پاکستان کو ملکوں کی سرداری ملے گی

کالم کا عنوان ’’لیڈرشپ‘‘

ریاست اور قوم کیلئے ایک قوتِ جاذبہ بنیادی اور اولین شرط ہے اور یہ قوت ِ جاذبہ جو افراد کو جوڑ کر ایک قوم بناتی ہے ،آئیڈیالوجی کہلاتی ہے۔برصغیر کے مسلمانوں کے درمیان قوت ِ جاذبہ اسلامک آئیڈیالوجی تھی ۔آئیڈلوجی خواہ نظریہ ضرورت پر مبنی ہو ،سیاسیات پر مبنی ہو یا پھر مذہب سے تعلق رکھتی ہو بہرحال یہ سماجی و قومی عناصر کو مربوط رکھنے کی بنیادی اکائی ہے۔پاکستان کو معرض ِ وجود میں لانے کیلئے برصغیر کے مسلمانوں نے جو قربانیاں دیں ،تاریخ کا لازو ال با ب ہے ۔کیا تاریخ کا یہ خونی باب نظر اندازکیا جاسکتاہے کیا پاکستان کا مستقبل اس تاریخ سے کٹ کر تابناک ہوسکتاہے ۔کبھی بھی نہیں ۔مستقبل ماضی کی قربانیوں کا ہی حاصل ہوتاہے ۔جنر ل موسیٰ اپنی کتاب Jawna to General میں لکھتے ہیں :ــ’’میری آنکھوں کے سامنے مسلمان مہاجرین کو پاکستان لے جانے ایک ٹرین کو امرتسر سے چند میل باہر واقع خالصہ کالج کے نزدیک مسلح سکھ جتھوں نے روک لیا اور ایک ہزار سے زائد مردوں ،عورتوں اور بچوں کو قتل کردیاگیا ۔ٹرین کے اندر اور باہر ہر طرف لاشیں ہی لاشیں نظر آرہی تھیں۔خون ڈبوں سے باہر بہہ رہاتھا ،یہ ایک منظم قتل تھا ‘‘۔جنرل حسن گل نے اپنی کتاب Memories میں لکھا ہے:’’اسلحہ کی تین سو ٹرینوں میں سے صرف تین ٹرینیں پاکستان پہنچیں جب اسلحہ کے بکسوں کو کھولا گیا تو ان میں سے اینٹیں اور پتھر برآمد ہوئے ‘‘۔پاکستان ائیر فورس کو ملنے والے جہازوں کے انجنوں میں شکر ڈال دی گئی تاکہ یہ راستے ہی میں تباہ ہوجائیں ۔جس پاکستان کا قیام کے وقت یہ حال تھا ،ٹھیک اٹھارہ سال بعد اُسی پاکستان نے انڈیا کی جنگ ِ ستمبر میں ٹھکائی کردی ۔اسی پاکستان نے ۲۸مئی ۱۹۹۸ء کو ایٹمی دھماکہ کرکے دنیا کی ساتویں اور ستاون اسلامی ممالک کی پہلی ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کردیا ۔ اسی پاکستان نے اپنے سیٹلائیٹ خلاؤں میں بھیجے ۔اسی پاکستان کی بہادر افواج نے دہشت گردی کو پہاڑوں کی غاروں میں دفن کردیا ۔دنیا حیران ہے کہ اس حیران کن فوج نے گوریلا جنگ میں اتنی جلدی کامیابی کیسے حاصل کرلی ؟ آخر یہ پاکستان ہے کیا ؟ جس کو مٹانے کیلئے طاغوتی قوتیں پورا زور لگاچکی ۔آخر یہ کیوں بنایا گیا ؟ اس ملک کی،اس سلطنت کی ،اس پاک سرزمین کی منزل کیا ہے؟

