آﺅ ملِ کر فصیل شہر کو اونچا کریں
ہے سلامت شہر تو محفوظ اپنا گھر بھی ہے
ایک بادشاہ کا دربار لگا ہوا تھا ، چونکہ سردی کا موسم تھا ، اس لیے بادشاہ
کا دربار کھلے میدان میں ہی لگا ہوا تھا، سب خواص و عوام صبح کی دھوپ میں
بیٹھے تھے۔ بادشاہ کے تخت کے سامنے ایک میز تھی اور اس پر کچھ قیمتی اشیا
رکھی تھیں۔وزیر ، مشیر اور امرا وغیرہ سب دربار میں بیٹھے تھے ، بادشاہ کے
خاندان کے دیگر افراد بھی موجود تھے۔اسی وقت ایک شخص آیا اوردربار میں
داخلے کی اجازت چاہی۔اجازت مل گئی تو اس نے کہا” میرے پاس دو اشیا ہیں ،
میں ہرملک کے بادشاہ کے پاس گیا ہوں اوراپنی اشیا ءکو بادشاہ کے سامنے
رکھتا ہوں پر کوئی فرق جان نہیں پاتا ، تمام ہارچکے ہیں اور میں ہمیشہ
کامران و کامیاب ہو کرلوٹتا ہوں“ اب آپ کے ملک میں آیا ہوں بادشاہ نے کہا ”
کیا چیزیں ہیں ؟“ تو اس نے دونوں اشیاءبادشاہ کے سامنے میز پر رکھ دیں۔وہ
دونوں اشیا رکھنے میں بالکل ایک جیسی جسامت، یکساں رنگ، یکساں چمک گویا کہ
یہ دونوں اشیا ایک دوسرے کی نقل محسوس ہوتی تھیں۔بادشاہ نے کہا یہ دونوں
اشیا تو بالکل ایک جیسی ہی ہیں۔ تو اس شخص نے کہا جی ہاں دکھائی تو ایک سی
ہی دیتی ہیں لیکن ہیں مختلف۔ان میں سے ایک ہے بہت قیمتی ہیرا اور ایک ہے
شیشہ، بظاہر یہ دونوں ایک جیسے ہی ہیں ، کوئی آج تک یہ نہیں پہچان سکا کہ
کون سا ہیرا ہے اور کون سا شیشہ۔کوئی جانچ کر بتائے کہ ان میں سے ہیرا
کونسا ہے اور کونسا شیشہ ؟ اگر کوئی صحیح پہچان گیا اور میں ہار گیا تو یہ
قیمتی ہیرا آپ کا ہو جائے گا لیکن شرط یہ ہے کہ اگر کوئی پہچان نہیں پایا
تو اس ہیرے کی جو قیمت ہے اتنی رقم آپ کو مجھے بطور انعام دینا ہوگی۔
اسی طرح میں کئی ممالک سے جیت کرآیا ہوں۔بادشاہ نے کہا میں تو نہیں پہچان
سکتا ، وزیر و مشیر بولے ہم بھی جانچ نہیں سکتے کیونکہ دونوں بالکل ایک
جیسے ہیں۔سب کو گمان تھا کہ اب تو شکست ہی مقدر ہے لیکن شکست پر انعام کا
مسئلہ بھی نہیں تھا ، کیونکہ بادشاہ کے پاس دولت بہت تھی، بادشاہ کی عزت
اور انا کا مسئلہ تھا کیونکہ تمام عالم میں یہ مشہور تھا کہ بادشاہ اور اس
کی رعایا بہت ذہین ہے اور اس طرح ان کی سبکی ہوتی۔ کوئی شخص بھی پہچان نہیں
پا رہا تھا۔آخر کار تھوڑی سی ہلچل ہوئی۔ ایک نابینا شخص ہاتھ میں لاٹھی لے
کر اٹھا ، اس نے کہا مجھے بادشاہ کے پاس لے چلو میں نے تمام باتیں سنی ہیں
اور یہ بھی سنا ہے کہ کوئی پہچان نہیں پا رہا ہے ایک موقع مجھے بھی دیں۔ایک
آدمی کے سہارے وہ بادشاہ کے پاس پہنچا اس نے بادشاہ سے درخواست کی کہ ایسے
تو میں پیدائشی نابینا ہوں لیکن پھر بھی مجھے ایک موقع دیا جائے جس میں بھی
ایک بار اپنی ذہانت کوجانچ سکوں اور ہو سکتا ہے کہ کامیاب بھی ہو جاں اور
اگر کامیاب نہ بھی ہوا تو ویسے بھی آپ تو ہارے ہوئے ہی ہیں۔بادشاہ کو محسوس
ہو کہ اسے موقع دینے میں کیا حرج ہے۔بادشاہ نے کہا کہ ٹھیک ہے۔اس نابینا
