سوشل میڈیا یعنی سماجی رابطے کا مقام یا جگہ ۔ آج کے
انتہائی تیز رفتار دور میں سوشل میڈیا سے شاید ہی کوئی ہو جو لا تعلق ہو یا
پھر اسکے بارے میں جانکاری نہ رکھتا ہو۔بچے سے لیکر بوڑھے تک ہر ایک کے
ہاتھ میں ٹیبلٹ، موبائل فون یا پھر نوٹ بک نہ ہویہ وہ چیزیں ہیں جن میں
پوری دنیا چھوٹی سی ڈبیا میں بند ہو کر رہ گئی ہے اور وہ کونسا موضوع ہے جو
ہماری جیب میں موجود نہیں ہمارے دوست، پیارے، عزیز و اقارب ہم سے ایک بٹن
کے کلک کے فاصلے پر تو ہیں ۔ آن واحد میں ہم اپنے پیاروں سے ایک بٹن کو دبا
کر ان سے قریب ہو جاتے ہیں ان سے باتیں کرتے ہیں، انکی تصویر دیکھ لیتے ہیں
اور ان سے ویڈیو لنک کے ذریعے کانفرنس کرتے ہیں ، ہولو گرام کے ذریعے دنیا
میں جہاں بھی ہوں آمنے سامنے باتیں کر سکتے ہیں اور وہ کونسا موضو ع ہے جو
قابل بحث نہ ہو۔
اخبارات، کتب، رسائل، میگزین،مجلے ، ڈائجسٹ، ریڈیو، ٹیلی ویژن ، ٹیلی پڑنٹر،
ٹیلی فون یا پھر کمپیوٹر وہ ذرائع ہو ا کرتے تھے جو ہمارے زیر استعمال ہوتے
تھے اور ہم پوری دنیا سے رابطے میں رہتے تھے اور با خبر رہتے تھے۔ مگر یہ
تمام ذرائع نہ تو اتنے تیز تھے اور نہ ہی اتنی جلدی کسی سے رابطہ کرنا اتنا
آسان ہوا کرتا تھا۔ مگر انٹر نیٹ نے پوری دنیا میں تہکہ مچا کر رکھ دیا۔ او
ر دنیا کا کوئی بھی موضوع ہو ہم کی پیڈ پر ایک انگلی کی مدد سے آن واحد میں
نکال کر اسے اپنی سکرین پر دیکھ لیتے ہیں نہ صرف اسے دیکھ سکتے ہیں بلکہ
اسکی آڈیو اور ویڈیو بھی دیکھ لیتے ہیں اور انہیں محفوظ بھی کر لیتے ہیں
اور پرنٹ کرکے انہیں مستقبل میں کام لانے کیلئے کسی بھی تحریر، دستاویز یا
نوشت کو محفوظ کرکے ہمیشہ کیلئے کام میں لا سکتے ہیں۔سوشل میڈیا نے جہاں
ایک عام آدمی کو ہر شعبہ ہائے زندگی میں سہولیات اور آسانیاں مہیا کی ہیں
وہیں اسنے انتہائی خطرناک کردار ادا کرتے ہوئے پوری دنیا کے بدمعاشوں کیلئے
بین الاقوامی طو ر پر جرائم کے راستے بھی کھول دیے ہیں جس میں قتل، زناہ،
اغوا، ڈکیتی، بینکوں سے غیر قانونی طور پر رقم نکلوانا، بڑی بڑی کمپنیوں
اور اداروں کے انتہائی اہم راز چوری کرنا اور اے ٹی ایم سے کروڑوں روپے
نکلوانا وہ واقعات ہیں جس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا کر رکھ دیا ہے اور یہ
پوری دنیا کیلئے انتہائی الارمنگ کی حیثیت رکھتی ہے اور بڑی بڑی حکومتیں ان
مجرمانہ وارداتوں سے نبٹنے کیلئے مختلف طریقے استعمال کرتے ہوئے عوام الناس
کیلئے پریشان ہیں۔
سوشل میڈیا نے تعلیم، صحت، مذہب، سیاست، کھیل، معاشیات، اقتصادیات، تاریخ،
جغرافیہ ، سائینس ، سماجیات اور معاشرت پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں کہیں مثبت
اور کہیں منفی یعنی کوئی ایسا میدان نہیں جسکی معلومات فراہم نہ ہوتی ہوں۔
جہاں سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک مٹھی میں بند کر دیا ہے اسکے ساتھ ساتھ
انسانوں کی زہنی صحت پر بھی خوشگوار اور برے اثرات مرتب کئے ہیں اور ہماری
زندگی پر گہرے اثرات مرتب کر کے انہیں یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ۔آپ کہیں
بھی کسی محفل میں بیٹھے ہوں اپنے گھر پر ہوں اپنے رشتے دار اور عزیزو اقارب
، دوست، بہن بھائی، والدین کے ساتھ ہوں اپنے موبائل، ٹیبلٹ یا پھر لیپ ٹاپ
پر خوشگپیوں میں لگے ہوتے ہیں۔ جہاں سوشل میڈیا نے دوریوں کو قریب کیا ہے
وہیں ہم اپنوں کی قربت کیلئے بھی ترس گئے ہیں۔ ہم سوشل میڈیا پر اپنے دور
دراز کے دوستوں سے یا تو میسسجنگ یا پھر باتوں میں مصروف ہوتے ہیں اور اپنے
ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کو نظر انداز کرکے فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام، واٹس
ایپ، ایمو یا پھر کسی اور پروگرام کے ذریعے باتیں کرنے میں مصروف ہوتے ہیں