کسی صالح شخص نے کہاتھا کہ ’’پاکستان کو ملکوں کی سرداری ملے گی‘‘۔پہلے میں واضح کردوں کہ مجھے پاکستان سے محبت کیوں ہے؟ اقبال ؒ نے تو وطن کو بت کہاتھا کہ ان تازہ بتوں میں نیا سب سے وطن ہے ۔ ذرا سوشیالوجی کی اساس پر غور کرلیں ۔فرد معاشرہ اور ریاست کی اکائی ہے ۔فرد اور معاشرہ کے درمیان جو قوت ِ جاذبہ ہے یعنی وہ کشش کی قوت جو افراد کو آپس میں جوڑ کر ریاست بناتی ہے ۔ملت بناتی ہے۔وہ قوت ِ جاذبہ ایک ہمہ گیر آئیڈیالوجی ہوتی ہے۔برصغیر کے مسلمانوں کے درمیان قوتِ جاذبہ اﷲ اور اُس کے رسول ِ کریم ﷺکا ادب تھا ۔یہ آئیڈیالوجی بنیاد ہے قیام ِ پاکستان کی ۔ مجھے پا ک فوج سے محبت اسی آئیڈلوجی کی وجہ سے ہے ۔کہ اُن کا ماٹو ’’ایمان ،تقویٰ ،جہاد ‘‘ہے۔مجھے سپیشل سروسز گروپ سے محبت ہے ۔کیونکہ اُن کاوِرد ’’اﷲ ھُو ،اﷲ ھُو‘‘ہے۔دشمن کی قوت ،تعداد اور جسامت کچھ بھی ہو ،سرکارِ دوعالم کے یہ شاہین کبھی سرنڈر نہیں کرتے ۔آئی ایس پی آر کا یہ بیان دل کو گرما گیا کہ عقیدہ ختم ِ نبوت پر پاک فوج نے کبھی سمجھوتہ کیا ،نہ کرے گی۔یہی وجہ ہے کہ مجھے اُس صالح مرد کے اس جذبے میں صداقت دکھائی دی کہ ’’پاکستان کو ملکوں کی سرداری ملے گی‘‘۔اﷲ رب العزت نے رسول اﷲ ﷺ کا ذکر بلند کیا ہے ۔اقبال ؒ نے ایک شعر میں قلمبند کیا ۔
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت ِ شان ِرفعنا لک ذکرک دیکھے

جو شے بلند ی سے منسوب ہوجاتی ہے ۔منسلک ہوجاتی ہے و ہ بھی بلند ہوجاتی ہے ۔پاکستانی قوم رسول اﷲ ﷺ کا دل و جان سے احترام کرتی ہے ۔چونکہ یہ قوم بلند ذکر والے رسول کا احترام کرتی ہے اسلئے لاجک دکھائی دیتی ہے کہ اﷲ اس قوم کو سربلند کردے گا۔ اس کے گناہ بخش دے گا۔اور یہ قوم بڑے عظیم الشان ،آفاق گیر اور بین الاقوامی کارنامے سرانجام دے گی ۔کفر نے ہمیشہ رسول اﷲ ﷺ کی ذات کے حوالے سے ہمارے دل پر زخم لگانے کی کوشش کی ۔ابلیسی قوتوں کا اب بھی ماٹو وہی ہے جو کل تھا ۔
وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذر ا
روحِ محمد اُس کے بدن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرت دیں کاہے یہ علاج
مُلا کو اُن کے کوہ ودمن سے نکال دو
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سراکو چمن سے نکال دو

اﷲ رب العزت اور رسول ِ کریم ﷺ کے ادب کو درمیان سے نکال دو ۔ہم سب کے درمیان جو قوت ِ جاذبہ ہے جاتی رہے گی ۔ہم بکھر جائیں گے ۔اقبال ؒ نے کیا خوب ترجمانی کی ۔
در دل ِ مسلم مقام ِ مصطفی است
آبروئے مازنامِ مصطفی است
