مکرمی! آخر ہم لوگ کب نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں گے، ہمیں
سڑک پراتنی بے چینی ہوتی ہے کہ بس ، ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح ہم
فوراً منزل پر پہنچ جائیں ۔ اور اسی خاطر ہم ایمبولینس کو بھی راستہ دینا
گوارا نہیں کرتے ۔ اور الزام حکومت کو دیتے ہیں، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو
سب سے زیادہ قصور ہمارا خود کا ہوتا ہے ، آپ خود ہی بتائیں کیا ہم تھوڑا
صبر و تحمل نہیں کرسکتے اور وہ بھی ایسے موقع پر جب کسی کی زندگی کا سوال
ہوتا ہے ۔ ہم اگر تھوڑا سا رُک جائیں تو وہ مریض جو زندگی اور موت کی بازی
لگائے ایمبولینس میں اسپتال کی طرف رواں دواں ہوتا ہے ، وہ اگر وقت پر پہنچ
جائے تو اس کی جان بچ سکتی ہے۔ اور تو اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ہم خود
جلدی پہنچنے کے چکر میں دوسری گاڑی والوں کو بھی آزمائش میں ڈال دیتے ہیں ۔
ایسا اکثر تب ہی ہوتا ہے جب ہم پہنچنے کے وقت نکلتے ہیں ، کیا ہم وقت پر
نکل جائیں تو شاید وقت پر پہنچ بھی جائیں۔ ہمیں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے
کہ ہم اپنے ہی لوگوں کی جان کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں اور مکافاتِ عمل کے
ناطے اگر ہمیں بھی وہی بھگتنا پڑجائے تو پھر کیا کریں گے؟ |