گرو اپنے جھولے نما تخت پر بیٹھی تھی ۔۔۔ پارو ہاتھ میں
ایک بڑا سا رجسٹر لئے اس کے قریب ہی پڑی ایک کرسی پر بیٹھی اس رجسٹر میں
کچھ لکھنے میں مصروف تھی ۔۔۔۔۔
اچھا اس مہینے ایس ایچ او نے مٹھائی بڑھا دینے کی بات کی ہے ۔۔۔۔ دس کی جگہ
پندرہ مُوا اور لے گا ۔۔۔
ہائے گرو جی ۔۔۔۔ پولیس والا تو بشیر دادے سے بھی دوہاتھ آگے نکل گیا ہے
۔۔۔ بشیر دادا سات پر مان گیا ۔۔۔
ہاں بولا تھا میں نے اس کمینے کو کے اتنا میری بچیاں مل کر نہیں کما تیں
۔۔۔۔ جتنے کی وہ ڈمانڈ کر رہا ہے ۔۔۔۔ پر منحوس کہتا ہے کہ دھندے پر بٹھا
دو سب کو ہُن برسے گا پھر چاروں طرف سے ۔۔۔۔ (تھوڑا وقفہ لے کر ) منحوس ۔۔۔
کمینہ کہینکا ۔۔۔ منہ تک آیا کہ اپنی بہن کو بٹھا دے چکلے پر ۔۔۔ لیکن بس
دل میں کوستی ہی رہ گئی ۔۔۔
ہائے ہائے ۔۔۔۔ گرو جی ہم بھی عام لوگوں کی طرح زندگی کیوں نہیں بسر کر
سکتیں ؟
پارو بولی تو گرو جی طنزیہ ہنسی ہنسی تھی ۔۔۔ پھر آسمان کی طرف نگاہ اُٹھا
کر دیکھا تھا ۔۔۔
عام انسان ۔۔۔ ہنہ ۔۔۔ ہم عام انسان اگر ہوتیں تو ہمیں اپنے یوں خود سے الگ
ہی کیوں کرتے ۔۔۔۔ ہم کچرا ہیں پارو ۔۔۔ ایسا کُوڑا کرکٹ ۔۔۔ جسے گھر میں
نہیں رکھا جاتا ۔۔۔۔ گھر کے باہر پھینک دیا جاتا ہے ۔۔۔۔
ہاں گرو جی اور پھر یہی شریف لوگ ہمیں اپنے تہواروں میں شادی بیاہ میں
بلاتے ہیں ۔۔۔۔ کتنے دوغلے ہیں یہ لوگ ۔۔۔
اگر نہ بلائیں تو تمہارا اور ہمارا گزارا کیسے ہوگا ۔۔۔۔۔
ہنس کر پارو کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔ تبھی میرا نامی ہجڑا اندر داخل ہوا تھا
ہانپتا ہوا ۔۔۔۔
غضب ہوگیا گرو جی ۔۔۔ غضب ہوگیا ۔۔۔
ارے میرا تُو سو میل کی ریس جیت کر آرہی ہے کیا ۔۔۔۔
نن نہیں تو گرو جی ۔۔۔۔
پھر اتنا سانس کیوں پھولا ہوا ہے ۔۔۔۔۔
گرو جی ۔۔۔ وہ وہ شش شیلا نے خودکشی کی کوشش کی ہے ۔۔۔ شبنم اور وہ گھبرو
صاحب اسے ہسپتال لے گئے ہیں ۔۔۔
کیا !!!!!!!!!