ترجمہ :’’رسول اﷲ ﷺ کامقام مسلمان کے دل میں ہے ۔ہماری آبروآپ ﷺ کے نام کی وجہ سے ہے‘‘۔ اقبال ؒ فرماتے ہیں :
تُو فرمودی رہِ بطحا گرفتیم
وگرنہ جز تو مارا منزل ِ نیست
ترجمہ ’’آپ ﷺ نے فرمایا تو ہم نے مکہ کی راہ اختیارکرلی وگرنہ آپ ﷺ کے سوا ہماری کوئی منزل نہیں ‘‘۔حکیم الامت نے ایسے ہی ہوا میں شعر نہیں کہہ دیا ۔دلیل دیتاہوں ۔بیعت ِ رضوان کے موقع پر حضرت سیدنا عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب مذاکرات کیلئے سردارانِ مکہ کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کو آفر دی کہ آ پ طوافِ کعبہ کرلیں ۔تو حضرت عثمان نے جواب دیا میں طواف نہیں کروں گا جب تک رسول اﷲ ﷺ طواف نہیں کرلیتے ۔
اُن صحابہ کی خوش اطوار نگاہوں کو سلام
جن کا مسلک تھا طواف ِ رُخ ِزیبا کرنا
اقبال جیسے لوگوں کی نظر میں رسول اﷲ ﷺ کا کیا مقام تھا؟
طُور موجے از غبارِ خانہ اش
کعبہ را بیت الحرم کاشانہ اش
ترجمہ :’طُور آپ ﷺ کے گھر کے غبار کی ایک موج ہے اور آپﷺ کا کاشانہ مبارک کعبہ کیلئے بیت الحرم کا درجہ رکھتاہے‘‘۔
اس شعر میں اقبال ؒ نے قلم توڑ دیا
ذکر و فکر و علم و عرفانم تُوئی
کشتی و دریا و طوفانم تُوئی
ترجمہ :’’میرا ذکر ،میرا فکر ،میرا علم ،میرا عرفان آپ ﷺ ہیں ۔میری کشتی ،میرا دریا ،میرا طوفان آپﷺ ہیں ‘‘۔کائنات کے عظیم رہنما ،قائدآپ ﷺ ہیں ۔آپ ﷺ سے ہٹ کر کوئی لیڈ ر شپ نہیں ۔میری قوم سے گزارش ہے ۔علما ٗ کو مولوی مت کہا کریں ۔علما ء کا احترام کیا کریں ۔یہی لوگ ہیں جن کے سینوں میں رسول اﷲ ﷺ کیلئے محبت ہے ،ادب ہے ۔اپنے آپ کو سیکولر اور ماڈرن ثابت کرنے کے اور بھی طریقے ہیں ۔علماء کو مولوی کہہ کر ہم بہت مہذب اور تعلیم یافتہ نہیں بن جائیں گے۔قوم اﷲ رب العزت اور رسو ل اﷲ ﷺ کے ادب پر متفق و متحد ہو۔یہودی ایک مذہبی نظریہ پر متفق ہوکر ایک قوم بن گئے ہیں ۔ملت ِ اسلامیہ کے ۵۷ اسلامی ممالک کا اتحاد اسی نظریے پر ہوسکتاہے ۔اس نظریے کو موجودہ تناظر میں دیکھ لیں بیت المقدس کی حرمت سب مسلمانوں کے دلوں میں یکساں ہے اسی حرمت نے سب کو متحد کردیاہے اور جب ہم اُس ذات کے ادب پر متفق ہوجائیں گے جس نے بیت المقدس کو ’’قبلہ اول‘‘بنایا تھا مجھے یقین ہے پاکستان کو ملکوں کی سرداری ضرور مل کے رہے گی ۔جنگیں جسموں سے نہیں روحوں کی توانائی سے لڑی جاتی ہیں ۔اور روحوں کی توانائی کا سرچشمہ ایک آئیڈیالوجی بنا کرتی ہے ۔