ہونے لگے
ذکر چھڑجائے توپتھردل بھی رونے لگے
حضرت پہ لکھنے بیٹھاتوحضرت شورش کشمیری ؒ کی اشعار نے حضرت کامبارک چہرہ
میرے سامنے رکھ دیازبان گُنگنانے لگی
کئی دماغوں کاایک انساں میں سوچتاہوں کہاں گیاہے
قلم کی عظمت اُجڑگئی ہے زباں کازورِبیاں گیاہے
اتر گئے کئی منزلوں کے چہرے میرکیاکارواں گیاہے
مگرتیری مرگِ ناگہاں کامجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے |