حضرت عیسیٰ علیہ السلام ؛قرآن و حدیث کی روشنی میں (۸)

حضرت عیسیٰ کا دین
روایت میں وارد ہواہے کہ جناب موسیٰ کی شریعت میں صرف قصاص کا حکم تھا ۔جناب عیسیٰ کی شریعت میں صرف حکم دیت تھا اور جب شریعت سہلہ آئی تو اس نے دونو ں کو جائز قرار دیدیا ۔(عوالی اللئالی ج ۱ ص۲۳۸)
روایت میں وارد ہواہے کہ مردوں کی ضرورت کے تحت انہیں غیر محدود شادیوں کی اجازت تھی اور شریعت عورتوں کی مصلحت و بھلائی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک شادی سے زیادہ کی اجاز ت نہیں دیتی تھی ۔لیکن جب اسلام کی مقدس شریعت آئی تو اس نے دونوں کی مصلحتوں کا پاس و لحاظ رکھا ۔(عوالی اللئالی ج۱ص۴۴۶ )
حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے ارشادفرمایا:جناب موسیٰ کے زمانہ میں یا آپ کے بعد جتنے بھی انبیاء مبعوث ہوئے سب نے آپ کی شریعت اور کتاب پر عمل کیایہاں تک کہ جناب عیسیٰ مبعوث برسالت ہوئے تو آپ کے زمانے کے سارے انبیاء اورآپ کے مابعد کے تما م انبیاء نے آپ کی شریعت اور کتاب پر عمل کیا یہاں تک کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ مبعوث برسالت ہوئے ۔اولوالعزم رسول پانچ ہیں۔یہ حضرات انبیا ء میں سب سے افضل ہیں۔شریعت محمد ی تاقیامت منسوخ نہیں ہوگی اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا ہے۔(علل الشرائع ج ۱ ص۱۲۲)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے جد امجد حضرت علی ابن ابی طالب علیہماالسلام سے روایت کی ہے کہ ایک روزپانچ مذاہب :یہودی ،عیسائی ،دہریہ،ثنویہ اور مشرکین عرب رسول اسلام ﷺ کی خدمت میں آئے ۔یہودی نے عرض کیا:ہم حضرت عزیر کو اﷲ کا فرزند کہتے ہیں اور اے محمد! ہم آپ کے پاس آئے ہیں تاکہ دیکھیں کہ آپ کا اس سلسلہ میں کیانظریہ ہے ؟اگر آپ نے ہمارا اتباع کیا تو ہم پہلے ہی سے آپ کی قوم کی درستگی اور صواب کے اعتبار سے افضل ہیں اوراگر آپ نے ہمارا انکا ر کیا تو ہم آپ سے بحث مباحثہ کریں گے !
عیسائی نے عرض کیا:ہم حضرت عیسیٰ کو اﷲ کا فرزند مانتے ہیں جو اﷲ سے متحدہیں اوراے محمد! ہم آپ کے پاس آئے ہیں تاکہ دیکھیں کہ آپ کا اس سلسلہ میں کیانظریہ ہے ؟اگر آپ نے ہمارا اتباع کیا تو ہم پہلے ہی سے آپ کی قوم کی درستگی اور صواب کے اعتبار سے افضل ہیں اوراگر آپ نے ہمارا انکا ر کیا تو ہم آپ سے بحث مباحثہ کریں گے !
دہریہ نے عرض کیا :ہما رامانناہے کہ اشیاء کی کوئی ابتداء نہیں ہے اوریہ سب دائمی ہیں اوراے محمد! ہم آپ کے پاس آئے ہیں تاکہ دیکھیں کہ آپ کا اس سلسلہ میں کیانظریہ ہے ؟اگر آپ نے ہمارا اتباع کیا تو ہم پہلے ہی سے آپ کی قوم کی درستگی اور صواب کے اعتبار سے افضل ہیں اوراگر آپ نے ہمارا انکا ر کیا تو ہم آپ سے بحث مباحثہ کریں گے !
ثنویہ نے عرض کیا:ہمارا عقیدہ ہے کہ بے شک نور وظلمت دونوں مدبرہیں اوراے محمد! ہم آپ کے پاس آئے ہیں تاکہ دیکھیں کہ آپ کا اس سلسلہ میں کیانظریہ ہے ؟اگر آپ نے ہمارا اتباع کیا تو ہم پہلے ہی سے آپ کی قوم کی درستگی اور صواب کے اعتبار سے افضل ہیں اوراگر آپ نے ہمارا انکا ر کیا تو ہم آپ سے بحث مباحثہ کریں گے !