ریاست اور قوم کیلئے ایک قوتِ جاذبہ بنیادی اور اولین شرط ہے اور یہ قوت ِ جاذبہ جو افراد کو جوڑ کر ایک قوم بناتی ہے ،آئیڈیالوجی کہلاتی ہے۔برصغیر کے مسلمانوں کے درمیان قوت ِ جاذبہ اسلامک آئیڈیالوجی تھی ۔آئیڈلوجی خواہ نظریہ ضرورت پر مبنی ہو ،سیاسیات پر مبنی ہو یا پھر مذہب سے تعلق رکھتی ہو بہرحال یہ سماجی و قومی عناصر کو مربوط رکھنے کی بنیادی اکائی ہے۔پاکستان کو معرض ِ وجود میں لانے کیلئے برصغیر کے مسلمانوں نے جو قربانیاں دیں ،تاریخ کا لازو ال با ب ہے ۔کیا تاریخ کا یہ خونی باب نظر اندازکیا جاسکتاہے کیا پاکستان کا مستقبل اس تاریخ سے کٹ کر تابناک ہوسکتاہے ۔کبھی بھی نہیں ۔مستقبل ماضی کی قربانیوں کا ہی حاصل ہوتاہے ۔جنر ل موسیٰ اپنی کتاب Jawna to General میں لکھتے ہیں :ــ’’میری آنکھوں کے سامنے مسلمان مہاجرین کو پاکستان لے جانے ایک ٹرین کو امرتسر سے چند میل باہر واقع خالصہ کالج کے نزدیک مسلح سکھ جتھوں نے روک لیا اور ایک ہزار سے زائد مردوں ،عورتوں اور بچوں کو قتل کردیاگیا ۔ٹرین کے اندر اور باہر ہر طرف لاشیں ہی لاشیں نظر آرہی تھیں۔خون ڈبوں سے باہر بہہ رہاتھا ،یہ ایک منظم قتل تھا ‘‘۔جنرل حسن گل نے اپنی کتاب Memories میں لکھا ہے:’’اسلحہ کی تین سو ٹرینوں میں سے صرف تین ٹرینیں پاکستان پہنچیں جب اسلحہ کے بکسوں کو کھولا گیا تو ان میں سے اینٹیں اور پتھر برآمد ہوئے ‘‘۔پاکستان ائیر فورس کو ملنے والے جہازوں کے انجنوں میں شکر ڈال دی گئی تاکہ یہ راستے ہی میں تباہ ہوجائیں ۔جس پاکستان کا قیام کے وقت یہ حال تھا ،ٹھیک اٹھارہ سال بعد اُسی پاکستان نے انڈیا کی جنگ ِ ستمبر میں ٹھکائی کردی ۔اسی پاکستان نے ۲۸مئی ۱۹۹۸ء کو ایٹمی دھماکہ کرکے دنیا کی ساتویں اور ستاون اسلامی ممالک کی پہلی ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کردیا ۔ اسی پاکستان نے اپنے سیٹلائیٹ خلاؤں میں بھیجے ۔اسی پاکستان کی بہادر افواج نے دہشت گردی کو پہاڑوں کی غاروں میں دفن کردیا ۔دنیا حیران ہے کہ اس حیران کن فوج نے گوریلا جنگ میں اتنی جلدی کامیابی کیسے حاصل کرلی ؟ آخر یہ پاکستان ہے کیا ؟ جس کو مٹانے کیلئے طاغوتی قوتیں پورا زور لگاچکی ۔آخر یہ کیوں بنایا گیا ؟ اس ملک کی،اس سلطنت کی ،اس پاک سرزمین کی منزل کیا ہے؟

