1839میں سندھ پر قبضے کے بعد ایسٹ اانڈیا کمپنی کو یورپ
تک رسائی کے لیے کراچی کی صورت میں ایک بندرگاہ میسر آگئی جسے مدنظر رکھتے
ہوئے انہوں نے کراچی کو اپنا صدر مقام بنالیا ۔ بڑی تعداد میں ماہرین
تعمیرات انگلستان اور انڈیا سے طلب کیے گئے جنہوں نےکراچی میں عمارتوں کی
تعمیر کے علاوہ ذرائع نقل و حمل کے لیے سڑکیں اور گلیاں تعمیر کیں۔ ان کے
نام انگریز حکام اور معروف شخصیات سے موسوم کیے گئے۔ قیام پاکستان کے بعد
جب نئی مملکت میں ہر سطح پر نظریاتی تبدیلیاں کی جارہی تھیں، تو اس دوران
انگریزوں اور ہندوؤں کے نام سے موسوم مسڑکیں اور گلیاں جن سے ہماری قومی
شناخت متاثر ہورہی تھی، ان کی تبدیلی کا عمل بھی شروع کیا گیا۔ ایسی ہی ایک
شاہراہ اور اسٹریٹ کا تذکرہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے جن کے نام تبدیل کرکے
قومی اکابرین سے موسوم کیے گئے۔
ابم اے جناح روڈ
بابائے قوم محمد علی جناح سے منسوب یہ سڑک 1949سے قبل بندر روڈ کہلاتی تھی۔
قائداعظم کی رحلت کے بعد اس کا نام ایم اے جناح روڈ رکھ دیا گیا تھا لیکن
یہ طویل عرصے تک بندر روڈ کے نام سے ہی معروف رہی، جب کہ آج بھی بسوں اور
ویگنوں کے کنڈکٹر حضرات اسے پرانے نام سےہی پکارتے ہیں۔ پونے تین میل طویل
اس سڑک کا نام سنتے ہی ذہن میں ایسی سڑک کا تصور ابھرتا ہے جہاں ہر طرف
’’بندر‘‘ اچھلتے کودتے نظر آتے ہوں مگر ایسی بات نہیں تھی۔ یہ شریر جانور
تو مذکورہ سڑک سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر چڑیا گھر کے پنجروں میں تفریح کی
غرض سے آنے والے عورتوں اور بچوں کو محظوظ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس سڑک
کی وجہ تسمیہ ، کیماڑی کی بندرگاہ ہے۔ کراچی میں دارالحکومت بنانے کے بعد
برطانوی حکومت کو گرومندرسےبندرگاہ تک ایک مرکزی شاہ راہ کی تعمیر کی ضرورت
محسوس ہوئی ، اس نے ایک خوب صورت سڑکتعمیر کرکے اس کا نام بندرروڈ رکھ
دیا۔اس دور میں یہ سڑک کافی کشادہ تھی، سڑک کے دونوں اطراف رومن اور گوتھک
طرز کی عمارتیں بنی ہوئی تھیں۔ ان میں سے بیشترقدیم عمارتیں آج بھی بوسیدہ
حالت میں موجود ہیں۔تقسیم سے قبل حاجی مولو ڈینو دھرم شالا بنایا گیا، جہاں
دور دراز سے آنے والے مسافر حضرات قیام کیا کرتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد
جب مہاجرین کی آمد ہوئی توپرانی نمائش کے خالی میدان، رام باغ کے بعد
زیادہ تر افراد نے اس مسافر خانے میں بھی قیام کیا، جس کے بعد اس کا نام
بھی تبدیل کرکے ’’مولوی مسافر خانہ‘‘ رکھ دیا گیا۔1740میں انگریزوں کا پہلا
قبرستان ، اسی مسافر خانے کے سامنے بنا یا گیاتھا، جو اب قصہ پارینہ بن چکا
ہے اور اس کی جگہ شاپنگ سینٹر اور پلازہ تعمیر ہوگیا ہے۔ ریڈیو پاکستان،
سعید منزل، سوامی نارائن مندر، تھیوسوفیکل ہال، سکھن مینشن ،موتن داس
مارکیٹ، کسٹم ہاؤس، کراچی پورٹ ٹرسٹ بلڈنگ، میونسپل کارپوریشن کی محل نما
عمارت، بنک آف انڈیا، سٹی کورٹ ، جسے اسمال کاز کورٹ کہتے تھے،ڈینسو ہال
