خلیل اﷲ کا لقب پانے والے جلیل القدر پیغمبر حضرت
ابراہیم علیہ السلام عراق میں پیدا ہوئے۔ اُس وقت عراق پر نمرود نامی
بادشاہ کی حکومت تھی جو بڑا مغرور اور ظالم تھا۔ خدا کا نہ صرف منکر تھا
بلکہ اُس نے خدائی کا دعویٰ بھی کر رکھا تھا۔نمرود نے شہر کے سب سے بڑے
مندر میں سونے کا بُت رکھا ہوا تھا اور لوگ اس کی پوجا و پرستش کرتے تھے۔
اس کے علاوہ لوگ چاند ، سورج اور ستاروں کو بھی پوجتے تھے۔ آپ ؑ کی نسل میں
سے بہت سے پیغمبر گزرے ہیں اس لئے آپ ؑ کو ’’ابوالانبیاء ‘‘ یعنی نبیوں کے
باپ بھی کہا جاتا ہے۔ آپ ؑ کے والد آزر مذہبی پیشوا تھے اور بُت تراشی
اورفروشی اُن کا پیشہ تھا۔ جیسا کہ فرمان ایزدی ہے۔’’وہ وقت یاد کرو جب
ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا۔ کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے ‘‘۔ حضرت
ابراہیم علیہ السلام کے طور طریقے اور عادتیں بچپن ہی سے مختلف تھیں۔ آپبُت
پرستی کے خلاف تھے۔ جب جوان ہوئے تو اعلانیہ بتوں کو بُرا بھلا کہنا شروع
کردیا اور لوگوں کو بُت پرستی ترک کر کے خدائے واحد پر ایمان لانے اور خدا
کی بندگی کرنے کی تلقین کرنے لگے لیکن بُت پرست لوگوں پر آپ ؑکی تبلیغ کا
کوئی اثر نہ ہوا۔ ایک دن جب شہر کے تمام لوگ میلے میں شرکت کے لئے باہر گئے
ہوئے تھے تو آپ ؑ نے مندر میں گھس کر بڑے بُت کے سوا تمام بتوں کو توڑ پھوڑ
دیا اور کلہاڑا بڑے بُت کے کندھے پر رکھ دیا۔ جب لوگ واپس لوٹے اور انہوں
نے اپنے بتوں کا بُرا حال دیکھاتو بہت غصہ ہوئے۔ ایک شخص نے کہا کہ یہ کام
ابراہیم کا ہی ہوسکتا ہے کیوں کہ وہی بتوں سے نفرت کرتا ہے اور اُن کو ہر
وقت بُرا بھلا کہتا رہتا ہے۔ لوگوں نے آپ ؑ کو بلا کر پوچھا تو فرمایا کہ
اس بڑے بُت سے پوچھیں کہ یہ کام کس نے کیا ہے؟ یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے
دوسرے بتوں کو توڑا ہو۔لوگ کہنے لگے، تمہیں معلوم ہے کہ یہ حرکت کرسکتے ہیں
اور نہ ہی بول سکتے ہیں۔ اس موقع پر آپ ؑ نے اُن کو حقیقی خدا کی طرف توحید
کی دعوت دیتے ہوئے کہاکہ جب یہ بول نہیں سکتے اور خود اپنی حفاظت نہیں
کرسکتے تو پھر تم ان کو کس لئے پوجتے ہو؟۔
اس واقعے کی خبر جب بادشاہ نمرود کو ملی تو اُس نے حضرت ابراہیم علیہ
السلام کو دربار میں طلب کیااور پوچھا کہ تمہارا خدا کون ہے ؟ ۔ ’’ میرا
خدا وہ ہے جو زندگی اور موت کا مالک ہے ‘‘۔ آپ ؑ نے جواب دیا۔ نمرود نے کہا
کہ یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں جس کو چاہوں ماردوں اور جس کو چاہوں چھوڑ
دوں۔ یہ کہہ کر اُس نے قید خانے سے دو قیدی بلوائے۔ ایک کو رہا کردیا اور
ایک کو قتل کردیا۔آپ ؑ نے کہا۔ ’’ میرا خدا ہر روز سورج کو مشرق سے نکالتا
ہے۔ تم اگر خدا ہو تو ایک روز سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا ؤ‘‘۔اس بات پر
نمرود لاجواب ہوگیا اور تلملا کر حکم دیا کہ آپ ؑکو آگ میں جلا کر راکھ
کردیا جائے۔نمرود کے حکم کی تعمیل کے لئے ایک مربع میل کا احاطہ بنایا گیا
جس کی چار دیواری بیس گز تھی۔ جب ایک ماہ میں وہ احاطہ لکڑیوں سے بھر گیا
