بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کی اپنی اہلیہ اور والدہ سے
ملاقات کرانا پاکستان کا ایک مثبت اقدام ہے۔ پاک بھارت کے درمیان یہ ایک
بڑا سی بی ایم ثابت ہو سکتا تھا۔ مگر بھارت نے اس کو بھی جذبہ خیر سگالی کے
لئے استعمال نہ ہونے دیا۔ بلکہ اسے بھی کشیدگی اور پاکستان کے خلاف نفرت کے
طور پر استعمال کیا۔ کلبھوشن کی اہلیہ چیتنا اور والدہ کے منگل سوتر ،
بندیا اور زیورات اتارنے کو مذہبی منافرت میں تبدیل کر دیا۔ نریندر مودی
حکومت نے ایک بار پھر ہندو انتہا پسند جنونیوں کو نئی آکسیجن فراہم کر دی
ہے۔ اب پاکستان کے خلاف نئے سرے سے پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ ہندو عوام کے
مذہبی جذبات بھڑکا دیئے گئے ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے یہ مسلہ
پارلیمنٹ میں اٹھایا اور جذباتی تقریر کی۔ ایک جاسوس کی اس کے اہل خانہ سے
ملاقات کی تعریف کے بجائے مذمت کرنے کا ماحول تیار کیا۔ پاکستان میں بھی
بھارت کے ساتھ نرم رویہ رکھنے والے بھی نئی دہلی کی زبان بول رہے ہیں۔ کوئی
یہ نہیں کہتا کہ کلبھوشن جادھو ایک جاسوس ہے۔ وہ ھاضر سروس نیوی افسر ہے۔
اس کے خلاف دہشتگردی کے الزامات ثابت ہو چکے ہیں۔وہ ملزم نہیں رہا بلکہ ایک
مجرم ہے۔ درجنوں بم دھماکوں ، فائرنگ، اغواء کی وارداتوں کا ماسٹر مائینڈ
ہے۔ درجنوں معصوم بچوں، خواتین اور بزرگ اور نوجوانوں کی شہادت میں ملوث ہے۔
اس نے کئی گھر اجاڑ دیئے۔ بچے یتیم کئے۔ بہنوں سے بھائی اور ماؤں سے بیٹے
چھین لئے۔ خواتین کو بیوہ بنا دیا۔ یہ سب بے دردانہ واقعات ہیں۔ جو اب بھی
جاری ہیں۔ کلبھوشن کو پاکستان کی فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی ۔ سزائے
موت کے قیدی کی اہل خانہ سے ملاقات کیسے ہو سکتی ہے۔ بھارت کو چیتنا کے
جوتے اتارنے پر بھی اعتراض ہے۔ جب کہ ان جوتوں میں کوئی میٹل یا دھاتی چپ
برآمد ہونے کی اطلاع ہے۔ یہ ریکارڈر ہے یا ٹرانسمیٹر یا کچھ اور اس کا پتہ
فرانزک رپورٹ میں چلے گا۔ بھارت کو میاں بیوی یا ماں بیٹے کی آمنے سامنے یا
بالمشافہ ملاقات نہ کرانے پر بھی اعتراض ہے اور بہت شور شرابا کیا جا رہا
ہے۔ یہ نکتہ داں بتا رہے ہیں کہ بیچ میں دیوار کیوں حائل کی گئی۔ شیشہ کیوں
لگایا گیا۔ انٹرکام کیوں استعمال ہوا۔ اس موقع پر بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر
کی موجودگی کا فائدہ تھا۔ انہوں نے کوئی گفتگو نہیں سنی۔ کیا اسے ہی قونصل
رسائی سمجھا جائے۔ ایسا نہیں ہے۔ پھانسی سے پہلے یہ ملاقات تھی یا نہیں اس
بارے میں بھی پاکستان نے واضح کیا کہ یہ آخری ملاقات نہیں ہے۔ یعنی ابھی
مزید ملاقاتیں ہو سکتی ہیں۔ میاں بیوی اور ماں بیٹا آمنے سامنے کھڑے تھے۔
باتیں کر سکتے تھے۔ ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے۔ مگر چھو نہیں سکتے تھے۔
چیتنا کے جوتے میں جو مشکوک چیز ملی ہے، یہ بھی باعث تشویش ہے۔ آخر بھارت
پاکستان کے اس انسانی ہمدردی کے جذبہ کی آڑ میں کیا کھیل کھیلنا چاہتا تھا۔
اس کے ارادے کیا تھے۔ آج بھارت پاکستان کو کسی شرارت کے لئے مورد الزام
ٹھہرا رہا ہے۔ بھارت میں پاکستان کے خلاف نفرت پر مبنی ہیجانی کیفیت پیدا
کی گئی ہے۔ جس کا مقصد شاید پاکستان کے جذبہ خیر سگالی کو ختم کرنا ہے۔
بھارت نہیں چاہتا پاکستان کو کسی مثبت پہل کا کریڈٹ ملے۔ جس دن یہ ملاقات
