گاؤں میں گرمیوں کی وجہ سے مجھے نیند نہیں آرہی تھی تو
اپنے غلیل کو لے کر میں باہر نکلا۔ میں پرندوں کو ڈھونڈنے لگا جاتے جاتے
میں نے بابا فرید کو چارپائی پر لیٹے دیکھا اُس کے ہاتھ میں پنکھا تھا وہ
وقفے وقفے سے اپنے ہاتھ سے استعمال میں لاتا تھا ۔ میں بابا کے پاس آنے لگا
ابھی پہنچا نہیں تھا کہ کہا بابا اتنی گرمی میں آپ یہاں اپنے فصل کی حفاظت
کر رہے ہیں، اچھی خاصی چا ر دیوار ی بھی ہے پھر کیوں حفاظت کر رہے ہیں بیٹا
جو چیز آپ کو فائدہ دیتا ہو اُس کی حفاظت کرنی چاہئے او ر تب تو بہت زیادہ
کرنی چاہئے جب وہ تیا ر ہو کیونکہ تیار ی میں جتنا وقت لگتا ہے بربادی میں
اُس کے ہزاروے حصے سے بھی کم وقت لگتا ہے۔ میں نے کہا بابا آرام بھی تو
ضروری ہے اور آپ تو اب عمر کے اس حصے میں ہے کہ آپ کو کام سے زیادہ آرام کی
ضرورت ہے ۔ فاروق بیٹا ذمے داری میں عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی اگر حوصلہ
ہے تو ساٹھ سال کی عمر میں حوصلہ آپ سے پہاڑ بھی توڑ و ا دیتا ہے اگر سُست
اور کاہل ہے تو اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی بے روزگار رہنے پر آپ
سرکار کو گنہگار سمجھتے ہیں۔ ۔ بابا کی عمر ستر سال سے زیادہ تھی اُس نے
اپنی قمیص اُتاری ہوئی تھی اُس کے جسم پر سفید بال اور جھریاں تھیں ۔ بابا
کا شمار گاؤں کے قابل اور عبادت گزار بزرگوں میں ہوتا تھا۔ میرے دماغ میں
ایک سوال کافی ہفتوں سے انگڑائیاں لے رہا تھا جس نے مجھے بہت بے چین کیا
ہوا تھا تو سوچا بابا فرید سے پوچھ لیتا ہوں وہ میری گتھی سُلجھا دے گا۔
میں نے بابا سے پوچھا بابا میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اور اس کا جواب
آپ ہی دے سکتے ہیں۔ کہا پوچھ بیٹا میں نے کہا بابا یہ نفس کیا ہے ہم اس کو
کیسے قابو میں کر سکتے ہیں، اور کیا سب گناہوں کی اصل وجہ نفس ہے؟
بابا نے اپنے پاؤں کو سیدھا کیا اور پنکھے کو تکیے کے نیچے رکھ کر بولا
بیٹا نفس جنت بھی ہے اور دوزخ بھی ۔۔۔۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا وہ کیسے
بابا ایک وقت میں جنت بھی اور دوزخ بھی ؟؟ ہاں بیٹا اگر روح کو نفس سے دور
رکھو گے تو فلاح پاؤ گے اگر نفس کی پکڑ میں آگئے تو روح کی تڑپ اور بے چینی
بڑھے گی تم تکلیف میں ر ہو گے۔ نفس کو اگر سدھار لیا تو سکون ہے ، اگر چھوڑ
دیا تو نقصان تمہارا ہوگا ۔ مجھے بابا کی اس بات کی سمجھ نہیں آئی میں نے
عرض کیا بابا مجھے سمجھ نہیں آئی آپ اگر آسان لفظوں میں اس کو بیان کر سکیں
تو میرے لئے ٓسانی ہوگی۔ دیکھو اس فصل کی مثال لے لو تم جب آئے تو مجھ سے
کہا کہ فصل پک چکی ہے، تیار ہے، اور چار دیواری بھی ہے تو حفاظت کی کیا
ضرورت ہے۔ میں نے کہا کہ تیار اور پکی فصل کی حفاظت اور بھی بڑھ جا تی ہے۔
دیکھو اگر ہم حفاظت نہیں کریں گے تو اس میں خود پیدا ہونے والی جڑی بوٹیاں
اُگے گی تو فصل خراب ہو جائے گی۔ ہر روز تراش خراش سے اچھی فصل تیار ہوگی،
ا پنی مرضی پر چھوڑو گے تو جو کام کی ہے وہ بھی خراب ہوگی۔ اب آتے ہیں کہ
نفس کو ہم کیسے قابو میں کر سکتے ہیں۔ دیکھو بیٹا نفس کی مثال بھی بالکل اس
فصل کی طرح ہے اگر ہم روز اُن چیزوں کو روکے گے جو ہمارے نفس کو خراب کرتا
ہے، ہم روز اپنی کمزوریوں کی تراش خراش کریں گے ، ہر وقت اپنے اندر جھانکیں
گے خامیاں ڈھونڈیں گے تو پتہ چل جائے گا کہ ہمیں کہا ں پر ضرورت ہے تراش
خراش کی۔ بیٹا ہمارے پیارے رسول اللہ ﷺ نے یہ ایسے نہیں کہا کہ کھانا پیٹ
بھر نہ کھائے اُس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جب تم پیٹ بھر کھاؤ گے تو تم مست ہو
جاؤ گے تو تم اپنی خواہشوں کو پورا کرو گے ، نفس کی پیروی کروگے، آپﷺ نے یہ
کیوں کہا کہ کم سویا کریں اور سائنس نے بھی نیند کا دورانیہ آٹھ گھنٹے
بتایا ہے اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تم نفس کے غلام نہ بن جاؤ۔ ایک بہترین
حل یہ بھی ہے کہ خود کو اچھے کاموں میں مصروف کرلو اور مثبت سوچنا سیکھو تو
نفس کو قابو کر سکو گے۔ ورنہ نفس وہ کُتا ہے کہ نہ عزت کی پرواہ ہے نہ آبرو
کی ، جو نفس کا غلام ہوگیا وہ کبھی عزت نہیں پائے گا۔ سکون پانا ہے ، تو
روح کو پاک کر لو ، اگر روح کو پاک کرنا ہے تو نفس کو لگام دو، کامیابی پاؤ
گے ۔ |