تو آگ جلائی گئی اور پھر دہکتی آگ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منجنیق
کے ذریعے ڈال دیا گیا لیکن اﷲ تعالیٰ کے حکم سے آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی
بن گئی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ کے دین کی تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا
لیکن آپ ؑ کی مخالفت میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا جس کی وجہ سے آپ ؑ عراق
چھوڑ کر ملک شام اور پھر وہاں سے کنعان (موجودہ فلسطین) میں آباد ہوگئے۔
ایک مرتبہ آپ ؑ اپنی بیوی کے ہمراہ مصر تشریف لے گئے۔ شاہ مصر نے آپ ؑ اور
حضرت سارہ ؑ کی پاک بازی سے متاثر ہوکر اپنی بیٹی ہاجرہ کو بطور لونڈی خدمت
کے لئے پیش کیا۔ اس وقت حضرت سارہ ؑ کی کوئی اولاد نہ تھی لہٰذا اُس نے خود
حضرت ہاجرہ ؑ کا نکاح آپ ؑ کے ساتھ کروادیا۔ بڑھاپے میں حضرت ہاجرہ ؑ کے
بطن سے حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت سارہ ؑ کے بطن سے حضرت
اسحاق ؑ پیدا ہوئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش ابھی ختم نہ ہوئی تھی ۔ اﷲ تعالیٰ نے
حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی اور بیٹے کو مکہ مکرمہ کے چٹیل میدان میں چھوڑ آئے۔
ایک روز جب کھانے پینے کے لئے کچھ نہ رہا تو حضرت ہاجرہ ؑ بچے کو زمین پر
لیٹا کر پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں پردوڑیں ( اس عمل کو حج
میں سعی کی صورت میں تا قیامت سنت بنا دیا گیا ) لیکن پانی نہ ملا۔ اسی
پریشانی کے عالم میں جب واپس حضرت اسماعیل ؑ کی طرف آئیں تو اُن کے پاؤں
رگڑنے سے پانی کا چشمہ اُبلا جو آب زم زم کے نام سے مشہور ہے۔ ایک رات حضرت
ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو
ذبح کر رہے ہیں۔ چوں کہ نبی کا خواب سچا ہوتا ہے پس آپ ؑ فلسطین سے مکہ
مکرمہ پہنچ گئے اور اپنا خواب بیٹے کو سُنایاتو انہوں نے کہا۔ ابا جان ! آپ
اﷲ تعالیٰ کے حکم پر عمل کریں ۔ مجھے آپ ثابت قدم پائیں گے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو مقام منیٰ لے گئے۔ لخت جگر کو زمین
پر لیٹا دیا اور اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر پوری طاقت سے گردن پر چُھری
چلائی۔ غیب سے صدا آئی کہ اے ابراہیم ! تو نے خواب سچ کر دکھایا ، ہم نیک
لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔ چنا ں چہ حضرت اسماعیل ؑ کی جگہ قربانی کے
لئے جنت سے ایک مینڈھا بھیج دیا گیا۔ انبیاء کرام ؑ کی اس سنت پر ہم مسلمان
آج بھی جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔اس عظیم آزمائش کے بعد اﷲ تعالیٰ نے
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ دنیا میں میری عبادت کے لئے خانہ
کعبہ کو پھر سے تعمیر کرو۔چنا ں چہ باپ بیٹے نے مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر
کی اور اﷲ تعالیٰ سے دُعا مانگی کہ اے اﷲ ! ہماری اس خدمت کو قبول فرما۔ آپ
ؑ نے تقریباً دو سو برس کی عمر میں وفات پائی اور حبرون ( شہر خلیل) میں
مدفون ہیں۔ |