اس دور کی یادگار عمارتیں ہیں لیکن جو تاریخی حیثیت غلام حسین خالق ڈینا
ہال، کو حاصل ہے، وہ کسی بھی عمارت کو حاصل نہیں ہے۔ اس خوبصورت عمارت میں
70 فٹ لمبے اور 40 فٹ چوڑے ہال کے علاوہ لائبریری کے لیے بھی دو کمرے تعمیر
کیے گئے ہیں۔ 14 جولائی 1904 اُس وقت کے کمشنر سندھ مسٹر ینگ ہسبینڈ نے اس
عمارت کا افتتاح کیا۔ تعمیر کے بعد اس کا ہال کراچی کی مختلف سیاسی اور
سماجی تقریبات کے لیے استعمال ہوتا رہا مگر ستمبر 1921 میںتحریک خلافت کے
رہنمامولانا محمد علی جوہر اور ان کے رفقاء پربغاوت مقدمہ چلانے کے لیے اسے
عدالت میں تبدیل کردیا گیااجس کے بعد اس عمارت کو لازوال تاریخی اہمیت حاصل
ہو گئی اور برصغیر کا بچہ بچہ اس کے نام سے واقف ہو گیا۔ خلافتِ تحریک کی
مناسبت سے عمارت کے ہال کے باہر ایک کتبہ آویزاں ہے جس پر یہ تاریخی عبارت
کندہ ہے؛ "9 جولائی 1921 کو تحریکِ خلافت کے جلسے میں مولانا محمد علی جوہر
نے ایک قرارداد منظور کرائی کہ افواجِ برطانیہ میں مسلمانوں کی بھرتی
’’خلاف شرع ‘‘ہے۔ اس جرم پر مولانا اور اُن کے رفقاء پر حکومت برطانیہ نے
بغاوت کا مقدمہ اسی عمارت میں چلایا تھا مگر مقدمہ کی پوری کارروائی کے
دوران مولانا کا مؤقف یہ رہاکہ’’ہم کو خود شوق شہادت کا ہے گواہی کیسی
فیصلہ کر بھی چکو مجرم اقراری کا"۔ریڈیو پاکستان کے ساتھ بہادر شاہ ظفر مار
کیٹ کی عمارت ہےاس ے آگے ایم اے جناح روڈ کے سگنل پر سگھن مینشن (1930) کی
قدیم عمارت ہےجس کی بالائی منزل پرمختلف اشکال میں پتھروں کے مجسمے نظر
آتے ہیں۔ اسی طرح کے مجسمے سابقہ میجٹک سینما کے برابر میں ’’بلیر بلڈنگ‘‘
کی بالکونیوں کے نیچے بھی نظر آتے ہیں۔
سڑک کی تعمیر کے بعدآنے اور جانے والی سڑکوں کے بیچ میں پٹریاں بچھا کر
ٹرام کا ٹریک بنایا گیا جو گرومندر سے شروع ہوکرٹاور پر ڈاکس پر ختم ہوتا
تھا، اسی طرح دوسرا ٹریک کینٹ اسٹیشن سے ایمپریس مارکیٹسے ہوتا ہوا بندر
روڈ سے ملتا تھا، تیسرا ٹریک سولجر بازار کی طرف ے ہوتا ہوا گرومندر پر
اختتام پذیر ہوتا تھا۔ 10اپریل 1885کو کراچی میں ٹرام سروس کا افتتاح کیا
گیا گیا تھا،ابتدا میں اسے بھاپ کے ذریعے چلانے کا تجربہ کیا گیا لکن
دھوئیں اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ایک سال بعد اسے ’’ہارس پاور ‘‘ پر
منتقل کردیا گیا۔ ہر ٹرام کے آگے دو گھوڑے باندھے جاتے تھے جو اسے کھینچتے
ہوئے منزل تک پہنچاتے تھے۔1910میں اس میں مزید تبلدیلی کرکے اس عوامی سواری
کو پٹرولاور 1945میں ڈیزل انجن پر منتقل کردیا گیا۔یہ ٹرامیں ایسٹ انڈیا
ٹراموے کمپنی کی ملکیت تھیں ، پاکستان بننے کے بعد برطانوی کمپنی نے اسے
کراچی کے تاجر، محمد علی چاؤلہ کو فروخت کردیا، جس کے بعد یہ محمد علی
ٹرام وے کمپنی کے نام سے کراچی کی سڑکوں پر دوڑتی تھیں۔ اس دور میں اس شاہ
راہ پر لاریاں، بگھی اور گوڑا گاڑیاں چلتی تھیں جب کہ انگریز حکام اپنی
کاروں میں رواں دواں نظر آتے تھے۔ اس زمانے میں روزانہ رات کو اس سڑک کی
