زندہ اور متحرک قوموں کے اس ذکر کے ساتھ اگر عالم
اسلام کا جائزہ لیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ خصوصیات جن کی حامل
زندہ قومیں ہوتی ہیں ان سے عالم اسلام یکسر محروم ہے۔پورے عالم اسلام کے
کسی حصہ میں وہ دم خم دکھائی نہیں دیتا جس کو مثال بناکر پیش کیا جا سکے۔
ہر جگہ مایوسی اپنے قدم جمائے ہوئے کھڑی ہے ، کہیں سے امید کی کوئی کرن نظر
نہیں آتی، ہمت اور جانبازی کی داستانیں اب زبانی کہاوتوں میں تبدیل ہو گئی۔
نوجوان جو کسی قوم کا عظیم سرمایہ ہو تے ہیں ان میں احساس کمتری اور اپنے
مستقبل سے بیزاری بلکہ دوسرے الفاظ میں نفرت سی ہو گئی۔ قوموں کی زندگی میں
یہ لمحات بڑے رسو اکن ہوتے ہیں جب کسی قوم کے جوان احساس کمتری میں مبتلاء
ہوجائیں،کیونکہ احساس کمتری قوموں کو دیمک کی طرح کھاجاتی ہے اور وقت کی
رفتار کے ساتھ وہ قومیں ہمیشہ کے لیے دنیا سے ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ہو
جاتی ہیں۔ یہ بڑی مایوس کن بات ہے کہ پورے عالم اسلام میں اس وقت کوئی بھی
جوان کھل کر آزادی کے ساتھ نہ اپنی بات کہہ سکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی بات
پر پر امن احتجاج کر سکتا ہے۔ ہر ایک شخصی آزادی سے یکسر محروم ہے ۔جب
نوجوانوں کی صورت حال یہ ہے تو وہ امت کے مستقبل سے فکر مندی اور اس کے
بحران سے آگاہی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ وہ آنے والے کل کے حالات کا مقابلہ
کیسے کرسکتے ہیں؟ جب ان کی زبا نیں بند اور ا ن کی سوچ وفکر پر بندش لگ گئی،
وہ آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتے، تو پھر ان سخت حدوں میں
ان کے اندر احساس کمتری کا پیدا ہونا یقینی ہے۔
صور ت حال یہ ہے کہ عالم اسلام کے پاس تغیر پذیر دنیا کے حوالے سے کوئی
ٹھوس حکمت عملی ایسی نہیں جس کو بنیاد بناکر دنیاکے موجودہ بدلتے ہو ئے
حالات کا مقابلہ کیا جاسکے ۔ اس لیے سنجیدگی سے پو رے عالم اسلام کو اپنی
نئی نسل کا محاسبہ کرنا ہے ،کہ وہ تعلیم و تربیت، تہذیب و ثقافت اور فکر
اسلامی کے حوالے سے کس مقام پر کھڑی ہے ۔کیونکہ عا لم اسلام کے اکثر وہ
نوجوان جو اس وقت تعلیم اور تربیت مغربی اساتذہ اور مغربی دانش گاہوں سے لے
رہے ہیں، ان کا رجحان یقینا مذہب کے بارے میں کل کسی بڑے خطرے کا پیش خیمہ
ثابت ہو سکتاہے۔ تاریخ میں ا سپر بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ مصطفی کمال پا
شا جس کی تعلیم اور تربیت مکمل طور سے مغرب کے زیر سایہ ہوئی پھر اسی کے ذ
ریعہ سے اہل یوروپ نے وہ کام کرا یا جس کو وہ صدیوں تک تمام تر مذموم
کوششوں کے باوجود انجام نہیں دے سکے تھے، لیکن مصطفے کمال پاشا نے مغرب کی
خواہش کے مطابق وہ کام انجام دے دیا یعنی اسلامی حکومت اور خلافت کا خاتمہ۔
اسی طرح مصر کی موجودہ صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ صدیوں سے مصری سماج اسلام
پسندوں کے خلاف کس طرح متحد ہے اورحال یہ ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی مصری
قوم اسلام پسندوں کو تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نہیں ۔ سیسی کی قیادت میں
مرسی حکومت کا خاتمہ ان کی اس ذہنی گند گی کی واضح مثال ہے ۔سچ بات یہ ہے
کہ صرف ترکی اورمصر ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں آج بھی ایسے افراد کی
کمی نہیں جومغرب کی غلامی میں پرورش پارہے ہیں، یقیناایسے ہی لوگ کل مذہب