مشرکین عرب نے عرض کیا:ہماراقول یہ ہے کہ بے شک بت ہمارے خداہیں اوراے محمد! ہم آپ کے پاس آئے ہیں تاکہ دیکھیں کہ آپ کا اس سلسلہ میں کیانظریہ ہے ؟اگر آپ نے ہمارا اتباع کیا تو ہم پہلے ہی سے آپ کی قوم کی درستگی اور صواب کے اعتبار سے افضل ہیں اوراگر آپ نے ہمارا انکا ر کیا تو ہم آپ سے بحث مباحثہ کریں گے !
رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان رکھتاہوں اور اس کے علاوہ سارے معبودوں کا انکار کرتاہوں ۔آپ نے ان لوگوں سے فرمایا:بے شک اﷲ نے مجھے تمام بنی نوع بشر کے لئے بشیر و نذیر اور عالمین پر حجت بناکر بھیجا ہے اورعنقریب اﷲ انہیں ان کے دین پر پلٹادے گا جو اس کے دین کا انکار کرتے ہیں۔
آپ نصاریٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:تمہارے نزدیک اﷲ اپنے فرزندجناب عیسیٰ سے متحد ہوگیا ہے ۔اس قول سے تمہاری کیامرادہے ؟کیا تمہاری یہ مراد ہے کہ خدائے ازلی و ابدی اپنی حیثیت سے پست ہوکر ایک حادث موجود سے متحد ہوگیا ؟یا ایک حادث و موجود جناب عیسیٰ ترقی کی راہوں کو طے کرکے قدیم اور ابدی خدا کے برابراور ایک ہوگئے ہیں؟یا اتحادسے تمہارا خیال جناب عیسیٰ کی شرافت و بزرگی اور ان کی نہایت تعظیم و تکریم ہے ۔۔۔؟
صورت اول ـ:(ازروی برہان عقلی محال ہے )کیوں کہ جوقدیم وازلی ہے وہ حادث کیسے ہوسکتاہے؟!اور جو حادث ہے وہ اس کے لئے متغیر ہوکر قدیم ہوجاناکس طرح ممکن ہے؟!
دوسری صورت بھی محال عقلی ہے۔کیوں کہ جناب عیسیٰ خداکے منتخب بندوں اوراس کی مخلوقات میں سے تھے۔آپ اس صورت میں حادث ٹھہرے اور جو حادث ہو وہ خدا نہیں ہوسکتاہے۔
بہر صور ت ،ان کا فرزند خدا ہونا ،اس سے متحد وبرابر ہونا اور خدا کا قدیم رہ کر ان سے متحد ہونا سب باطل و محال ہے۔
نصاریٰ نے عرض کیا:ہمارانظریہ یہ ہے کہ اﷲ کا حضرت عیسیٰ پر خدا کا خاص لطف اور اس کی بے پایان عنایات ہیں۔ان کے ذریعہ امور عجیبہ وخوار ق العادہ باتوں کو جاری فرمایا۔ان کو اپنی مخصوص تعظیم و تکریم سے نواز ا ہے۔لہٰذا ،ان کا ابن خدا ہونا صرف عظمت و تکریم کی غرض سے ہے بس!
رسول اسلام نے یہودیوں کے جواب میں فرمایا:جو کچھ میں نے کہا ،کیا تم نے نہیں سنا؟پھر آپ نے جناب عزیر کے ابن خدا ہونے کے سلسلے میں جوکچھ دلائل پیش فرمائے تھے ،اس کی تکرارکی اوروہ بھی خاموش ہوگئے۔
ایک عیسائی نے عرض کیا:کیا آپ جناب ابراہیم کو خلیل اﷲ نہیں مانتے ہیں؟
رسول خدا ﷺ نے فرمایا:کیوں نہیں!