شخص کو دونوں چیزیں چھو نے کے لیے دے دی گئیں اور پوچھا گیا ،اس میں کون سا
ہیرا ہے ؟اور کون سا شیشہ؟یہی آپکو معلوم کرنا ہے۔اس آدمی نے ایک لمحے میں
کہہ دیا کہ یہ ہیرا ہے اور یہ شیشہ۔ جو آدمی اتنے جگہوں سے جیت کر آیا تھا
وہ بہت حیران ہو گیا اورکہا” ٹھیک ہے آپ نے صحیح پہچانا آپکو مبارک ہو۔
اپنے وعدہ کے مطابق اب یہ ہیرا بادشاہ کا ہوا “ تمام لوگ بہت حیران ہوئے کہ
ایک نابینا شخص نے کیسے جان لیا کہ اصل ہیرا کونسا ہے اور سب نے یہی سوال
اس نابینا شخص سے کیا۔اس نابینا شخص نے کہا کہ سیدھی سی بات ہے دھوپ میں ہم
سب بیٹھے ہیں ، میں نے دونوں کو چھو کر محسوس کیا۔جو ٹھنڈا رہا وہ ہیراجو
گرم ہو گیا وہ شیشہ اسی طرح زندگی میں بھی جو شخص سخت اور مشکل حالات میں
مشتعل ہو جائے اور حالات کا سامنا نہ کر سکے وہ شیشہ کی مانند ہے اور جو
تمام حالات میں ٹھنڈا رہے ہو ہیرے کی مانند ہے۔جبکہ ہمارے خون میں اتنی
گرمی ہوچکی ہے کہ ہم معمولی معمولی بات پر اگلے بندے کا خون پینے تک تیار
ہوجاتے ہیں برداشت کا مادہ ختم ہوچکا ہے آئے روز چھوٹی چھوٹی غلطی اور
کوتاہی کی وجہ سے لوگ قتل ہورہے ہیں اور قتل کرنے والا تو سزا بھگتے گا ہی
اسکے گھر والے بھی دن رات جیتے اور مرتے ہیں لوگوں کے تلخ رویوں کو برداشت
کرنا ،تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا کمزوری اور بزدلی کی نشانی نہیں
بلکہ بڑے پن کا مظاہرہ ہوتا ہے اور وہ انسان نہایت ہی عظیم انسان ہوتا ہے
جو اپنے خون کی گرمی کو مثبت سرگرمیوں میں استعمال کرے ایک دوسری کی مشکلات
کو کم کریں مگر ہم الٹا کام کرتے ہیں خوشیوں کو اپنے تک محدود جبکہ غموں
اور دکھوں کو دوسروں تک پھیلانا چاہتے ہیں مجھے یاد ہے کہ ہمارے بزرگ جب
کسی باادب ،انتہائی ٹھنڈے مزاج اور دوسروں کی کڑوی کسیلی باتوں کو برداشت
کرنے والے بچے کو ہیرا بچہ پکارتے تھے مگر آج ہمارے نوجوانوں سمیت بچے اور
بڑے سب کے خون میں گرمی بڑھ چکی ہے بعض دوست تو ایسے بھی ہیں جو کسی کا
مذاق بھی برداشت نہیں کرتے ہماری جیلوں میں اکثریت ایسے قیدیوں کی ہے جنہوں
نے غصہ میں آکر کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کردی کہ قانون کی گرفت میں آگئے
ایسی غلطیاں جو انسان غصہ اور خون میں گرمی کی وجہ سے ایک بار کربیٹھتا ہے
تو پھر اس بار ساری عمر پچھتاتا رہتا ہے ہمارے مذہب نے غصہ کو حرام قرار
دیا مگر ہم پھر بھی اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑا بڑا غصہ نکالتے ہیں
انسان کو ہیرے کی طرح اپنے دل ،دماغ اورخون کو ٹھڈا رکھنا چاہیے غصہ چند
لمحوں کا ہوتا ہے مگر بعد میں وہ پچھتانا ساری عمر کا روگ بن جاتا ہے اس
لیے والدین ،اساتذہ ،بہن بھائی ،یار دوست اور محلے داروں کو چاہیے کہ وہ
اپنے بچوں اوراردگرد بسنے والوں کو اپنے جذبات ٹھنڈے اور ان پر قابورکھنے
کا سبق دیتے رہیں بڑوں کو اپنے غصے پر کنٹرول رکھ کر بچوں کے لیے ایک نمونہ
