'کیا آپ اپنے بیٹے کے اعترافِ جرم سے متفق ہیں؟'، آپ ایک
قاتل بیٹے کی ماں ہیں، کیا کہنا چاہیں گی؟' 'آپ ایک دہشتگرد کی ماں ہیں'۔ 'آپ
جواب دیں، آپ بھاگ کیوں رہی ہیں؟'، 'آپ کا بیٹا سینکڑوں پاکستانیوں کا قاتل
ہے' وغیرہ وغیرہ۔
یہ ان سوالات میں سے چند ایک ہیں جو بعض پاکستانی صحافیوں نے گذشتہ روز اس
وقت کیے جب پاکستان میں قید انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کی والدہ اور اہلیہ
دفتر خارجہ پہنچیں۔
|
|
اس شور شرابے میں کچھ صحافیوں کے وہ سوال کہیں دب گئے تھے جو ان سے پاکستان
کے اس سفارتی اقدام سے متعلق پوچھنا چاہ رہے تھے جس کی وجہ سے آج ان کی
اپنے بیٹے سے ملاقات ممکن ہو پائی تھی۔
پاکستان اور انڈیا کی جانب سے کئی ہفتوں کے سوچ بچار کے بعد، پاکستان میں
گرفتار ہونے والے انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کی والدہ اور اہلیہ ان سے
ملاقات کے لیے پیر کو اسلام آباد پہنچی تھیں۔ حکومتِ پاکستان نے کلبھوشن
جادھو اور انڈین حکومت کی درخواست پر دونوں خواتین کو تین روز کے ویزے جاری
کیے تھے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے بہت بڑی تعداد میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا کو
اس ملاقات کی کوریج کی اجازت دی تھی۔ سکیورٹی خدشات کے باعث صحافیوں کو
خصوصی پاسز بھی جاری کیے گئے تھے۔
کلبھوشن جادھو کی والدہ اور اہلیہ کی گاڑی کو عین میڈیا کے نمائندوں کے
سامنے پارک کرایا گیا۔ دفتر خارجہ میں عام طور پر مرکزی دروازے کے سامنے
مہمان گاڑی سے اترتے ہیں لیکن آج اسی مرکزی دروازے کے پار میڈیا کے لیے جگہ
مختص کی گئی تھی۔
|
|
ملاقات سے پہلے سکیورٹی پروٹوکولز کی تکمیل کے لیے کلبھوشن کی والدہ اور
اہلیہ کا لباس تبدیل کرایا گیا اور ان کے چہرے دھلوائے گئے۔ جس کے بعد
انھیں دفترِ خارجہ کے آغا شاہی بلاک کے پیچھے کنٹینر میں لے جایا گیا جہاں
کلبھوشن جادھو موجود تھے۔
یہ کنٹینر تین حصوں میں تقسیم تھا اور اس کے دو دروازے تھے۔ ساؤنڈ پروف
کنٹینر کے تینوں حصے بلٹ پروف شیشوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جدا تھے۔
کلبھوشن جادھو اور ان کے اہلخانہ کے درمیان انٹرکام پر رابطہ تھا جبکہ
تیسرے حصے میں پاکستان میں انڈیا کے ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ اور
پاکستان کی جانب سے دفتر خارجہ میں ڈائریکٹر ساؤتھ ایشیا ڈیسک ڈاکٹر فریحہ
بگٹی موجود تھیں۔ اس حصے میں فیملی کے درمیان ہونے والی گفتگو نہیں سنی جا
سکتی تھی۔
کلبھوشن جادھو کی والدہ اور اہلیہ ان کے لیے تحفے کے طور پر ایک شال لائی
تھیں، جسے 'سکیورٹی کلیرنس' کے بعد ان کے حوالے کیا جائے گا۔
شیشوں کے ذریعے علیحدہ کیے گئے کیبن میں ملاقات کے حوالے سے ترجمان دفتر
خارجہ کا کہنا تھا کہ انڈیا کے ساتھ اس ملاقات کے تمام ضابطے پہلے ہی طے کر
لیے گئے تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ انڈین حکومت ان انتظامات سے آگاہ تھی۔
ابتدائی طور پر 30 منٹ دورانیے کی ملاقات کا وقت بڑھا کر چالیس منٹ کیا گیا
تھا جبکہ دفترخارجہ کے باہر موجود میڈیا کلبھوشن کی اہلیہ اور والدہ کا
انتظار کرتا رہا جو سکیورٹی ضابطے پورے کرنے میں تقریباً دو گھنٹے گزرنے کو
تھے۔
اس دوران وہ گاڑی بھی واپس بھیج دی گئی جس میں انڈین ڈپٹی ہائی کمشنر اور
کلبھوشن کے اہلخانہ دفتر خارجہ پہنچے تھے۔ ان کی واپسی کے لیے سرکاری نمبر
پلیٹ والی سفید گاڑی تیار تھی جسے قدرے فاصلے پر کھڑا کیا گیا تھا۔
|
|
واپسی کے لیے وہ مرکزی دروازے پر پہنچے تو میڈیا نے ایک بار پھر سوالوں کی
بوچھاڑ کر دی۔ میڈیا اور مرکزی دروازے کے بیچ کئی فٹ کا فاصلہ تھا۔ انڈین
ڈپٹی ہائی کمشنر اور کلبھوشن کے اہلخانہ نے کچھ لمحے گاڑی کا انتظار کیا
اور پھر واپس اندر جانے کو مڑے۔
انڈین سفارتکار نے گاڑی مرکزی دروازے کے سامنے منگوانے کی درخواست کی تاکہ
میڈیا سے بچا جا سکے۔ جس کے بعد دفتر خارجہ کے حکام نے ان کی گاڑی کو مرکزی
دروازے کے قریب بلوا لیا۔
دفتر خارجہ سے رخصت ہونے سے قبل کلبھوشن جادھو کی والدہ نے ترجمان دفتر
خارجہ ڈاکٹر فیصل کو پرنام کیا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس دوران انڈین
ڈپٹی ہائی کمشنر ان کے عقب میں موجود رہے۔
میڈیا کے نمائندوں کو کسی چبھتے سوال کا جواب تو نہ مل سکا جس کے بعد اب ان
میں سے بعض فرطِ جذبات میں نعرے بازی کرتے رہے۔
|