ایک پالتو جانور پر کی گئی تحقیق کا سائنسی و اسلامی تجزیہ

کتا… تہذیب مغرب کے شعائر میں سے ایک ہے۔ اسے امارت، جدت اور فیشن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ دنیا میں 7کروڑ 75لاکھ کے لگ بھگ لوگوں نے 40کروڑ کتے پالے ہوئے ہیں۔ یہ مشغلہ کم و بیش 20تا 40ہزار سال قبل شروع کیا گیا جب انسان پتھر کے دور میں رہتا تھا۔ اسے اپنی حفاظت کے لیے قدرتی سیکورٹی گارڈز کی ضرورت تھی جسے پورا کرنے کے لیے کتے کا انتخاب کیاگیا۔ دورِ حاضر میں یہ کئی قسم کے کام آتا ہے مثلا چوکیداری، شکار، وزن کھینچنے، اپنی مخصوص حس کی بنا پر مجرموں کو ڈھونڈنے ، نشہ آور اشیاء کا پتا لگانے ، مختلف کھیل اور تنہائی کو دور کرنا وغیرہ۔

گزشتہ دنوں سویڈن سے شائع ہونے والے ایک جریدہ ’’سائنٹیفک رپورٹ‘‘ نے ایک تحقیق شائع کی۔ جسے دنیا بھر کے میڈیا نے جلی سرخیوں میں جگہ دی۔ یہ رپورٹ 2001ء سے 2012ء تک کے اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر تیار کی گئی۔ اس کے مطابق ’’کتا پالنے والے افراد دِل کی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔‘‘ وجہ یہ بیان کی گئی کہ ایسے لوگوں کی جسمانی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ مالکان کتے سے مائیکرو بایوم نامی بیکٹیریا سانس کے ذریعے حاصل کرتے ہیں جو انسان کو مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ نیز کتا محافظ کا کردار ادا کرتا ہے جس سے موت کا خطرہ 33%کم ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً انسان دِل کے عوارضات سے محفوظ رہتا ہے۔

لیکن اگر اس رپورٹ کے ساتھ ناروے میں کی گئی تحقیق کو سامنے رکھا جائے تو معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے۔ ناروے میں چھاتی کے سرطان کے بارے میں تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ اس مرض کا تعلق 79.9%ان لوگوں کے ساتھ تھا جنہوں نے کتے یا دیگر جانور پالے ہوئے تھے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ پالتو جانوروں کے مالکان کے لیے دیگر انسانوں سے 29%خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ایک جرمن ڈاکٹر نوللر کے مطابق کتوں میں فیتہ کی شکل کا ایک جراثیم پایا جاتا ہے جو کئی ایک دائمی امراض کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ پھیپھڑوں، عضلات، تلی، گردہ اور سر کے اندرونی حصوں میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر اس کا علاج کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اسی طرح ایک اور رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا میں 53.3%لوگ کسی نہ کسی طرح کتوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ وکی پیڈیا کے مطابق ہر سال 4.7ملین لوگ کتوں کے کاٹنے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جن میں 77%خود مالک یا ان کے دوست ہوتے ہیں۔