بیزار ی کا رویہ بلکہ اسلام دشمنی کا رویہ اختیار کر یں گے اور یہ بھی
یادرہے کہ ان کی تعداد حالات کو دیکھتے ہوئے بڑ ھتی جارہی ہے۔ خطرات سامنے
ہیں۔ حال ہی میں فتح اﷲ گولن اسی کام کو ترکی میں انجام دینے جا رہے تھے،
جس کی بر وقت مغرب اور یورپین ممالک کو ضرورت تھی لیکن جب خدا کسی کے ساتھ
ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اور سازش کچھ نہیں بگا ڑ سکتی ۔
عالم اسلام کے لیے یہ وقت مزید غور و فکرکا طالب ہے ۔اگر یہ وقت ہاتھ سے
نکل گیاتو نئی نسل کے ذہن و دماغ اس مادی فلسفے سے نہیں بچ پا ئیں گے جس کا
خمیر ا لحاد اور تشکیک سے بناہو ا ہے۔ ایک نو مسلم مؤ رخ محمد اسد لیو پولڈ
ویز اس نفسیات پر لکھتا ہے جو مغربی تعلیم سے اور وہاں کے اساتذہ کی تربیت
سے بچوں پر پڑتی ہے’’ ہم اس توقع میں حق بجانب نہیں ہیں ۔بجز ایسی صورت کے
کہ کوئی ذہن اتنا روشن ہو کہ تعلیمی مسائل پر قا بو پا جائے۔ مسلمان
نوجوانوں کی مغربی تعلیم لازمی طور پر ان کی اعتقادی قوت کو کمزور کرد ے گی
اور اس تیقن کو کہ وہ اسلام کی مخصوص مذہبی تہذیب کے نمائندے ہیں۔ اس میں
ذرابھی شبہ نہیں کہ جس مسلم تعلیم یافتہ طبقے کی مغربی طریقوں پر تعلیم
ہوئی اس میں مذہبی اعتقاد تیزی کے ساتھ کمزور پڑتا جارہا ہے ۔ اس کا یہ
مطلب نہیں کہ غیر تعلیم یا فتہ طبقوں میں اسلام کی ہیئت بطور ایک عملی مذہب
کے محفوظ ہے ، لیکن ان میں بہر نوع ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مغرب زدہ تعلیم
یافتہ طبقے کے مقابلے میں اسلامی تعلیمات سے تا ثر کا جذبہ زیادہ ہے اگر چے
ان کی سمجھ کے مطابق خام حالت میں ہے۔اس بیگانگی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ
مغربی سائنس جس سے ان کی ذہنی نشو و نما ہوئی، مذہبی تعلیم کی صداقت کے
خلاف کو ئی معقول دلیل پیش کرتی ہے، بلکہ مغربی تہذیب کا ذہنی ماحول مذہب
کے اتنا خلاف ہے کہ نوجوا ن مسلم نسل کی مذہبی صلاحیتوں کو دبا دیتا ہے۔
آگے مزید لکھتے ہیں:’’ مذہبی عقیدہ یا بے عقیدگی محض دلائل پر شاذونادر ہی
بنی رہتی ہے ،بعض صورتوں میں عقیدہ یا بے عقید گی وجدان سے حاصل ہو جاتی ہے
،یا یو ں کہیں کہ داخلی بصیرت سے لیکن بیشتر یہ انسان کو اس کے ذہنی ماحول
سے ملتی ہے ، ایک ایسے بچے کا تصور کیجئے جس کی شروع ہی سے بہترین موسیقی
نغمات سننے کی تربیت ہوئی ہے، اس کے کان تال ،سر اور آہنگ کی تمیز کرنے سے
مانوس ہو گئے ہوں، تو آگے بڑھ کر وہ اس قابل ہو جا ئیگا کہ موسیقی کی دشوار
سے دشوار لحنیں اگر خود نہ ادا کر سکے گا توکم از کم انہیں سمجھ سکے گا ،لیکن
جس بچے نے موسیقی کی طرح کوئی چیز نہیں سنی ہے ، اسے بعد کو موسیقی کے
ابتدائی مراحل سمجھنے میں دشواری ہوگی۔ مذہبی تربیت کا بھی یہ حال ہے ،چونکہ
بہت سے ایسے افراد ہیں جن کو قدرت نے موسیقی کے لیے موزوں سماعت بالکل نہیں
دی ہے ، اسی طرح بہت سے ایسے افراد ہیں، جن کے کان مذہبی آواز سے بالکل نا
آشناہیں ،لیکن اوسط درجے کے کثیر التعداد انسان ایسے ہیں جن کے لیے مذہبی
عقیدہ یا بد عقیدگی کا تعین اس ماحول سے ہو تا ہے، جن میں ان کی پرورش ہوئی
ہے ،آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ہر بچہ خالص د ین اسلام کی فطرت پر
پیدا ہوتا ہے یہ اس کے والدین ہیں جو اسے یہودی بناتے ہیں یا عیسائی یا بت
پرست ‘‘( اسلام دوراہے پر ص ۵۹)
عوامی سطح پر بھی عالم اسلام کو اپنا محاسبہ کرنا ہے، کیونکہ عوام حکومت کی
