حضرت عیسیٰ علیہ السلام ؛قرآن و حدیث کی روشنی میں (۹)

امام حسن عسکری علیہ السلام نے درج ذیل آیت کے سلسلے میں ارشاد فرمایا:’’لیس البر ان تولوا ․․․الآخر ۔‘‘
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا رخ مغرب و مشرق کی طرف کر لو بلکہ نیکی اس شخص کا حصہ ہے جو اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھے ۔(سورہ بقرہ؍ ۱۷۷)

مذکورہ آیت کی تفسیر میں امام چہارم علیہ السلام نے ارشادفرمایاــ:جب رسول اسلام ﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کو فضیلت و برتری عطا فرمائی ،خدا کے نزدیک آپ کی منزلت کی وجہ کو بیان فرمایا،آپ کے شیعوں اور آپ کی دعوت پر نصرت کرنے والوں کے فضائل بیان کئے ، آپ نے ان کی بداعتقادی ا ور اپنے و حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے اہل بیت کے ذکرشدہ فضائل کے پوشیدہ رکھنے کی وجہ سے ان کی سرزنش کی۔
تو یہودی و عیسائی نے فخر و مباہات کرنا شروع کیا اور کہا : ہم نے اپنے اس قبلہ کی طرف بہت سی نمازیں ادا کی ہیں اور یہ وہی قبلہ ہے جس کا حکم حضرت موسیٰ نے ہمیں دیا ہے اور ہم میں وہ شخص بھی ہیں جو پوری رات نماز میں گزار دیتے ہیں۔

نصاریٰ نے کہا:ہم نے اپنے اس قبلہ کی طرف بہت سی نمازیں ادا کی ہیں ۔اور یہ وہی قبلہ ہے جس کا حضرت عیسیٰ نے ہمیں حکم دیاتھا۔ہمارے درمیان وہ افراد بھی ہیں جو ذکرالٰہی میں شب بیداری کرتے ہیں ۔پھر دونوں نے کہا:آپ کا خیال ہے کہ ہماراپروردگار ہمارے سارے اعمال و نمازوں کو روبہ قبلہ اداکیاتھاصرف اس بناء پر باطل قراردے گاکہ ہم نے رسول اکرم اور ان کے بھائی علی کی پیروی نہیں کی ہے یا ان کے قول کے مطابق عمل نہیں کیا؟!
تب اﷲ اس آیت کو نازل فرمایا:اے محمدآپ کہہ دیجئے کہ ’’لیس البر ․․․الآخر۔‘‘
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا رخ مغرب و مشرق کی طرف کر لو بلکہ نیکی اس شخص کا حصہ ہے جو اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھے ۔(سورہ بقرہ؍ ۱۷۷)
اطاعت وہ ہے جس کے ذریعہ تم جنت پاؤ گے اور مغفر ت و رضوان الٰہی کے حقدار قرار پاؤگے ۔یہ نہیں کہ نماز میں تم اے عیسائی !مشرق کی طرف رخ کرلو اور تم اے یہودی!مغرب کی طرف رخ کرلو۔جبکہ تم امر پروردگار کی مخالفت کررہے ہو اورولی خدا سے نفرت کر رہے ہو۔
نیکی اس میں ہے کہ اﷲ پرایمان لاؤ جو واحدا لاحد،یکتاو بے نیازجسے چاہتاہے عظمت و بزرگی عطاکرتا ہے اورجسے چاہتاہے ذلیل و رسوا کردیتاہے ۔کوئی بھی اس کے امر کو رد نہیں کرسکتااور نہ ہی کوئی اس کے فیصلہ کو ٹال سکتاہے اور نیکی اس میں ہے آخرت پر اعتقاد رکھو۔(تفسیر امام عسکری۵۸۹)