جناح ہسپتال کراچی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور شعبہ حادثات کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق ہمارے ہسپتال میں سالانہ چھ ہزار مریض ریبیز(یعنی کتا کاٹنے) کے آتے ہیں جن میں زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔ ان کے مطابق صرف ایشیا میں ایک لاکھ لوگ سالانہ ریبیز کا شکار ہو جاتے ہیں۔ غور کیا جائے تو یہ ایک ہوش رُبا تعداد ہے۔ لیکن ان اعداد و شمار سے قطع نظر کرتے ہوئے ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ دانش ورانِ مغرب ایسی رپورٹیں شائع کرتے ہیں جن سے بجائے اس کے ایسی جان لیوا اشیاء کے پالنے کے شوق کی حوصلہ شکنی ہوتی، الٹا حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اگر تحقیق کے اظہار کے لیے ایسی رپورٹ شائع کرنا ضروری ہو تب بھی اس کے ساتھ ساتھ ان کے نقصانات سے آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ خود مغرب میں نہ صرف قانون سازی کی گئی بل کہ شعور بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ اپنے پالتو جانوروں کی ویکسی نیشن ضرور کروائی جائے تاکہ ممکنہ بیماریوں سے بچا جا سکے۔ سویڈن میں انسانوں کی طرح قومی ڈیٹا بیس میں کتوں کا ریکارڈ بھی درج کیا جاتا ہے۔ چائنہ میں ون ڈاگ پالیسی کا قانون بنایا گیا ہے خلاف ورزی کرنے والے کو دو ہزار یوآن جرمانہ کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ چالیس اقسام کے خون خوار کتوں پر پابندی بھی عائد کی گئی ہے۔ ہمسایہ ملک ایران میں پبلک مقامات پر کتے لے جانے پر 74کوڑوں کی سزا کا قانون بنانے پر غور ہو رہا ہے۔ بھارت کے علاقہ چندی گڑھ میں کتا پالنے پر 250روپے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ وطنِ عزیز میں ایسا کوئی قانون سننے میں نہیں آیا۔حالاں کہ یہ ایک اسلامی مملکت ہے اور یہاں کے ننانوے فی صد باشندے بھی مسلمان ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں وڈیرے اور جاگیردار لوگ اپنے سے کمزور لوگوں پر کتوں کے ذریعے تشدد کرواتے ہیں اور کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ اس پر آواز بلند کر سکے۔

اسلام ایسی لغو چیزوں سے نہ صرف روکتا بل کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو وعیدیں بھی سناتا ہے۔ ہمارے نبی کریم حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے کہ جس نے مویشیوں کی حفاظت، شکار کی غرض یا کھیتی کی حفاظت کے سوا کتا پالا، اس کے ثواب میں ہر روز ایک قیراط کمی کر دی جاتی ہے (بخاری)۔ ابوداؤد شریف میں درج ہے کہ ایک مرتبہ جبرئیل علیہ السلام نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آنے کا وعدہ کیا لیکن وعدے کے مطابق نہ آئے۔ کچھ دیر کے بعد جب نبی علیہ السلام باہر تشریف لے گئے تو فورا جبرئیل علیہ السلام بھی آ گئے۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے نہ آنے کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ’’آپ کے کمرے میں کتے کا پلا موجود تھا جس کی وجہ سے میں نہ آیا۔ کیوں کہ جس گھر میں کتا ہو وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔‘‘ اسی طرح حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’جب کسی برتن میں کتا منہ مار لے تو اسے سات بار پانی سے اور ایک بار مٹی سے دھویا جائے۔‘‘ جدید سائنس کے مطابق کتے کے لعاب میں خاص قسم کے زہریلے جراثیم ہوتے ہیں جو مٹی میں موجود نوشادر کے سبب ختم ہو جاتے ہیں۔

صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’سب سے بُری کمائی زنا کی کمائی اور کتے کو بیچ کر حاصل کی گئی رقم ہے۔‘‘ جب کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک پسماندہ سے شہر کمالیہ میں ایک کتا نو لاکھ روپے تک فروخت ہو جاتا ہے۔ دنیا میں سب سے مہنگا کتا چائنہ کے ایک تاجر نے خریدا جس کی قیمت پندرہ لاکھ ڈالر بتائی گئی ہے۔ امریکہ میں پالتو کتوں کی تعداد چھ کروڑ سے زائد ہے جن پر ایک کھرب بیس ارب روپے اوسطا خرچ ہو جاتا ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ جس دنیا کی آدھی آبادی کو رہنے کے لیے گھر ، کھانے کے لیے غذا اور پہننے کے لیے کپڑا میسر نہ ہو وہاں کے ایک ملک کے کتے کھربوں روپے اڑا جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہر جان دار کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں جو کہ ان کے مالکان میں بھی سرایت کر جاتی ہیں۔ ایک بزرگ سے پوچھا گیا کہ ’’کیا وجہ ہے کہ کتا اتنا وفادار ہوتا ہے لیکن آپ مسلمان لوگ پھر بھی اس سے نفرت کرتے ہو؟‘‘ وہ کہنے لگے ’’وفادار تو ہوتا ہے لیکن اپنے ہم جنسوں سے بَیر (دشمنی) رکھتا ہے!!!‘‘

Abdus Saboor Shakir
About the Author: Abdus Saboor Shakir Read More Articles by Abdus Saboor Shakir: 53 Articles with 99307 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.