کسی صالح شخص نے کہاتھا کہ ’’پاکستان کو ملکوں کی سرداری ملے گی‘‘۔پہلے میں واضح کردوں کہ مجھے پاکستان سے محبت کیوں ہے؟ اقبال ؒ نے تو وطن کو بت کہاتھا کہ ان تازہ بتوں میں نیا سب سے وطن ہے ۔ ذرا سوشیالوجی کی اساس پر غور کرلیں ۔فرد معاشرہ اور ریاست کی اکائی ہے ۔فرد اور معاشرہ کے درمیان جو قوت ِ جاذبہ ہے یعنی وہ کشش کی قوت جو افراد کو آپس میں جوڑ کر ریاست بناتی ہے ۔ملت بناتی ہے۔وہ قوت ِ جاذبہ ایک ہمہ گیر آئیڈیالوجی ہوتی ہے۔برصغیر کے مسلمانوں کے درمیان قوتِ جاذبہ اﷲ اور اُس کے رسول ِ کریم ﷺکا ادب تھا ۔یہ آئیڈیالوجی بنیاد ہے قیام ِ پاکستان کی ۔ مجھے پا ک فوج سے محبت اسی آئیڈلوجی کی وجہ سے ہے ۔کہ اُن کا ماٹو ’’ایمان ،تقویٰ ،جہاد ‘‘ہے۔مجھے سپیشل سروسز گروپ سے محبت ہے ۔کیونکہ اُن کاوِرد ’’اﷲ ھُو ،اﷲ ھُو‘‘ہے۔دشمن کی قوت ،تعداد اور جسامت کچھ بھی ہو ،سرکارِ دوعالم کے یہ شاہین کبھی سرنڈر نہیں کرتے ۔آئی ایس پی آر کا یہ بیان دل کو گرما گیا کہ عقیدہ ختم ِ نبوت پر پاک فوج نے کبھی سمجھوتہ کیا ،نہ کرے گی۔یہی وجہ ہے کہ مجھے اُس صالح مرد کے اس جذبے میں صداقت دکھائی دی کہ ’’پاکستان کو ملکوں کی سرداری ملے گی‘‘۔اﷲ رب العزت نے رسول اﷲ ﷺ کا ذکر بلند کیا ہے ۔اقبال ؒ نے ایک شعر میں قلمبند کیا ۔
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت ِ شان ِرفعنا لک ذکرک دیکھے

جو شے بلند ی سے منسوب ہوجاتی ہے ۔منسلک ہوجاتی ہے و ہ بھی بلند ہوجاتی ہے ۔پاکستانی قوم رسول اﷲ ﷺ کا دل و جان سے احترام کرتی ہے ۔چونکہ یہ قوم بلند ذکر والے رسول کا احترام کرتی ہے اسلئے لاجک دکھائی دیتی ہے کہ اﷲ اس قوم کو سربلند کردے گا۔ اس کے گناہ بخش دے گا۔اور یہ قوم بڑے عظیم الشان ،آفاق گیر اور بین الاقوامی کارنامے سرانجام دے گی ۔کفر نے ہمیشہ رسول اﷲ ﷺ کی ذات کے حوالے سے ہمارے دل پر زخم لگانے کی کوشش کی ۔ابلیسی قوتوں کا اب بھی ماٹو وہی ہے جو کل تھا ۔
وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذر ا
روحِ محمد اُس کے بدن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرت دیں کاہے یہ علاج
مُلا کو اُن کے کوہ ودمن سے نکال دو
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سراکو چمن سے نکال دو

اﷲ رب العزت اور رسول ِ کریم ﷺ کے ادب کو درمیان سے نکال دو ۔ہم سب کے درمیان جو قوت ِ جاذبہ ہے جاتی رہے گی ۔ہم بکھر جائیں گے ۔اقبال ؒ نے کیا خوب ترجمانی کی ۔
در دل ِ مسلم مقام ِ مصطفی است
آبروئے مازنامِ مصطفی است
ترجمہ :’’رسول اﷲ ﷺ کامقام مسلمان کے دل میں ہے ۔ہماری آبروآپ ﷺ کے نام کی وجہ سے ہے‘‘۔ اقبال ؒ فرماتے ہیں :