بلکہ انہیں اپنے سامنے حرکات و سکنات کرتے ہوئے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں
یوں لگتا ہے جیسے وہ ہمارے قریب تر ہیں۔ اسکے علاوہ جہاں ہم اپنے کلچر ،
تمدن اور زبان کو دوسروں تک رسائی میں مدد دیکر انہیں اپنی تہذیب سے آگاہی
دیتے ہیں ۔ وہیں ہم دوسروں کے کلچر سے بھی متعارف ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا سے
جہاں ہم اپنے پیاروں سے باتیں کرتے ہیں وہیں ہم انکی خوشیوں ، تقاریب اور
غموں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا جہاں ہمیں مفید معلومات فراہم کرتا
ہے وہیں یہ ہمیں مختلف طریقوں سے ورغلانے میں انتہائی گھناؤنا کردار بھی
ادا کرتا ہے۔ جس سے آن واحد میں پوری دنیا میں غلط اور ورغلانے والی جھوٹی
معلومات ، لوگوں میں بے چینی اور پیچیدگیاں پیدا کر رہا ہے اور اس سے آپس
میں مذہبی منافرت پھیل رہی ہے ۔ رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر نفرتیں
پھیلانے میں دہشت گرد اپنا مجرمانہ کردار ادا کرتے ہوئے دنیا میں بے چینی
اور عدم استحکام پید ا کر رہے ہیں جس سے لوگوں میں خوف و ہراس اور نفرتیں
پھیل رہی ہیں جو انتہائی قابل فکر بات ہے۔
سوشل میڈیا ہماری زندگی کا کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں ہے جس پر اثر انداز نہ
ہو رہا ہو۔ بڑے بڑے تجارتی ادارے ، جہاز ران کمپنیاں، بینک، تعلیمی ادارے،
صحت کے ادارے ، انشورنس کمپنیاں اپنی پیداوار اور خدمات کے سلسلے میں اپنے
برانڈز متعارف کروانے میں سوشل میڈیا کا سہارا لے رہی ہیں اور اپنے بزنس کو
پروان چڑھاکر اربوں روپے کما رہی ہیں۔ ایک محتاظ اندازے کیمطابق ایک ارب سے
بھی ذیادہ لوگ ہیں جو ہر روز مختلف طریقے سے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔
جس ترقی کے دور سے ہم گزر رہے ہیں میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا
سکتا۔ میڈیا نے ہمیں گلوبل ویلیج میں مقید کردیا ہے۔ جہاں پر وسیع و عریض
میدان ہیں اور ہمیں ان میدانوں میں اپنا اپنا اہم کردار ادا کرتے ہوئے
انسانیت کی بھلائی اور اسکی رہنمائی کیلئے کام کرنا ہے۔ معلومات کے بے پناہ
گہرے اور وسیع سمندر نے جہاں انسانی فکر کو جگایا ہے وہیں انسانوں کیلئے
مختلف قسم کی پریشانیاں بھی کھڑی کی ہیں جس سے میڈیا کے استعمال کرنے والے
نہ صرف پریشان اور فکر مند ہیں بلکہ وہ اپنے مستقبل کا تعین نہیں کر پا رہے
اور انہیں بھول بھلیوں میں گم ہیں کہ انہیں میڈیا کی اس یلغار سے کیسے
مقابلہ کرنا ہے۔ میڈیا سے پیچھا چھڑانا ایسا ہی ہے جیسے ایک کبوتر بلی کو
دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ اگر ہم معاشرتی اور اور سماجی ترقی چاہتے
ہیں تو میڈیا سے آگاہی وقت کی اہم ضرورت ہے اور اپنے تعلیمی اداروں میں
طلباٗ کیلئے کوششیں کرکے اپنے طلباء کو ان تک رسائی ممکن بنانا ہوگا ورنہ
ہم معاشرے سے کٹ رہ رہ جائینگے ہم اپنے تعلیمی نصاب میں سوشل میڈیا سے مدد
لئے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمیں اپنے طلباء کو سوشل میڈیا سے
متعارف کروانا انتہاء ضروری ہے۔ ورنہ ہم نہ صرف دنیا سے کٹ کر رہ جائینگے۔
ہمیں پرانے موجودہ دقیانوسی افکار اور تعلیمی نظام سے جان چھڑوا کر اپنے
طلباء میں جدید اور وقت سے ہم آہنگ تعلیم کو فروغ دینا ہوگا تاکہ ہم دنیا
سے ہمقدم ہوسکیں اوران سے پیچھے نہ رہ جائیں اور ہم ایک ماڈرن، با وقار اور
با عزت معاشرے کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہو سکیں۔ آنے والے چیلنجز کا
مقابلہ کرنے کے قابل ہو نے کیلئے ہمیں پرانی روایات ، فضول اور دقیانوسی
خیالات سے ٓآزا د ہو نا ہوگا ورنہ نہ صرف یہ ہمارے لئے مشکل ہوگا بلکہ ہم
ترقی کی راہوں پر بھی گامزن نہ ہو سکیں گے۔ |