دھلائی کی جاتی تھی اور صبح شیشے کی طرح چمکتی نظر آتی تھی ۔ سڑک کے دونوں
اطراف فٹ پاتھ پر بوہڑ کے درخت خوب صورت منظر پیش کرتے تھے۔بندرروڈ کے
بابائے قوم کے نام سے منسوب ہونے کے بعدکچھ عرصے تک اس کی صورت حال بہتر
رہی، جس کے بعد اس کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی۔ 1975میں ٹرام سروس بند
کردی گئی، اس کی جگہ ڈبل ڈیکر بسیں آگئیں، 70 کے عشرے میں وہ بھی بند کردی
گئیں ۔ کراچی کی آبادی پھیلتی گئی جس کے بعد ایم اے جناح روڈ سکڑ کر
انتہائی تنگ ہوگئی ہے۔جامعکلاتھ مارکیٹ کے بعد ٹاور تک اس شاہراہ کے فٹ
پاتھوں پر پتھاروں اور ٹھیلے والے قابض ہیں جب کہ سڑک کے آدھے حصے پر غیر
قانونی پارکنگ بنا دی گئی ہے۔ روزانہ دھلنے والی اس سڑک پر جگہ جگہ کچرے کے
ڈھیر نظر آتے ہیں، جب کہ سعید منزل کے پاس این جے وی اسکول کی کچرا کنڈی
سے متصل خانہ بدوشوں خاندانوں نے اوپن ایئر رہائش گاہیں قائم کی ہوئی ہیں۔
زیب النسا ء اسٹریٹ
زیب النسا اسٹریٹ، ماضی کی ایک خوب صورت سڑک، حال میں ایک مصروف ترین
تجارتی مرکز بن گئی ہے۔یہ سڑک بھی تقریباً ڈیڑھ صدی قدیم ہے اور انگریز عہد
حکومت میںتعمیر ہوئی تھی۔ یہاں زیادہ تر پارسیوں اور انگریزوں کی دکانیں
تھیں۔ کراچی میںفوجی چھاؤنیاں قائم کرنے کے بعد برطانوی سرکار نے اسے
ماؤنٹ ایلفنسٹن کے نام سے منسوب کردیا، جو افغانستان میں برطانیہ کے پہلے
سفیر تھے اور بعد میں بمبئی کے گورنر کی حیثیت سے ان کی تعیناتی ہوئی تھی۔
انہیں یہ اعزاز 1820میں ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ مستحکم کرانے اور
مہاراشتر میں مرہٹوں کا قلع قمع کرنے کے صلے میں حاصل ہوا تھا۔لیکن بعض
محققین کا کہنا ہے کہ اس اسٹریٹ کا نام ٹی جی ایلفسٹن نام کے اس وکیل سے
منسوب کیا گیا ہے جس نے خالق دینا ہال انگریز وں کی عدالت میںپبلک
پراسیکیوٹر کی حیثیت سے تحریک خلافت کے رہنماؤں مولانامحمد علی جوہراور ان
کے بھائی کے خلاف بغاوت کے مقدمہ میں برٹش سرکار کی پیروی کی تھی۔اس سڑک کی
خوب صورتی اور برطانوی و رومن طرز کی عمارتوں کی وجہ سے ماضی میں اسےکراچی
کے پکاڈلی سرکس کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا پہلے اس کی حدود صدر کے علاقے
میں جہانگیر پارک کے قریب سگنل سے شروع ہوکر پون کلومیٹر کے فاصلے پر ایک
سرور شہید روڈ کے چوراہے پر ختم ہوتی تھیں لیکن اب اس ک طوالت ایم اے جناح
روڈتک دو کلومیٹر پر محیط ہے۔ 1970سے قبل تک اس کا نام ایلفنسٹن اسٹریٹ
رہا،جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں اس کا نام تبدیل کردیا گیا اور اسے
ایک خاتون صحافی، زیب النسا کے نام سے منسوب کرکے ’’زیب النسا اسٹریٹ ‘‘ کے
نام سے پکارا جانے لگا ۔ مذکورہ خاتون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ،
انگریزی اخبارات کی پہلی کالم نگاراورمعروف دانش ورتھیں۔ پاکستان بننے سے
قبل وہ ہندوستان کے اخبارات میں کالم لکھتی رہیں، 1947 کے بعد پاکستان
