ہمیں ادھورا احتساب نہیں چاہیئے

اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے آج ہم نواز شریف ،جہانگیر ترین کے نااہلی کے فیصلوں پر ایسے شادیانے بجارہے ہیں اور خوشی کا اظہار کررہے ہیں جیسے کہ ہم نے ملک کو کرپشن سے پاک کرلیااگر واقعی ہمارے احتسابی ادارے اور عدالتی نظام یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہر بدیانت ،بے ایمان اور کرپٹ انسان کے خلاف بلاامتیاز کاروائی کرے تو شاید کسی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ اس کے عوامی نمائندے نااہلی کے فیصلوں سے بچ سکیں لیکن ہم نے ایک پتلی تماشا لگایا ہوا ہے چند سالوں کے بعد کبھی توہمارے ڈکٹیٹر آکر قبضہ کرلیتے ہیں تو کبھی سیاستدان احتساب کا نعرہ لگا کر عوام کو بے وقوف بناتے ہیں جبکہ دوسری جانب بچاری عوام ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے سانس لینے سے لے کر قبر میں جانے تک حکومت نے عام انسان پر ٹیکسوں کی بھرمار کردی ہے لیکن پھر بھی سی بی آر والوں کا سالانہ ٹارگٹ پور اہوتا ہے اور نہ ہی ہمارے کرپٹ حکمرانوں کا خزانہ بھرتا ہے ایک عوام ہے جو سوکھ کر کانٹا ہوئی جارہی ہے جبکہ دوسری جانب ہمارے سیاستدانوں کاوجود اور ان کی توندیں ناقابل برداشت حد تک بڑھتی جارہی ہیں ۔آپ ہمارے بجلی کے بلوں کو دیکھ لیں جوکہ بائیس کروڑ عوام میں سے 85 فیصد استعمال کرتے ہیں اور ان بلوں بے شمار ٹیکسیز صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں اسی طرح یہی حال ٹیلیفون ،موبائل ،گیس اور بازار سے اشیاء ضرورت کی خریداری پر ہے جس پر 17 فیصدسیل ٹیکس عائد ہے لیکن اس کے باوجود حکمران کہتے ہیں کہ عوام ٹیکس ادا نہیں کرتے عوام ٹیکس چور ہیں حالانکہ جتنا ٹیکس پاکستان کے عوام دیتے ہیں اور جتنے فلاحی کاموں میں ہماری قوم دلچسپی لیتی ہے شاید ہی کسی ملک کے عوام لیتے ہوں لیکن ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہمیں قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد کوئی بھی مخلص ایماندار رہنما ملا ہی نہیں جوکہ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل شدہ پیسوں کوعوام کی بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنے پر خرچ کرے ۔پاکستان جوکہ دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی طاقت اور واحداسلامی ملک ہے جس کو اﷲ تعالی نے بے پناہ ایسی خصوصیات سے نوازا ہے جو اس کرہ ارض پر شاید ہی کسی کو حاصل ہوں ۔کوئلہ کا بڑا ذخیرہ ،نمک کی کانیں ،ریکوڈیک کے مقام پر سونے کے بھاری ذخائر ،زمرد ،نیلم ،چپسم اور ماربل کے بڑے بڑے پہاڑ بائیس کروڑ انسانوں کی آبادی پر مشتمل دنیا کے پہلے دس بڑے ملکوں میں شامل گیس اور پیٹرو ل کے بڑے ذخائر ،دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ،پہاڑی میدانی سلسلے کے علاوہ جنگلات ،سمندر دریا اور ہر قسم کے موسموں سے اﷲ نے ہمیں نوازا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں اور نیچے سے لے کر اوپر تک براجمان کرپٹ مافیا افسران ،سرمایہ دار ،تاجران،جاگیرداروں ،سیاستدانوں نے قدرت کی طرف سے دیئے گئے وسائل کو بری طریقے سے ضائع کیا اور بجائے اس سے استفادہ اٹھا کر عوام کی فلاح وبہود پر خرچ کیا جاتا انہیں ضائع کیاگیا ۔