جنگلات کی حفاظت کا ایک نیاء تاریخی باب اور حکمت عملی کی ضرورت

جنگلات میں اچانک آتشزدگی کوئی نئی بات نہیں ،ہر سال جنگلات کے وسیع سلسلہ آگ کی لپیٹ میں آجانے کا مشاہدہ ہم کرتے چلے آئے۔ 2017 کا آخری مہینہ ماحولیاتی بقاء کی تاریخ کا ایک حصہ بن گیا ۔ ماحولیاتی بقاء کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے محافظین میں دو افراد پہلے ہی جاں بحق ہو چکے جبکہ حبیب الرحمٰن سکنہ چربٹ کو اس ماہ کی 27تاریخ کو ہزاروں اشک بار آنکھوں کی موجودگی میں سپرد خاک کیا گیا۔ یہ لوگ تو اس جہاں سے چلے گئے مگر ماحولیاتی بقاء کیلئے ایک تاریخ رقم کر گئے۔ حکومت سے بھی ہماری گزارش ہے ان کو ورثاء کو ساتھ بھر پور تعاون کیا جائے ۔ اس قسم کے واقعات کے روک تھام کیلئے آہندہ کیلئے موٗثر حکمت عملی بھی وقت کی ایک اہم ضرورت ہے چند تکنیکی طریقوں سے جنگلات کو بچایا جا سکتا ہے