گرو جی ایک دم سے جھولا نما تخت سے اُٹھ بیٹھی تھی ۔۔۔ سینے پر ہاتھ رکھے
وہ غیر یقینی انداز میں میرا کو دیکھنے لگی تھی ۔۔۔۔
×××××××××
سس سر ۔۔۔۔
وہ انہیں وہاں دیکھ کر بس اتنا ہی بول پایا تھا ۔۔۔۔ آگے کچھ بولا ہی نہیں
گیا ۔۔۔۔ اس کا سر پھر سے گھومنے لگا تھا ۔۔۔۔ وہ پھر سے بے ہوش ہوگیا تھا
۔۔۔
صاحب دیکھو ۔۔۔ اسے کیا ہوا ہے ۔۔۔۔ ہائے میرا بچہ ۔۔۔۔
شبنم نے اسے پھر بے ہوش ہوتے دیکھا تو گھبرا کر سر ابرا سے بولا تھا ۔۔۔۔۔
تو سر ابرا گھبرا کر اس کے قریب آگئے تھے اور سائیڈ ٹیبل پر پڑا کاڈلیس
اُٹھا کر کوڈ نمبر مین نرس کا ڈائل کرنے لگے تھے ۔۔
یس پلیز روم نمبر ایک سو گیارہ ۔۔۔۔ ہری پلیز ۔۔۔ تھینک یو ۔۔۔۔
دو منٹ بعد ہی ڈاکٹر اور دو تین نرسز روم میں موجود تھے ۔۔۔ ڈاکٹر شہباز پر
جھکا اسے چیک کر رہا تھا ۔۔۔۔
ابھی کچھ دیر بعد انہیں ہوش آجائے گا تو پلیز ٹینشن کی کوئی بات نہیں کرنی
ہے ۔۔۔۔۔ ویسے اب خطرے کی کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔۔ اوکے ابرار ۔۔۔۔ یار کبھی
ہمارے غریب خانے پر بھی آجایا کرو ۔۔۔۔۔ زمانے بعد تو نظر آتے ہو تم ۔۔۔۔
چلو دو دن بعد ملتے ہیں تم سے ۔۔۔۔۔ ویسے تھینکس یار ۔۔۔۔۔
مائے پلژر ڈئر ۔۔۔۔
ڈاکٹر ظہیر مسکرا کر بولے تھے ۔۔۔ اور ہاتھ ملاتے ہوئے باہر نکل گئے
۔۔۔۔۔تو پروفیسر ابرار بے خبر بیڈ پر پڑے شہباز کی طرف متوجہ ہوئے تھے
۔۔۔۔۔ جو بے ہوشی کے عالم میں بھی ٹینس میں لگ رہا تھا ۔۔۔۔
××××××××××××××
وہ چھیکے کو کھانا کھلا رہی تھی ۔۔۔ یا یوں کہہ لیں ۔۔۔ کھلانے کی ناکام
کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔ چھیکے نے سختی سے اپنا منہ بند کیا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ جب
وہ اسے ڈانٹتی تو پیلی بتیسی کی جھلک دکھلا کر پھر منہ بند کر کے بیٹھ جاتا
۔۔۔۔ نجو کا پارہ اب ہائی ہونے لگا تھا ۔۔۔۔ مگر ایک بات تھی غصے کی تیز
نجو زمانے بھر سے لڑ لیتی تھی ۔۔۔۔۔ محلے کے لڑکے تک اس سے دبتے تھے ۔۔۔۔
سامنے والی کلن (رضیہ ) کے بیٹے خالد عرف کلو نے ایک دفع گلی میں راستہ روک
کر بات کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔ تو اپنی اکلوتی چاکلیٹی چپل سے پورے
پاکستان کا نقشہ اس کے چہرے پر بنا ڈالا تھا ۔۔۔۔۔ مار مار کر ادھ موا کر
دیا تھا ۔۔۔۔ تب سے ہی پھر کسی لڑکے کی جرت ہی نہیں ہوئی اس کا یا پھر زیبو
کا راستہ روکنے کی ۔۔۔۔ مگر یہی وہ نجو تھی جو اپنے دماغی اور جسمانی طور
پر کمزور بھائی کو کبھی ہلکے سے ڈانٹا بھی ہو ۔۔۔۔ مجال ہے جو چھیکے کو کچھ
اُلٹا سیدھا بول بھی دے ۔۔۔۔ ہر کام دوڑ کر کرتی تھی اس کا ۔۔۔ ہالانکے
نکمے پن میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔۔۔۔ مگر چھیکے کے لئے وہ ہر وقت