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ بے شک اﷲ نے حضرت محمد ﷺ کو شریعت جناب نوح ،جناب ابراہیم کی شریعت ،جناب موسیٰ کی شریعت ،جناب عیسیٰ کی شریعت ،توحید ،اخلاص اور شریعت اسلام کا علم عطافرمایا۔اسلا م میں رہبانیت اور درویشی نامی کوئی چیز نہیں ہے۔اس میں طیب و طاہر چیزوں کو جائز اور بری چیزوں کو حرام قراردیاگیااور ان پر پڑے ہوئے بوجھ اور زنجیروں کو اتاراگیا۔اس طرح اس کی عظمت و فضیلت کو پہچنوایاگیا ۔آپ پر نماز ،زکوٰۃ ،روزہ،حج ،امر بالمعروف و نھی عن المنکر ،حلال و حرام ،میراث ،حدود،راہ خدا میں جہاد کو واجب قراردیاگیا۔وضو کا اضافہ ،فاتحۃ الکتاب ،اختتام سورہ بقرہ اور مفصل کے ذریعہ فضیلت بخشی گئی ہے ۔اﷲ آپ کے لئے مال غنیمت کو حلال قراردیااور رعب کے ذریعہ ان کے نصرت و مدد فرمائی ۔آپ کے لئے زمین کو طیب و طاہر اور سجدگاہ بنایا۔آپ کو اس دنیا کے کالے گورے اور جن وانس کی طرف بھیجا ۔مشرکین عرب کو قیدی بناکر رہا کیا ۔پھر اﷲ نے آپ پر وہ تکالیفیں عائد کیں جو گذشتہ انبیا ء پر نہ تھیں ۔آپ کے لئے آسمان سے بغیر نیام کے تلوار نازل کی اور فرمایا:’’فقاتل فی سبیل اﷲ لاتکلف الانفسک ۔‘‘
آپ راہ خدا میں جہاد کریں اور اپنے نفس کے علاوہ دوسروں کے مکلف نہیں ہیں۔(سورہ نساء؍۸۴)(بحارالانوار ج ۱۶ ص ۳۳۰ح۲۶)
سماعہ بن مہران سے روایت ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام نے اﷲ کے اس قول کے سلسلے میں سوال کیا :’’فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل ۔‘‘
پیغمبرآپ اسی طرح صبر کریں جس طرح پہلے کے صاحبان عزم رسولوں نے صبر کیا ۔(سورہ احقاف ؍ ۳۵)
آپ نے فرمایا:اولوالعزم سے مراد :جناب نوح ،جناب ابراہیم ،جناب موسیٰ ،جناب عیسیٰ اور حضرت محمد ﷺ ہیں۔

عرض کیا:وہ الوالعزم رسول کیسے بنے ؟
آپ نے فرمایا:اس لئے کہ جناب نوح کو کتاب اور شریعت کے ساتھ مبعوث کیاگیااور اس کے بعد تمام انبیاء نے آپ کی کتاب و شریعت کواپنایایہاں تک کہ جناب ابراہیم صحیفہ لے کر آئے اورآ پ نے جناب نوح کی کتاب کا انکار کئے بغیر اسے ترک کر دیا۔پس آپ کے بعد تمام انبیاء نے آپ کی کتاب و شریعت کو اپنایا یہاں تک کہ جناب موسیٰ کتاب و شریعت کے ساتھ تشریف لائے اورآپ نے جناب ابراہیم کے صحیفہ کا انکار کئے بغیر اسے ترک کر دیا۔پس آپ کے بعد تمام انبیاء نے آپ کی کتاب و شریعت کو اپنایا یہاں تک کہ جناب عیسیٰ کتاب و شریعت کے ساتھ تشریف لائے اورآپ نے جناب موسیٰ کی کتاب و شریعت کا انکار کئے بغیر اسے ترک کردیا ۔پس آپ کے بعد تمام انبیاء نے آپ کی کتاب و شریعت کو اپنایا یہاں تک کہ حضرت محمد ﷺ کتاب و شریعت کے ساتھ تشریف لائے اورآپ نے جناب عیسیٰ کی کتاب و شریعت کا انکار کئے بغیر اسے ترک کردیا ۔پس اب حلال محمد ی تاقیامت حلال اور حرام محمدی تا قیامت حرام رہے گا ۔

نوٹ:اس مضمون میں درایت اورروایت کے صحیح السندہونے سے قطع نظر صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق روایات کو جمع کیا گیا۔(مترجم)