صائمہ،،،،آئی لو یو،،،بٹ،،،مجھے تم سے شادی کرنی ہے۔
صائمہ نے فون بند کردیا،،،کس کا فون تھا بیٹی،،،؟؟؟ صائمہ کے دل نے
اسے بہت ملامت کیا،،،جب اس نے ماں سے جھوٹ بولا،،،
‘‘ماں سعدیہ کی بچی تھی،،ضد کررہی تھی کہ میں لازمی اس کے ساتھ
چلوں ،،،فارم ہاؤس پکنک پر‘‘،،،
صائمہ لاڈ سے ماں کے کندھے پر سر رکھ کر ادا سے بولی،،بھلا میں پورا
دن اپنی ماں کو کیسے اکیلا چھوڑ سکتی ہوں،،،پھر،،،آپ کی طبیعت بھی
ٹھیک نہیں رہتی،،،
ماں نے فخر سے اپنی بیٹی کو دیکھا،،،اور اس کا ماتھا چوم لیا،،،
رات کے تین بج گئے تھے،،،صائمہ کے کانوں میں فیصل کے الفاظ پیا ر
کی پھوار بن کر امڈ رہے تھے،،،نیند اس سے کوسوں میل دور تھی،،،
سائلنٹ پر لگا سیل فون ٹرپنے لگا،،،صائمہ نے ڈرتے ہوئے ‘‘ہیلو‘‘،،،کہا،،،
میری نیندیں اڑا کر سو رہی ہو،کس قدر ظالم ہو،،،اپنے فیصل پر رحم نہیں
آتا؟؟،،،!
دیکھو صائمہ،،،کوئی آگر پسند ہے،،،یا،،،انگیج ہو تو بتادو،،،میں دور چلا
،،،
جاؤں گا،،،
فیصل جوکہ اس کے گھر سے ذرا دور ہی رہتا تھا،،،اب اس کے قریب ہو
گیا تھا۔
صائمہ نے غصے اور نفرت سے مراد بھائی کی باتیں سنیں،،،‘‘وہ لڑکابہت
آوارہ ہے،،،کسی بھی طرح صائمہ کے،،ہماری فیملی کے قابل نہیں،،یہاں
کا سب سے نکما فضول ترین انسان ہے،،،
صائمہ تو معصوم ہے،،،وہ شیطان کا چیلہ،،،بہتر ہے میری بہن گھر میں
ساری عمر گزار دے،،،مگر میں جیتے جی اپنی بہن کو گڑھے میں نہیں
دفن کرسکتا،،،یہ رسم کب کی مر چکی۔۔
صائمہ ٹرین میں بیٹھ کر فیصل کے ساتھ اس کی خالہ کے گھر جارہی
تھی،،رات کے اندھیرے نے صبح تک کے لیے اس کے خاندان کی رسوائی
کو ڈھانپ رکھا تھا،،،
وقت ٹرین کی رفتار سے بھی تیز نکلا۔
صائمہ کی گود میں اس کی بیٹی رو رہی تھی،،،
فیصل آپ اس کا دودھ لائے ہو یا نہیں،،کیا حالت ہوئے جارہی ہے اسکی
فیصل نے زچ ہوکر کہا،،،صائمہ میں ابھی گھر آیا ہوں،،،سیلری میں ابھی
پانچ دن باقی ہیں،،،
صائمہ پھٹ پڑی،،،آپ کے پاس سینما،،آؤٹنگ،،سگریٹ کے لیے پیسے
ہیں،،،اس معصوم کے دودھ کے لیے نہیں،،،
فیصل نے بے شرمی سے کہا،،،مجھ اکیلے نے پیدا نہیں کیا،،،
ماں نے اس منظر میں انٹری دی،،،صائمہ نے رو رو کر سارا قصہ سنایا،،،!
ماں نے حقارت سے کہا،،تم کونسا خزانے ساتھ لائی تھی،،،ٹوٹی ہوئی چپل
میں خاندان کے منہ پر کالک مل کر آئی تھی،،،
یہ منحوس بھی تم جیسی ہی ہوگی،،،سو دفعہ کہا ہے،،،کم بخت کوئی
پیسے والی بیاہ لا۔۔
ماں کی باتوں پر صائمہ نے احتجاجاَ مجازی خدا کی طرف دیکھا،،فیصل نے
مکاری سے کہا،،،ماں کہتی تو ٹھیک ہے،،،
صائمہ بیٹی کوگود میں لے کر چومتی ہوئی نہر کی طرف بڑھ رہی تھی،،،،!
اسے لگا کوئی اس کا پیچھا کررہا ہے،،،شاید موت کا فرشتہ ہو،،،
پل پر پہنچ کر اس نے بیٹی کو زور سے چوما،،،اپنے سینے سے اور بھی چمٹا
لیا،،،اور نہر میں کود گئی۔۔
پانی اس کو نیچے کھینچنے لگا،،،بیٹی زور سے چینخنے لگی،،،موت کے
ہاتھ دبوچنے کو تھے کہ دو ہاتھوں نے ماں بیٹی کو اوپر اٹھا لیا،،،
بہت سی آوازیں،،،چینخیں،،تالیاں،،،اور پھر صائمہ کے کان میں مراد بھائی
کی آواز آئی،،،
میری بہن ہے،،،بیٹی کو بچاتے ہوئے پل سےنہر میں گر گئی تھی،،،صائمہ
کے سر کو چومتے ہوئے کہا،،،ابھی بھائی زندہ ہے،،،بیٹی کو صائمہ نے
مراد کے حوالے کردیا،،،وہ معصوم اب بھی رو رہی تھی۔۔
یا اللہ! سب کے بھائی سلامت رہیں،،،ہمیشہ۔۔
اس نے سکون سے اپنی بیٹی کو دیکھا،،،بھائی نے صائمہ کو سینے سے لگالیا۔۔۔۔۔
|