اس با ت میں کو ئی شک نہیں کہ پاکستان مسلم لیگ’’ ن
‘‘دودھ میں ملاوٹ مافیا کیخلاف بھرپور کاروائی رہی ہے لیکن پھر بھی ناکام
کیوں ہے ۔ملاوٹ مافیا اور سفارشی اپنے ناپاک عزم میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔’’
نبی کریم ﷺکی حدیث مبارک کا مفہوم ہے ایک عورت سونے کے زیورات پہن کر مشرق
سے مغرب تک اکیلی سفر کریگی اوراْس کی طرف آنکھ اْٹھاکر بھی کوئی نہیں
دیکھے گا یہ اسلامی ریاست کا نمونہ ہے اسلامی ریاست کی خوبی ہے دوسری طرف
سوشلزم اور کمیونزم کے علم بردار کارل مارکس نے کہا تھا کہ ایسا معاشرہ
وجود میں آئے گا جہاں قانون اور قانو ن نافذ کرنے والے اداروں کی ضرورت
نہیں ہوگا کنفیوشس،ارسطو ،سقراط اور افلاطون کے ہاں بھی کم و بیش اسی قسم
کی ریاست کا تصور ملتا ہے جو شہریوں کی ذمہ درانہ سوچ اور فکر سے جنم لیتا
ہے شہریوں کا ضمیر زندہ ہوتا ہے تو ان کو جھنجھوڑتاہے اس طرح کا زندہ ضمیر
کس طرح وجود میں آتا ہے ؟ذراتصور کیجئے گھر ہے مسجد ہے مکتب مدرسہ اور سکول
ہے اس پر ایک اہم ستون اور اہم معاشرتی ادارے کا اضافہ کیجئے اخبارات ،اور
میڈیا یہ سب مل کر معاشرے کے ضمیر کو زندہ رکھتے ہیں۔‘‘
اسلامی ممالک میں پاکستان کا ایک خاص مقام ہے اور رہے گا ۔ وزیر اعلیٰ
پنجاب میاں شہباز شریف کی عوام دوست اور تعلیم دوست پالیسیاں ہمیشہ سے
سراہی جاتی رہی ہیں۔ شہباز شریف کے تعلیمی میدان میں ا نقلابی اقدامات میرے
لفظوں کے محتاج نہیں ہیں۔ انہوں ے ہمیشہ ملک و ملت کے سنہرے مستقبل کیلئے
مثبت کام کئے ہیں۔ ان کی محنت اور سچائی کا اعتراف مخالفین بھی کرتے نظر
آتے ہیں۔
افسوس اس بات پر ہے کہ یہ اطلاع بار بار سامنے آچکی ہے کہ پاکستان کے تمام
شہروں میں فروخت ہونے والا کھلا دودھ مضر صحت ہے اور کیمیکلز سے تیار ہوتا
ہے۔ یہ دودھ جس پر300روپے فی من لاگت آتی ہے، ہر دوسرے شہر میں تیار کیا
جاتا ہے اور اس میں بااثر مافیا ملوث ہیں۔ کھلا فروخت ہونے والا80فیصد دودھ
کیمیکلز والا ہے کہ ملک میں پیداوار سے 300فیصد زیادہ دودھ مارکیٹ میں آتا
ہے اور یہی دودھ،دہی، فالودہ، آئس کریم وغیرہ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔دودھ
میں ملاوٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لے رکھا ہے اور حالیہ سماعت
کے دوران سرکاری کارکردگی پر برہمی کا بھی اظہار کیا گیا اور ہدایت کی گئی
کہ ملکی یا غیر ملکی برانڈ، کھلا یا بند ڈبوں والا، ہر قسم کے دودھ کی درست
تحقیق اور پڑتال کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔ عدالت عظمیٰ کی واضح ہدایات کے
باوجود سرکاری سطح پر دودھ کی جانچ پڑتال کا کوئی نظام ہی وضع نہیں کیا گیا
اور نہ ہی ایسے آلات سامنے آئے ہیں، جن سے دودھ کی جانچ کی جا سکے۔
یہ برسوں پہلے شکایات تھیں کہ دودھ میں گدلا پانی ملایا جاتا ہے، پھر اِس
میں واشنگ پاؤڈر کی ملاوٹ کا ذکر ہونے لگا اور اس کے بعد گوالوں سے لئے
جانے والے دودھ کا ذکر ہوا تو بتایا گیا کہ بھینسوں کو ٹیکے لگا کر زیادہ