حاضر ہوتی تھی ۔۔۔۔۔ ہاں البتہ کھانے کے چور چھیکو کو کھلاتے وقت ہی ڈانٹ
ڈپٹ کرتی تھی ۔۔۔۔ پر کھانا پورا کھلا کر ہی اُٹھتی تھی ۔۔۔ چھیکا جس کا
پورا ناب تو اماں نے بڑا اچھا رکھا تھا ۔۔۔۔ فراز شہاب الدین مگر سب ہی اسے
چھیکا بولنے لگے تھے ۔۔۔
چودہ پندرا سال کا چھیکا نجو سے دو سال ہی چھوٹا تھا ۔۔۔۔ اور جہاں تک اماں
تھیں تو بیچاری شادی کے بعد سے ہی محنت مشقت کو ہی اپنا نسبالعین سمجھ لیا
تھا ۔۔۔۔ ابا پہلے بھی جب صحت تھی کہاں اتنا کماتے تھے ۔۔۔۔ جو کماتے تھے
اس میں سے آدھے گھر لاتے اور آدھے جووے میں ہار جاتے ۔۔۔۔۔ شکر ہے نشے کی
لت نہیں پڑی ورنہ اس مہنگائی کے دور میں اماں کیا کرتیں پھر ۔۔۔۔ اماں
چوڑیوں کی فیکٹری میں کام کرتی تھیں ۔۔۔۔۔ چھوٹی سی اس ایک کمرے کی فیکٹری
جس کا مالک نہایت کنجوس تھا ۔۔۔۔ اور ابا ایک پرچون کی دکان پر ملازم تھے
۔۔۔۔ ابا جن کی زبان کسی لڑاکا عورت کی طرح چلتی تھی ۔۔۔۔ ہر وقت بُھنائے
بُھنائے سے گھر میں رہتے تھے ۔۔۔۔ مگر صرف گھر کی حد تک ۔۔۔۔ باہر تو ان سے
زیادہ حلیم بزلہ خنج تو کوئی اور ہوہی نہیں سکتا تھا ۔۔۔۔ گھر میں دمہ کا
اٹیک ہر وقت ہوتا تھا ان پر اور گھر کے باہر پتہ نہیں یہ بیماری کہاں رفو
ہوجاتی تھی ۔۔۔۔ یہ آج تک نجو کو سمجھ نہیں آیا تھا ۔۔۔۔ زیبو جو نجو سے
تقریباً چار سال بڑی تھی بہت ہی خاموش اور کام سے کام رکھنے والی لڑکی تھی
۔۔۔۔ اماں نے ایک کام اچھا کیا تھا جیسے تیسے بچیوں کو میٹرک تک پڑھا دیا
تھا ۔۔۔ آگے دونوں بہنوں نے خود ٹیوشنز پڑھا پڑھا کر اپنے تعلیمی اخراجات
پورے کئے تھے ۔۔۔۔ اور اب زینب ایک اسکول میں استانی لگ گئی تھی ۔۔۔۔ انگلش
میڈئیم اسکول تھا ۔۔۔ اور سیلری بھی مناسب تھی ۔۔۔۔ نازیہ عرف نجو بی ایس
سی اونرز کر رہی تھی ۔۔۔ آگے اس کے بڑے بڑے پلان تھے ۔۔۔ اچھے نمبر آنے کے
باوجود بھی وہ میڈیکل لائن میں نہیں جاسکی تھی ۔۔۔۔ پڑھائی کا خرچہ کون
اُٹھا تا ۔۔۔ اب اس کا ارادہ تھا کہ وہ سائیڈ جاب کرتے ہوئے اپنی تعلیم کو
پورا کرے گی مگر اماں کے ارادے تو کچھ اور ہی تھے ۔۔۔وہ دونوں بہنوں کو
بیاہنے کا سوچ رہی تھیں مگر ابا سے جب ذکر کیا تو وہ اماں کو مغلظات بکنے
لگے ۔۔۔۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر زیبو اور نجو کی شادی کردی تو ان کا خرچہ
پانی کون دے گا۔۔ ابا بڑے خودغرض انسان تھے ۔۔۔ اپنے علاوہ انہیں کوئی نظر
ہی نہیں آتا تھا ۔۔۔ مگر اپنے دل کی بات کھل کر بول بھی نہیں سکتے تھے ۔۔۔۔
مگر جو بھی رشتہ بچیوں کا آتا تو اس میں سو کیڑے نکال کر رد کر دیتے ۔۔۔۔
اور اماں ٹھنڈی سانس بھر کر رہ جاتیں ۔۔۔۔ بچیاں کوئی حور پری تھوڑی تھیں