تُو فرمودی رہِ بطحا گرفتیم
وگرنہ جز تو مارا منزل ِ نیست
ترجمہ ’’آپ ﷺ نے فرمایا تو ہم نے مکہ کی راہ اختیارکرلی وگرنہ آپ ﷺ کے سوا ہماری کوئی منزل نہیں ‘‘۔حکیم الامت نے ایسے ہی ہوا میں شعر نہیں کہہ دیا ۔دلیل دیتاہوں ۔بیعت ِ رضوان کے موقع پر حضرت سیدنا عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب مذاکرات کیلئے سردارانِ مکہ کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کو آفر دی کہ آ پ طوافِ کعبہ کرلیں ۔تو حضرت عثمان نے جواب دیا میں طواف نہیں کروں گا جب تک رسول اﷲ ﷺ طواف نہیں کرلیتے ۔
اُن صحابہ کی خوش اطوار نگاہوں کو سلام
جن کا مسلک تھا طواف ِ رُخ ِزیبا کرنا
اقبال جیسے لوگوں کی نظر میں رسول اﷲ ﷺ کا کیا مقام تھا؟
طُور موجے از غبارِ خانہ اش
کعبہ را بیت الحرم کاشانہ اش
ترجمہ :’طُور آپ ﷺ کے گھر کے غبار کی ایک موج ہے اور آپﷺ کا کاشانہ مبارک کعبہ کیلئے بیت الحرم کا درجہ رکھتاہے‘‘۔
اس شعر میں اقبال ؒ نے قلم توڑ دیا
ذکر و فکر و علم و عرفانم تُوئی
کشتی و دریا و طوفانم تُوئی
ترجمہ :’’میرا ذکر ،میرا فکر ،میرا علم ،میرا عرفان آپ ﷺ ہیں ۔میری کشتی ،میرا دریا ،میرا طوفان آپﷺ ہیں ‘‘۔کائنات کے عظیم رہنما ،قائدآپ ﷺ ہیں ۔آپ ﷺ سے ہٹ کر کوئی لیڈ ر شپ نہیں ۔میری قوم سے گزارش ہے ۔علما ٗ کو مولوی مت کہا کریں ۔علما ء کا احترام کیا کریں ۔یہی لوگ ہیں جن کے سینوں میں رسول اﷲ ﷺ کیلئے محبت ہے ،ادب ہے ۔اپنے آپ کو سیکولر اور ماڈرن ثابت کرنے کے اور بھی طریقے ہیں ۔علماء کو مولوی کہہ کر ہم بہت مہذب اور تعلیم یافتہ نہیں بن جائیں گے۔قوم اﷲ رب العزت اور رسو ل اﷲ ﷺ کے ادب پر متفق و متحد ہو۔یہودی ایک مذہبی نظریہ پر متفق ہوکر ایک قوم بن گئے ہیں ۔ملت ِ اسلامیہ کے ۵۷ اسلامی ممالک کا اتحاد اسی نظریے پر ہوسکتاہے ۔اس نظریے کو موجودہ تناظر میں دیکھ لیں بیت المقدس کی حرمت سب مسلمانوں کے دلوں میں یکساں ہے اسی حرمت نے سب کو متحد کردیاہے اور جب ہم اُس ذات کے ادب پر متفق ہوجائیں گے جس نے بیت المقدس کو ’’قبلہ اول‘‘بنایا تھا مجھے یقین ہے پاکستان کو ملکوں کی سرداری ضرور مل کے رہے گی ۔جنگیں جسموں سے نہیں روحوں کی توانائی سے لڑی جاتی ہیں ۔اور روحوں کی توانائی کا سرچشمہ ایک آئیڈیالوجی بنا کرتی ہے ۔

Ehsan
About the Author: Ehsan Read More Articles by Ehsan: 8 Articles with 16649 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.