ہمارا میڈیا دوآدمیوں کی نااہلی پر اتنا پر مسرت دکھائی دے رہا ہے کہ جیسے اب ہماری سمت درست ہوگئی ہے اور ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوگئے ہیں یہ ہماری خام خیالی ہے ہمارے سسٹم کی ایک چھوٹی سی مثال اپنے ذاتی تجربے کی دوں گا۔مجھے باپ کی طرف سے وراثت میں کاروبار ملاجسے میں اپنے بچوں کی روزی روٹی کے لئے چلاتا ہوں اور باقاعدگی سے ہرسال انکم ٹیکس بھی ادا کرتا ہوں میرا سال 2013.14 اور سال 2014.15 میں کیسیز انکم ٹیکس آڈٹ میں آگئے اسے آپ ایسے سمجھ لیں جیسے ہماری انکم ٹیکس کے خونخوار افسران اور عملہ کے ہاتھوں پکڑ ہوگئی اور اس کے باوجود کہ کاوبار عرصہ دراز سے نقصان میں جارہا ہے ۔لوڈشیڈنگ ،فرقہ واریت اور مختلف آپریشنز میں ہمارے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں کاروبار زندگی معطل کیاہوا ہے لیکن اس کے باوجود مجھے ہزاروں روپے ٹیکس دینا پڑا۔انکم ٹیکس کا محکمہ پاکستان کے کرپٹ ترین محکموں میں سے ہے جہاں کا اصول یہ ہے کہ جو انکم ٹیکس کے ریٹرن فائل کرے وہی پھنسے جبکہ دوسری جانب میرے ایک دیرینہ دوست ہیں جوکہ اربوں روپے کی اراضی کے مالک ہیں سالانہ کروڑوں روپے کی ان کی فصل ہوتی ہے لیکن ان کا این ٹی این نمبر ہی نہیں ہے۔یہ اس ملک کا دوہرا معیار ہے ۔زراعت سے وابسطہ بیشتر جاگیردار وڈیرے ٹیکسوں سے مثتثنٰی ہیں لیکن ایک غریب پھٹے والے دکاندار پر کبھی تو انکم ٹیکس کا عملہ کبھی ایکسائزاور کبھی بلدیہ آکر انہیں حراساں کرتے رہتے ہیں ۔ایسے حالات میں جب انصاف کا معیار دوہرا ہو عام آدمی کے لئے الگ اور خاص کے لئے الگ قانونہو تو لوگ اکاّ دکاّ فیصلوں سے مطمئن ہونے والے نہیں ہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہر اس سیاستدان جرنیل ،مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے لوگوں کا کڑا سے کڑا احتساب ہو اور ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ انصاف ہوتا نظر آئے ۔امید پر دنیا قائم ہے ہمیں اپنی نچلی عدالتوں سے کسی بھلائی کی امید ہے ہی نہیں سپریم کورٹ اوپر کی سطح پر اکاّدکاّ کاروائی کرتی رہتی ہے جبکہ ہمارے احتسابی ادارے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔پورا پاکستان یہ جانتا ہے کہ آصف علی زرداری کرپشن کے بے تاج بادشاہ ہیں مرکز میں توانہوں نے اور ان کے رفقاء نے جو کمایا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے لیکن سندھ حکومت میں عرصہ دراز سے کرپشن کی بہتی کنگا میں آشنان کررہے ہیں عوام یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ ان پر بھی ہاتھ ڈالا جائے جب تک ملک میں سینکڑوں نہیں ہزاروں نہیں چند لاکھ لوگوں کو جن میں ججز ،جرنیلز ،جرنلسٹس کو کیفر کردار تک نہیں پنچایا جائے گا احتساب کا عمل ادھورا رہے گا۔
٭٭٭
 

Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 137537 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.