حاصل کیا جانے والا دودھ بھی مشکوک اور کئی خطرناک امراض کا باعث بنتا ہے،
ملائیشیا میں ایسے انجکشن لگانے کی ممانعت اور خلاف ورزی پر سزائے موت دی
جاتی ہے۔یہ صورت حال انتہائی پریشان کن اور تشویشناک ہے اور قابل غور بات
یہ ہے کہ مارکیٹ میں پیداوار سے تین سو گنا زیادہ دودھ موجود ہے۔ یہ دودھ
اور دہی بچوں سے بڑوں تک سبھی استعمال کر رہے ہیں اور کیمیکلز سے بنا دودھ،
یا دودھ میں ملاوٹ کینسر جیسے موذی امراض کا باعث بن رہا ہے۔ حال ہی میں یہ
رپورٹ بھی آ چکی کہ کینسر کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔حکومت کو فوری طور
پر اِس طرف توجہ دینی چاہئے، دودھ کی جانچ پڑتال کا واضح نظام ہو اور ساتھ
ہی ٹیسٹ کرنے والے جدید آلات مہیا کئے جائیں۔ لاہور میں بلدیہ کی ایک
لیبارٹری ہوتی تھی، جس میں دودھ وغیرہ کی ملاوٹ چیک کی جاتی تھی، اب اْس کا
نام بھی نہیں سنا جاتا۔ ویسے اس شعبہ سے متعلق کرپشن کہانیاں بھی بہت ہیں،
حکومت کو تمام پہلوؤں پر غور کر کے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔
تودوسری جانب سربراہ عوام دوست پارٹی انجینئر سید محمد الیاس نے ملاوٹ شدہ
دودھ فروخت کرنے والوں کیلئے موت کی سزا مقرر کرنے کیلئے لاہور ہائیکورٹ
میں درخواست دائر کر دی ہے.درخواست میں کہا گیا ہے کہ پنجاب کے تمام شہروں
میں ملاوٹ شدہ دودھ کی سرعام فروخت اور سپلائی کا سلسلہ جاری ہے، نرم
قوانین کی وجہ سے ملاوٹ مافیا قانون کی گرفت میں نہیں آتا، ہر سال ہزاروں
کم سن بچے ملاوٹ شدہ اور ناقص دودھ کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں ، ناقص دودھ
پینے کی وجہ سے شہری مختلف بیماریوں کا شکار اور غذائیت کمی کا سامنا کر
رہے ہیں ، دینا بھر میں سخت قوانین کی وجہ سے ملاوٹ شدہ دودھ کی فروخت پر
کڑی سزائیں ہیں، درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت قوانین میں ترمیم
کر کے ملاوٹ شدہ اور مضر صحت دودھ کی فروخت پر موت کی سزا مقرر کرنے کا حکم
دیا جائے۔
ضرورت توامرکی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف دودھ میں ملاوٹ مافیا
کیخلاف کاروائی میں ناکام کیوں ہورہے ہیں،ماہرین نے دودھ میں ملاوٹ مافیا
کیخلاف حکومتی میں بہت سی خرابیوں کی نشاندہی کیں ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ
سفارشی نظام ہے اس لئے متعدد اداروں کے’’ میٹرک ، ایف اے ، بی اے‘‘ سربراہ
صرف سفارش کی بناء پر تعینات ہیں،مینجمنٹ کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کی وجہ
سے دودھ میں ملاوٹ مافیا احتجاج کرنے کیلئے سڑکوں بند کردیتے ہیں اور
متعلقہ ادارے کے سربراہ کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ حکومت کو مجبورہوکر
انکے ناجائز مطالبات تسلیم کرنے پڑتے ہیں۔حکومت وقت کو اداروں کے سربراہ
تعینات کرنے سے پہلے متعلقہ ادارے کے حوالے سے مینجمنٹ کورس کروانا چایئے
پھر تعیناتی کرتے وقت بھی ملکی قانون اور آئین کو مدنظر رکھنا چاہئے ۔ تاکہ
قوم وملک کسی بڑے سانحہ کا شکار نہ ہو۔
|