آگئیں اور یہاں بھی یہ سلسلہ جاری رکھا، اس کے ساتھ وہ ایک اخبار کی
ایڈیٹر اور پبلشر بھی بن گئیں۔ ان کی شادی 1940میں محمد حمید اللہ سے ہوئی
جو مذکورہ شاہراہ پر قائم جوتوں کی ایک مشہور دکان کی کمپنی میںاعلیٰ عہدے
پر فائزتھے۔ اسی مناسبت سے اس شاہراہ کا نام ان کی اہلیہ کے نام پر رکھا
گیا، لیکن بعض لوگ اسے مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی بیٹی کے نام سے
منسوب کرنے کے لیےبضد ہیں۔ ان کے مطابق اس سڑک کا نام شہزادی زیب النسا کے
نام پر زیب النسا اسٹریٹ رکھا گیا جو حسین خاتون ہونے کے علاوہ فارسی کی
مشہور شاعرہ بھی تھیں اور ان کا مجموعہ کلام، ’’دیوان مخفی ‘‘کی صورت میں
موجود ہے۔ اس دور میں اس سڑک پر میمن اور بوہری برادری کی چند دکانوں کے
سوا زیادہ تر دکانیں انگریزوں اور پارسیوں کی تھیںجب کہ کچھ دکانوں پر ہندو
قابض تھے۔ سب سے بڑی دکان ایک میمن تاجر حاجی غلام محمد ڈوسل کی تھی جہاں
سوئی دھاگے سے لے کر اُس دور کی جدید بندوقوں اور دیگر اسلحہ سمیت ہر قسم
کی اشیائے ضرورت دستیاب تھیں ،لیکن یہاں برطانوی حکومت کے اعلیٰ عہدیدار
بھی خریداری کے لیے آتے تھے جن میں سے زیادہ تر نازک مزاج افراد تھے۔، ان
کی ناراضی سے بچنے کے لیے دکان میں داخلے کے لیے اصول و ضوابط بنائے گئے
تھے۔ اندر جانے سے قبل فٹ پاتھ پر جوتے صاف کرائے جاتے، کوٹ یا قمیص کے بٹن
بند کرائے جاتے،، داڑھی ،مونچھوں کو کنگھا پھیر کر درست کیا جاتا۔ یہ دکان
اس زمانے میں لیزنگ کمپنی کا کردار بھی ادا کرتی تھی ۔اس کے علاوہ ایک
پارسی فوٹوگرافر جلال بھائی کی دکان بھی تھی ۔ شام کے وقت اس دکان کے باہر
فٹ پاتھ پر بنے ، جبوترے پر لوگ بید کی کرسیاں ڈال کر بیٹھ جاتے تھے اور
سڑک کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ٹرانسپورٹ کی صورت میں اس پر ٹم
ٹم، بگھی، یا گھوڑے چلا کرتے تھے جب کہ اکا دکا کاریں بھی نظر آتی تھیں۔
قیام پاکستان کے بعد اس سڑک کی رونق میں بھی اضافہ ہوتا گیا، گاڑیوں کی
تعداد بھی بڑھتی گئی۔ سڑک کے ساتھ اس کےفٹ پاتھ بھی پر ہجوم ہوتے گئے اس
سڑک کی دل کشی آج بھی قائم ہے، ہندو، پارسیوں اور انگریزوں کی تعمیر کی
ہوئی عمارتوں کی وجہ سے پکاڈلی سرکس کا نمونہ پیش کرتی ہے لیکن آج اس کے
کردار تبدیل ہوگئے ہیں، انگریزوں، پارسیوں کی جگہ یہاں بڑی تعداد میں مقامی
افراد کے کاروباری مراکز قائم ہوگئے ہیں۔ ماضی میں یہاں زیادہ تر کاسمیٹکس،
ادویات، ہوور نامی انگریز درزی اور ایک پارسی فوٹوگرافر جلال بھائی کی
دکانیں تھیں ۔ٹرانسپورٹ کی صورت میں یہاں ٹم ٹم، بگھی، یا گھوڑے چلا کرتے
تھے جب کہ اکا دکا کاریں بھی نظر آتی تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد اس سڑک کی
رونق میں بھی اضافہ ہوتا گیا، گاڑیوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ سڑک کے ساتھ
اس کےفٹ پاتھ بھی پر ہجوم ہوتے گئے۔ غیر قانونی پارکنگ اور فٹ پاتھوں پر
مصوروں، پتھاروں اور چھاپڑی والوں کے ہجوم نے اس سڑک کے حسن کو ماند کردیا
ہے۔ |