مسلسل مراعات سے سہل پسند ہو گئی ۔اور دنیا کے حالات کو دیکھتے ہو ئے وہ
سہل پسندی کے اس بھنور سے نکلنے کو تیا رنہیں ۔یہ عالم اسلام کے لیے بڑا
افسوس ناک معاملہ ہے ، اس لیے اس پر اقدام کی ضرورت ہے۔ ویسے غالباً سعودی
حکومت نے اس سمت میں قدم بڑھا یا ہے، اگر ایسا ہے تو سعودی حکومت تبریک کی
مستحق ہے۔ اور اس کا یہ اقدام مستقبل میں سعودی حکومت اور وہاں کے تمام
شہریوں کے لیئے نفع بخش ہو گا۔ در اصل حال ہی میں سعودی حکومت کو لیکر
امریکی کانگریس میں ایک ہلچل سی ہوئی تھی۔غالباًاس کے بعد امریکہ نے سعودی
حکومت سے تیل خریدنا بھی تقریباًبند کردیا تھا ،جس کی وجہ سے سعودی معیشت
کمزور پڑنے لگی ۔حالات یہاں تک آگئے تھے کہ سعودی حکومت کو خود اپنے شہریوں
کو لیکر سخت فیصلے لینے پڑے ۔تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا گیا ،بجلی
اور ٹیکس میں کچھ رعایتیں کم کی جس کی وجہ سے وہاں کے باشندوں کو بھاری
مشکلات کا سامنا ہوا، ایک عجیب سی بے چینی اور کرب وہاں کاہر شہری محسوس
کررہا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگا نا مشکل نہیں کہ وہاں کی عوام اس چھوٹے سے
بحران کو برداشت نہیں کررہی، تو وہ کسی بڑے حالات کا مقابلہ کیسے کر سکتے
ہیں ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ دولت اور مسلسل عیش وآرام کی وجہ سے ان میں وہ
ہمت نہیں جو فاتح قوموں میں ہوتی ہے، غالباً علامہ اقبال نے اسی پس منظر
میں کہا تھا:
اے پیرحرم!رسم و رہ خانقاہی چھوڑ
مقصود سمجھ میری نوائے سحری کا
اﷲ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت
دے ان کو سبق خودشکنی ، خود نگری کا
تو ان کو سکھا خارا شگافی کے طریقے
مغر ب نے سکھا یا انہیں فن شیشہ گری کا
دل توڑ گئی ان کادو صد یوں کی غلامی
دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا
حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام کے پاس جو سب سے بڑا سرمایہ حیات ہے وہ ان کی
نئی نسل ہے۔ کیوں کہ آنے والے کل کا مقابلہ نئی نسل ہی کو کرنا ہے۔ اور وہ
مقابلہ اب سے زیادہ پر خطر ہوگا،اس میں ایمان اور عقیدہ کے ساتھ ساتھ تہذیب
و تمدن اور سماجی زندگی میں اسلامی قوانین وغیر ہ جیسے اسلام کے بنیادی
اوصاف بھی شامل ہوں گے ۔اس پس منظر میں سوال یہ ہے کہ عالم اسلام کے پاس اس
زہر کا کیا علاج ہے۔یقینا ادائے مجبوری کوبہانہ بناکر کو ئی قوم اپنی ذمہ
داری سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتی۔دنیا میں وہی قومیں فاتح اور متحرک کہلاتی
ہیں جو حالا ت کا مقابلہ کر کے اپنے لئے دریاؤں میں راستے بنالیتی ہیں ۔
چٹانے بھی اگر ان کے سامنے آجائیں تو وہ ان کے بلند حوصلوں سے ریزہ ریزہ ہو
جا تی ہیں، یہ مبالغہ آرائی نہیں بلکہ تاریخ میں اس پرمثالیں موجود ہیں، در
خیبر کو کس نے اکھاڑا؟قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں کس نے زلزلے پیدا کیے ؟
بیت المقدس کو کس نے آزاد کرایا ؟ کشتیوں کو جلانے والے کون تھے؟ مزیدسلطان
محمد فاتح کا فتح قسطنطیہ کی تاریخ کا مطالعہ اس کے لئے کا فی ہو گا ،کہ
کیسے قسطنطیہ کی فولادی چٹانیں راکھ کا ڈھیر ہوگئی؟ لیکن اب خون و جگر سے
کون کھیلے گا ؟ حو صلہ اور جذبا ت سب ندارد ۔ اب یہی کہا جا سکتاہے کہ نہ
دریا میں میں جوش ہوگا نہ ساحل کو گلہ۔ اقبال نے اس موقع پر صحیح کہا:
محروم رہا دولت دریا سے وہ غواص کرتا نہیں جو صحبت ساحل سے کنا رہ
|