کسی نے آپ رح سے نصیحت کرنے کی حواہش کی تو فرمایا کہ
خالق کو محبوب رکھتے ہوئے مخلوق سے کنارہ کش ہو جاؤ اور بند کو کھول دو اور
کھلے کو بند کر لو اور جب اس نے اس جملے کا مفہوم پوچھا تو فرمایا کہ سیم و
زر کی محبت چھوڑ کر تھیلی کا منہ کشادہ کر دو اور لغویات سے احتراز کرو۔
حضرت احمد خضرویہ کا قول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم بن ادہم نے حالت
طواف میں کسی سے فرمایا کہ جب تک اپنے اوپر عظمت وعزت اور خواب و امارات کا
دروازہ کشادہ نہ کرو گے اس وقت تک تمہیں صالحین کا مرتبہ حاصل نہیں ہو
سکتا۔
آپ رح نے فرمایا کہ چھ عادتیں اختیار کر لو اول جب تم ارتکاب معصیت کرتے ہو
تو خدا کا رزق مت استعمال کرو دوم اگر معصیت کا قصد ہو تو خدا کی مملکت سے
نکل جاؤ سوم ایسی جگہ جاکر گناہ کرو جہاں وہ دیکھ نہ سکے۔ اور اس پر جب
لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ وہ کون سی جگہ ہے جہاں وہ نہیں دیکھ سکتا جب کہ
وہ اسرار قلوب تک واقف ہے تو فرمایا کہ یہ کیسا انصاف ہے کہ اسکا رزق
استعمال کرو اور اسی کے ملک میں رہو اور اسی کے سامنے گناہ بھی کرو چہارم
فرشتہ اجل سے توبہ کا وقت طلب کرو پنجم منکر نکیر کو قبر میں مت آنے دو ششم
جب جہنم میں جانے کا حکم ملے تو انکار کر دو۔ یہ باتیں سن کر سائل نے عرض
کیا کہ یہ تمام چیزیں تو ناممکنات میں سے ھیں اور کوئی بھی ان کی تکمیل
نہیں کر سکتا آپ نے فرمایا کہ جب یہ تمام چیزیں تو ناممکن العمل ہیں تو پھر
گناہ نہ کرو۔ یہ سن کر وہ شخص تمام گناہوں سے تائب ہو کر اسی وقت آپ کے
سامنے فوت ہو گیا۔
جب لوگوں نے آپ سے دعاؤں کی عدم قبولیت کی شکایت کی تو فرمایا کہ تم خدا کو
پہچانتے ہوئے بھی اس کی اطاعت سے گریزاں ہو اور اس کے قرآن ورسول سے واقف
ہوتے ہوئے بھی ان کے احکام پر عمل پیرا نہیں ہوتے اور اس کا رزق کھا کر بھی
اسکا شکر نہیں کرتے ماں باپ کو دفن کر کے بھی عبرت حاصل نہیں کرتے ابلیس کو
غنیم جانتے ہوئے بھی اس سے معاندت نہیں کرتے موت کی آمد کا یقین رکھتے ہوئے
اس سے بے خبر ہو اور اپنے عیوب سے واقف ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی عیب جوئی
کرتے رہتے ہو پھر بھلا خودسوچو کہ ایسے لوگوں کی دعائیں کیسے قبولیت حاصل
کر سکتی ہیں۔
ساحل دجلہ پر آپ اپنی گدڑی سی رہے تھے کہ کسی نے آکر کہا کہ حکومت چھوڑ کر
آپ نے کیا حاصل کیا ؟ یہ سن کر آپ نے اپنی سوئی دریا میں پھینک دی تو بے
شمار مچھلیاں اپنے منہ میں سونے کی ایک ایک سوئی دبائے ہوئے نمودار ہوئیں ۔
لیکن آپ نے فرمایا کہ مجھے تو اپنی سوئی درکار ہے ۔ چنانچہ ایک مچھلی آپ کی
سوئی بھی لیکر آ گئی اور آپ نے سوئی لے کر اس شخص سے فرمایاکہ حکومت کو خیر
باد کہہ کر ایک معمولی سی یہ شے حاصل ہوئی ہے۔
آپ کے انتقال کے بعد پورے عالم نے یہ ندا سنی کہ آج دنیا کا امن فوت ہو گیا
۔ اس کے بعد آپ کے انتقال کی اطلاع ملی لیکن آپ کی گمشدگی کی وجہ سے نہ تو
یہ معلوم ہو سکا کہ آپ کا مزار کہاں ہے اور نہ یہ پتہ چلا کہ انتقال کس جگہ
ہوا بعض حضرات کا خیال ہے کہ مزار بغداد میں ہے اور بعض کہتے ہیں کہ حضرت
لوط ع کی قبر کے نزدیک شام میں مدفون ہیں ۔ واللہ اعلم۔ اللہ کریم انکے
درجات بلند فرمائے۔آمین!
|