اسلام آباد میں ہو رہی تھی۔ اسی دن اور اس کے بعد سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر
اور جنگ بندی لکیر پر ریاستی دہشتگردی تیز کی ہے۔ مزید نہتے اور معصوم
افراد کو شہید یا اپاہج بنا دیا۔ پاکستان کی خیر سگالی کا جواب بھارت نے ہر
وقت دہشت گردی سے دیا ہے۔ بھارت دنیا میں پاکستان کے خلاف پروپگنڈہ کر رہا
ہے۔ پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دلانے کی سر توڑ مہم چلاتا ہے۔ مگر وہ آج
تک اس میں ناکام ہوا۔ بھارت کا اپنا ریکارڈ انتہائی خراب ہے۔ بھارتی جیلوں
میں ہزاروں کشمیری اور پاکستانی ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ بھارت
نے افضل گورو سمیت لا تعداد کشمیری قیدیوں کو جھوٹے کیسوں میں پھنسایا ۔
انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مگر اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت نہ دی۔ کئی
کشمیریوں کو جیل کی کال کوٹھریوں میں ہی گھڑے کھود کر ان میں ڈال دیا گیا۔
ان کے کفن دفن اور آخری رسومات بھی مسلم عقیدے کے مطابق انجام نہ دیں گئیں۔
اس طرح کروڑو ں افراد کے مذہبی جذبات سے کھیلا گیا۔ بھارت نے اپنی اس
دہشگردی کو بھی آزادی پسندوں کے خلاف ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال
کیا ہے۔
کلبھوشن جادھو کے سلسلے میں بھارت نے شروع سے ہی جھوٹ کا سہارا لیا۔ پہلے
اسے اپنا شہری تسلیم نہ کیا۔ پھر اسے ایک تاجر کے روپ میں پیش کیا۔ پھر
ثابت ہوا کہ کلبھوشن بھارت کا حاضر سروس نیوی افسر ہے اور بھارت کی حکومت
کی ہدایت پر پاکستان میں دہشتگردی کر رہا ہے۔ جو ملک معصوم بچوں اور خواتین
کو بے دردی سے شہید کرانے میں برائے راست ملوث ہو۔ وہ آج کسی اخلاق یا اچھی
روایات کی بات کیسے کر سکتا ہے۔ کلبھوشن کی اہلیہ اور والدہ ہی نہیں بلکہ
دنیا نے پاکستان کی مثبت ڈپلومیسی اور انسانی ہمدردی کی تعریف کی جو بھارت
برداشت نہ کر سکا۔ جب کہ کلبھوشن کی اہلیہ اور والدہ نے اس ملاقات پر خوشی
ظاہر کی ، پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ مگر دہلی پہنچنے کے بعد بھارتی وزیر
خارجہ کی بند کمرے میں معاملہ بگاڑا گیا۔ملاقاتیوں کو بریفننگ میں اسے مسلہ
بنایا گیا۔ پاکستان کے اچھے قدم کو منفی کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا
جا رہا ہے۔ بھارت شاید سچ کا سامنا نہیں کرنا چاہتا ۔ وہ مسائل کو بات چیت
سے حل نہیں کرنا چاہتا۔ وہ راہ فرار اختیار کر رہا ہے۔ شاید اسے پاکستان کے
ساتھ تناؤ اور کشیدگی کا ماحول زیادہ فائدہ دے رہا ہے۔ پاکستان بھارتی
ریاستی دہشتگردی سے واقف ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں قتل عام اور نسل کشی بھارت
کی پالیسی ہے۔ بھارت میں مسلمان تکلیف میں ہیں۔ مسلمانوں کے مذہبی معاملات
میں مداخلت ہو رہی ہے۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی جبری تعمیر کی کوشش
کی جا رہی ہے۔ ایسے میں کلبھوشن کی بیوی کے جوتے، منگل سوتر، بندیا کو ایشو
بنا کر بھارت دنیا میں پروپگنڈہ جاری رکھنا چاہتا ہپے۔ پاکستان کو دنیا کے
سامنے بھارتی ریاستی دہشگردی کو ثبوتوں کے ساتھ پیش کرنا چاہیئے۔ تا کہ
بھارت موجودہ کشیدگی اور تناؤ کو بڑھا کر مزید دہشگردی کو جاری رکھنے میں
کامیاب نہ سکے۔ |