عیسائی :تو پھر حضرت عیسیٰ کو پسر خداکیوں نہیں مانتے ؟
رسول خدا ﷺ:حکم خلیل مادہ ’’خلۃ‘‘ سے ہے ۔جس کے معنی احتیاج و فقر کے ہیں ۔معنی خلیل کی حقیقت نیازمند و محتاج شخص ہے ۔چونکہ جناب ابراہیم بے انتہا ء باعفت مستغنیٰ نفس تھے ۔آپ دوسروں سے بے نیاز ہوکر صرف خدا کی طرف متوجہ تھے ۔اس سبب سے خدانے انہیں خلیل کا لقب عطاکیا۔خصوصااس وقت جب ان سے براسلوک کیا گیا ،آگ میں پھینکا گیا ۔(اس وقت )ان کا لقب واضح و متحقق ہوگیا۔
ہاں ! منجنیق میں رکھ کر ان کو آگ میں ڈالاگیا تو خدا کی جانب سے جبرئیل نازل ہوئے تاکہ ان کی مدد کریں ۔آگ میں جاتے وقت جبرئیل نے ان سے ملاقات کی اور اپنی ماموریت و امداد پیش کی ۔آپ نے جواب دیا:مجھے خداکے علاوہ کسی کی حاجت نہیں ہے۔میرے لئے اس کی مدد ہی کافی ہوگی۔اس وجہ سے آپ کو خلیل اﷲ کہا گیا۔
اگر کلمہ خلیل (ازمادہ خلت )سے ہے تو اس کے معنی لطافت و حقائق کی طرف متوجہ ہونااوررموز واسرار کو جانناہے۔اس کا بھی تمہا رے استدلال و برہان سے کوئی ربط نہیں ہے ۔ان دونوں میں سے کسی ایک میں ان کے خلیل اﷲ ہونے کے بارے میں کوئی منع عقلی نہیں ہے۔نہ ہی خالق کا مخلوق سے کوئی مشابہت اورقدیم کا حادث ہونا ہے۔چونکہ یہاں صفات میں مشابہت ہے نہ کی ذات اور حقیقت میں۔
اس لحاظ سے جناب ابراہیم کا خلیل ہونامعنی فقر و احتیاج اور مخلوق سے قطع امید کے ثابت ہوجانے کے بعد ہے۔یا اسرارو رموز الٰہی سے آگاہی و معلومات کے بعد ہے ۔لیکن توالد وتناسل کا موضوع برعکس ہے ۔کیوں کہ باپ ،بیٹا اور بھائی کی نسبت حقیقی و ذاتی امور میں ہے ۔باپ ،بیٹے روز اول سے ہی وجود کے آخری لمحات تک ایک دوسرے سے منسوب ونزدیک اور ہم جنس ہیں چاہے صورتا نزدیک و مربوط ہوں یا نہ ۔
پھر رسول خدا ﷺ نے فرمایا:اگر جناب عیسیٰ کے خدا ہونے کی دلیل یہی ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل خداہیں تو ضروری ہے کہ تم جناب موسیٰ کے ابن خداہونے کے قائل ہوجاؤ ۔کیوں کہ جو معجزات و کرامات جناب موسیٰ سے ظاہر ہوئے ہیں ،وہ جناب عیسیٰ کے معجزات و کرامات سے کمتر نہیں تھے۔بلکہ جیساکہ یہودیوں کے احتجاج میں کہاگیاکہ جناب موسیٰ کو خدا کا باپ یا رئیس یا چچا کہنا جائز ہوجائے گا۔
ایک عیسائی نے عرض کیا:حضرت مسیح نے خودآسمانی انجیل میں فرمایاہے:میں اپنے باپ اور تمہارے باپ کی طرف چلاجاؤں گا۔
رسول اسلام ﷺ نے فرمایا:اگر تم اس جملہ سے استدلال کرتے ہواورصحیح مانتے ہوتو یہ بھی اعتراف کرناچاہئے کہ اصحاب جناب عیسیٰ اور اس جملے کو سننے والے سب خدا کے بیٹے ہیں۔کیوں کہ اس جملہ میں انہوں نے اپنی طرح ان کو بھی خدا کا بیٹا قرار دیاہے ۔
اس جملہ سے بھی معلوم ہوتاہے کہ ان کا بیٹا ہونا ،ان کے معجزات و کرامات کے سبب نہیں ہے ۔اس لئے اس میں ابن خداکا عنوان دوسروں پر بھی ہواہے جبکہ ان میں وہ خصوصیات و امتیازات مفقود تھے ۔خود جناب عیسیٰ کے کلام کے موجب یہ عنوان ان کے لئے اختصاص نہیں رکھتااورجو بھی خدا پرست اور مومن ہے ،اس کے لئے بھی استعمال ہوسکتاہے ۔تم خودا س جملہ کو بیان کرتے ہولیکن اس کے مضمون سے غافل اوراس کے خلاف باتیں کرتے ہو ۔تم اگر صرف ان کلمات کے ظاہری ولفظی معنی کا ارادہ کرناچاہتے ہوتوکیوں نہیں کہتے کہ کلمہ پدر سے مراد جناب آدم یا جناب نوح ہیں کیونکہ دونوں انبیاء جناب عیسیٰ کے حقیقی و فطری باپ ہیں۔تم اس ظاہری و حقیقی معنی کی نفی کرتے ہو،پھر کیسے اپنے منظور معنی کو ثابت کرسکتے ہو۔۔۔؟!
عیسائی خاموش ہوگیا اور سب نے کہا :آج تک ہم نے آپ جیسا مضبو ط و ماہر بحث و مباحثہ کرنے والا نہیں دیکھاتھا ۔آپ ہمیں کچھ مہلت دیں تاکہ اس سلسلے میں غوروفکر کرلیں․․․۔
(تفسیرامام عسکری ص ۵۳۰،۵۳۵اور۳۲۳)
نوٹ:اس مضمون میں درایت اورروایت کے صحیح السندہونے سے قطع نظر صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق روایات کو جمع کیا گیا۔(مترجم)