ہاں البتہ ناک نقشہ کافی دلکش تھا ۔۔۔۔۔ مگر ایک عمر ہوتی ہے رشتے آنے کی
بھی اور یہی بات اماں کو کھائے جا رہی تھی ۔۔۔۔
دیکھ چھیکے اب اگر تم نے منہ نہیں کھولا نا تو میں تم سے بات نہیں کرونگی
۔۔۔۔
وہ چھیکے سے ناراض لہجے میں بولی تھی ۔۔۔۔ اور پلیٹ اُٹھا کر سامنے سے اس
کے اُٹھ گئی تھی ۔۔۔ تبھی چھیکے نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا ۔۔۔۔۔
نا نا کھ کھاؤنگا ۔۔۔۔۔۔
منہ کھول کر ہاتھ کے اشارے سے بولا تھا ۔۔۔ تو وہ مسکرا کر بیٹھ گئی تھی
واپس ۔۔۔
شاباش ۔۔۔اگر تم شروع میں ہی مان جاتے تو اچھا تھا ۔۔۔ یہ نخرے کیوں کرتے
ہو ۔۔۔۔
نجی پپ پالی پالی (پیاری پیاری) ۔۔۔۔۔
معصومیت سے اپنے دونوں ہاتھوں کا کٹورا سا بنا کر نجو کا چہرا تھاما تھا
۔۔۔ اور پٹ پٹ اسے دیکھنے لگا تھا ۔۔۔۔
ایک دم ہی باہر کا دروازہ زور زور سے بجانے لگا تھا کوئی ۔۔۔۔
ارے کون ہوبھائی ۔۔۔۔ کیا دروازہ توڑنے کا ارادہ ہے کیا ۔۔۔۔۔
وہ غصے سے بولتی ہوئی دروازے کی طرف دوڑی تھی ۔۔۔ اور دروازہ کھولا تو کلو
کھڑا تھا ۔۔۔۔
کلو میرے ہاتھوں سے تو مارا جائے گا ایک دن یہ کیا بدتمیزی ہے ۔۔۔۔
مار تم بعد میں لینا ۔۔۔ پہلے میری بات سن لو ۔۔۔۔
بکو ۔۔۔۔۔۔
زیبو کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے ۔۔۔۔
کیا !!!!!
وہ دھک سے رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔
کک کہاں ہے وہ ۔۔۔۔۔
اسے ہسپتال لے گئے ہیں ۔۔۔۔ میں اور شاہد گزر رہے تھے جب وہ بس سے اتر رہی
تھی تبھی ایک گاڑی نے اسے ٹکر مار دی ۔۔۔۔ بڑے ہسپتال لے گئے ہیں اسے سب
۔۔۔۔
ایک منٹ ٹہرو مم میں چلتی ہوں تمہارے ساتھ ۔۔۔۔
ہاں ہاں چلو ۔۔۔۔
اسی حالت میں تیزی سے چھیکے کو ساتھ لے کر نکلی تھی ۔۔۔ سر پر دوپٹہ اچھی
طرح سے اوڑھ کر ۔۔۔
کیا چھیکا بھی ساتھ جائے گا ۔۔۔۔۔
اماں ابا دونوں ہی گھر پر نہیں ہیں اور چھیکے کو میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی
۔۔۔۔
وہ یہ کہہ کر دروازہ بند کرتی ہوئی چھیکے کا ہاتھ پکڑ کر پلٹی تو کلو کو
پتلی سی گلی میں اپنی کھٹارا مہران کے پاس کھڑے دیکھا ۔۔۔۔ تھوڑی دیر کو تو
اس کا ماتھا ٹھنکا تھا ۔۔۔ مگر بہن کی صورت نظروں میں گھوم گئی تھی تو اس
شک کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے وہ چھیکے کے ساتھ پیچھے بیک سیٹ پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔
شاہد اور کلو آگے بیٹھ گئے تھے ۔۔۔ کلو نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر شاہد کو
آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا تھا ۔۔۔ اور دونوں ہی کے ہونٹوں پر ایک
خبیثانہ مسکراہٹ رقص کرنے لگی تھی ۔۔۔۔۔
××××××××××××××
باقی آئندہ ۔۔۔۔
|