پہلے میں بتانا ضروری خیال کرتا ہوں کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دانستہ طور پر کسی جلتی ماچس کی تیلی کے پھینکے جانے کے بعد آگ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک وسیع علاقہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔چند سال قبل ایک صاحب نے سانپ کو لاٹھیوں سے مارنے کے کوشش کی مگر وہ چھپ کر جھاڑیوں میں روپوش ہو گیا ،انہوں نے سانپ کو جلانے کیلئے جھاڑی کو آگ لگا دی اور ان لمحات میں ایک جنگل آگ کی لپیٹ میں آ گیا۔ انہوں نے اپنے ذہن کے مطابق ایک بہتر کام کیا مگر اس کے نقصانات کا شاہد ان کو اندازہ یا شعور نہ تھا۔ گرمیوں کے موسم میں سیاحوں کے ایک بڑی تعداد پہاڑی علاقوں کا رُخ کرتی ہے۔ بعض لوگ جلتا ہوا سگریٹ زمیں پر پھینک دیتے ہیں یہ بھی کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ہو سکتاہے۔ یہ بھی سُن رکھا ہے کہ انتہائی سخت گرمی میں گھاس وغیرہ کے آپس میں ٹکرانے سے آگ کے شعلے بلند ہوتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مخصوص درجہ حرارت میں بیک وقت متعدد جگہوں پر جنگل جل رہے ہوتے ہیں لیکن اس میں شرارت کا عمل دخل بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی سنا ہے کہ خود کار آتشزدگی صرف بانس کے جنگلات میں لگتی ہے جو برما اور آسام میں واقع ہیں۔ ایک بزرگ نے بتایا کہ کئی ایسے پہاڑ ہیں جو ہر سال آگ لگ جانے کی وجہ سے ویران ہو گئے ان میں بے شمار تیتر تھے جو جل چکے اور اب ان کی صدائیں نہیں آتیں، وہ لوگ جو لکڑی کی فروخت کے کاروباری ہیں جنگلات میں آگ لگا دیتے ہیں تاکہ انہیں خشک لکڑی مل سکے یا جانوروں کیلئے صحت مند گھاس کے حصول کیلئے بھی لوگ پتے وغیرہ جلانے کیلئے آگ سلگا دیتے ہیں، وجہ کوئی بھی ہو آگ جہاں ہماری دوست ہے، ہم اس پر کھانا پکاتے ہیں، اس سے سردی کی شدت کو کم کرتے ہیں اس کو بعض اوقات روشنی کیلئے استعمال کرتے ہیں اور اس کو صنعتی طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے ہماری آگ کا منفی استعمال خطرناک بھی ہے اور نقصان دہ بھی ہے۔ جنگلات کا وسیع سلسلہ ہماری ماحولیاتی مستقبل کا ضامن ہے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہرے بھرے درخت ہمیں ورثہ میں ملے ہیں،ان درختوں کے اندر پرندوں کے گھونسلے موجود ہوتے ہیں ان گھونسلوں کے اندر ان کے بچے اور اور انڈے ہوتے ہیں، اچانک آتشزدگی سے ہزاروں کی تعداد میں پرندے اُڑ کر نا معلوم مقام کی طرف چلے جاتے ہیں جبکہ ان کے بچے اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ اپنی جان بچا سکیں اور زندہ جل جاتے ہیں۔ آگ کے دوران پرندوں کی چیخ،پکار انسانیت کو متوجہ کر رہی ہوتی ہے۔درختوں کے سائے تلے جنگلی حیات جھاڑیوں کے اندر انسانوں سے چھپ چھپا کہ رہ رہی ہوتی ہے۔آگ سے اس کا نا قابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ہیں۔ گزشتہ سال میں نے ایک پہاڑی کے عقب سے دُہنوا ں دار کے بادلوں کے ایک سلسلہ کا مشاہدہ کیا تو کسی نے بتایا کہ پہاڑی کے پیچھے تین دن سے آگ لگی ہے مجھے صحن میں سوتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں آگ پہاڑی کو عبور کرتے ہوئے آبادی تک نہ پہنچ پائے اگر ایسا ہو گیا تو قیمتی انسانی جانوں کو بھی خطرہ ہے اسی اثنا میں آندہی آئی،بادل چھائے بارش شروع ہو گئی اور آگ بجھ گئی۔ جنگلات کی بقاء اور رونقیں ہمارے ماحولیاتی مُستقبل کی ضامن ہیں ان کی بقاء کیلئے حکومتی سطح پر بلین ٹری پراجیکٹ شروع کیا گیا اور جنگلات کے کٹاؤ پر پابندی لگائی گئی جو ایک جس کی نہ صرف مقای بلکہ غیر مُلکی میڈیا نے بھی تعریف کی۔ اس کالم میں میں تجاویز پر مشتمل کچھ الفاظ شامل کرتے ہوئے حکومتی اداروں، ماحولیاتی تنظیموں، اور اعوام سے جنگلات کے تحفظ کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کیلئے پُر اُمید ہوں۔ لوگوں نے ذاتی مکانات اور فیکٹریوں کیلئے فاہر ایگٹنشرز لگائے ہوتے ہیں مگر جنگلات کے بچاؤ کیلئے اس طرح کی کوئی سہولت موجود نہیں۔ مختلف جگہوں پر پانی کے ڈرم رکھے جائیں اور ان میں بارشوں کا پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات سے بھی جنگلات کو پچایا جا سکتا ہے۔ ایک فطری عمل ہے کی جب آگ کے تسلسل میں کوئی کچا یا پکا راستہ آ جائے تو آگ ادہر ہی رک جاتی ہے، مختلف جگہوں پر راستوں کی تعمیر بھی اس سلسلہ میں کارآمد ہو سکتی ہے۔ جنگلات کی حفاظت میں مقامی افراد کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں ریسکو یا ایمرجنسی کی سہولیات کا فقدان ہوتا ہے۔ اچانک آتشزدگی کی صورت میں مقامی لوگ سبز جھاڑیوں کی مدد سے آگ بجھاتے ہیں۔آج تک مشاہدہ میں نہیں آیا کہ کسی ادارہ نے مقامی طور پر درختوں کی حفاضت کیلئے لوگوں کے شعور اجاگر کرنے کی کوئی سعی کی ہو ۔ اس قسم کی تنظیموں کا فقدان بھی ماحولیاتیبحرانوں کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ ہمیں وہ وقت اب بھی یاد ہے جب چیڑھ کے درختوں کے ساتھ مٹی کی ڈولیاں ناندھ دی جاتی تھی اس عمل سے بروزہ ان میں جمع ہوتا تھا اور اس جمع شدہ پروزہ کو ہری پور میں محکمہ جنگلات کے زیر انتظام فیکٹڑی میں تارپین کی فیکٹری میں پہنچایا جاتا تھا۔ اگر آج بھی نجی اداروں کے ذریعہ اس کاوش کو دہرایا جائے تو اس درخت کے جنگلات کو بچایا سکتا ہے۔ جتنا درخت لگانا اہم ہیاتنا ہی ہ درختوں کو بچانا اہمیت کا حامل ہے۔ اور درختوں کو بچانے کیلئے جن افراد نے قربانیاں دی ہیں تاریخ انہیں کبھی بھی فراموش نہیں کرے گی۔

Fazal Rahim Awan
About the Author: Fazal Rahim Awan Read More Articles by Fazal Rahim Awan: 3 Articles with 2450 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.