بننا چاہیے تاکہ ہمارا آنے والا کل سکون اور بغیر کسی جھنجٹ کے گذر سکے
ورنہ تو لڑائی جھگڑے کے لیے خون تو ہر وقت گرم ہی ہے ہمارا ۔
معشوقِ ماباشیوئہ ہرکس برابر اَست
بہ ما شراب خورد و بہ زاہد نماز کرد
درج بالا تمہیدی کلمات دراصل موجودہ حالات میں ” عدم برداشت “ کے بڑھتے
واقعات کے تناظر میں لکھے گئے ہیں، عدم برداشت کی وجہ سے جہاں ہم معاشرتی
اور معاشی اعتبار سے کمزور ہوتے جارہے ہیں وہیں ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں
ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ سیاست ہو یا مذہب ، سکول ، کالج ، گلی
محلہ گھر ہر جگہ عدم برداشت کے ڈیرے ہیں، آخر وجہ کیا ہے ؟؟ کیا ہمارے اندر
دوسروں کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں ؟؟ یا پھر ہماری ” میں “ نے طریقہ کار
بگاڑ دیا ہے۔ ہمیں اپنی معاشرتی اقدار کو گرم موسم اور وقت کی تیز آندھیوں
سے بچا کر رکھنا ہوگا۔ امن ، بھائی چارا،اور برداشت وقت کی ضرورت ہے۔ ایک
ہاری سے لے کرجاگیردار تک اور ایک درجہ چہارم ملازم سے چیف سیکرٹری تک اس
کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، ملک میں محبتیں بانٹیں، نفرتوں کی
زنجیریں توڑ دیں، یہی وقت ہے ” ایک “ ہونے کا، اگر آج ہم نے من الحیث القوم
فیصلہ نہ کیا اور متحد نہ ہوئے تو پھر ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں
کریں گی۔
حافظا گر وصل خواہی صلح کن باخاص و عام
بامسلماں اللہ اللہ ، بابرہمن رام رام
حوس و زر کے اس ماحول میں جب ڈیرہ اسماعیل خان کے نواب خانوادوں کی طرف سے
حوا کی بیٹی کو سرعام گلیوں میں برہنہ کرکے گھسیٹا جارہا ہو اور پھر کے پی
کے حکومت کے نمائندگان اور پولیس اپنے اداروں اور سیاسی راہنماﺅں کو بچانے
کی وکالت کررہی ہو، ایک وڈیرہ مرغی چوری کرنے والے مزدور کو جب سرعام
پنچائیت میں جوتے لگاتا رہے، غریب کسان کی فصلیں اجاڑی جارہی ہوں، اور پھر
یہاں ریاست پاکستان خاموش تماشائی بنے ظلم و بربریت کا بازار کھولنے والوں
کی وکالت کررہی ہو، ایسے میں برداشت کی حدیں کراس کر جاتی ہیں، اور پھر لوگ
جرائم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست
پاکستان ظالم اور جابر وڈیروں، نوابوں ، خانوں ، خانوادوں کو نکیل ڈالے ،
سخت قانون سازی کرے، پولیس کا نظام درست کرے تو یقینا ”برداشت “ کا فروغ
ہوسکتا ہے وگرنہ ” دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے “ ۔
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ دو اسے جو لشکر باطل کے ساتھ ہے
اس ڈھنگ پر ہے زور تو یہ ڈھنگ ہی سہی
ظالم کی کوئی ذات نہ مذہب نہ کوئی قوم
ظالم کے لب پہ ذکر بھی ان کا گناہ ہے
پھلتی نہیں ہے شاخ ستم اس زمین پر
تاریخ جانتی ہے زمانہ گواہ ہے
کچھ کور باطنوں کی نظر تنگ ہی سہی
یہ زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے
یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے
جو خون ہم نے نذر دیا ہے زمین کو
وہ خون ہے گلاب کے پھولوں کے واسطے
پھوٹے گی صبح امن لہو رنگ ہی سہی
جمہوری اداروں کے پیروکاروں اور ” جمہوریت جمہوریت “ کی رٹ لگانے والوں کو
اپنے آمرانہ رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی،ٹاک شوز میں بیٹھ کر خواتین اور
حضرت انسان کی تذلیل کرنے والوں کو روکنا ہوگا، تعصب اور لسانیت کی فضاءکو
ختم کرنا ہوگا۔ دلوں سے منافقت کی ” سموگ “ ختم کرنا ہوگی۔ تعلیم جیسے
معتبر شعبے پر ” سیاسی خود کش “ حملہ آوروں کو روکنا ہوگا، بڑے بڑے سیاسی
محلات میں بیٹھ کر اساتذہ کی عزت و تکریم کی دھجکیاں اڑانے والوں کے ہاتھ
روکنا ہوں گے، بیوروکریسی استاد کے احترام کا خیال رکھے نہ کہ سیاستدانوں
کی ” جھوٹی شکایات “ کے آگے سجدہ ریز ہوجائیں !!! آج ضرورت ہے کہ ہم آپس کی
نفرتوں کا باب ختم کرنا ہوگا، علماءکرام کو مسجد و ممبر پر بیٹھ کر امن
بھائی چارے اور باہمی رواداری کا درس عام کرنا ہوگا۔ نفرتوں اور پلیتیوں کو
مٹانے کے لیے شاکر شجاع آبادی کیا خوب مشورہ دیتے ہیں۔
اے پاکستان دے لوکو ! پلیتیاں کو ±ں مٹا ڈیوو
نتاں اے جئیں وی ناں رکھئے، اے ناں اوں کوں ولا ڈیوو
جتھاں مخلص نمازی ہنِ ا ±و مسجد وی ہے بیت اللہ
جو م ±لاّں دے دکاناں ہنِ مسیتاں کوں ڈہا ڈیوو ¿
پڑھو رحٰمن دا کلمہ بنڑوں شیطان دے چیلے
منافق تو ±ں تاں بہتر ہےِ جو کافر ناں رکھا ڈیوو ¿
جے سچ آکھنڑ بغاوت ہےِ بغاوت ناں ہےِ شاکر دا
چڑھاؤ نیزے تے سر بھانویں میڈے خیمے جلا ڈیو
ہمیں ایسی ریاست بنانا ہوگی جس میں ریاست اپنے شہریوں کو ” ماں کی گود “
جیسا سکون اور ماں جیسا پیار دے۔ اس لیے ہر شہری کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ
ایک ایسی ریاست میں زندگی بسر کرے جہاں اُسے سکھ چین نصیب ہو، جہاں اُس کی
بہو ، بیٹی کی عزت و آبرو محفوظ ہو، جہاں کسی عورت کو مختیاراں مائی یا
طیبہ نہ بننا پڑے،جہاں کسی ٹیچر کی تذلیل نہ ہو، تعلیمی اداروں میں سیاسی
مداخلت نہ ہو اور اگر ہر شہری یہ خواب دیکھے کہ اُس کی ریاست ماں جیسی ہو
تو یہ بے جا نہ ہوگا۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے
عدل بنا جمہور نہ ہو گا
عدل ہوا تو دیس ہمارا
عدل ہوا تو دیس ہمارا
کبھی بھی چکنا چور نہ ہو گا
عدل بنا کمزور ادارے
عدل بنا کمزور اکائیاں
عدل بنا بے بس ہر شہری
عدل بنا ہر سمت دھائیاں
اوردنیا کی تاریخ میں سوچو
کب کوئی منصف قید ہوا ہے؟
آمر کی اپنی ہی اَنا سے
عدل یہاں ناپید ہوا ہے
عدل کے ایوانوں میں سن لو
اصلی منصف پھر آئیں گے
روٹی کپڑا اور گھر اپنا
لوگوں کو ہم دلوائیں گے
آٹا بجلی پانی ایندھن
سب کو سستے دام ملے گا
بے روزگاروں کو ہر ممکن
روزگار اور کام ملے گا
ریاست ہو گی ماں کے جیسی
ہر شہری سے پیار کرے گی
فوج لگے گی سب کو اچھی
جب سرحد کے پاس رہے گی
جا ¶جا ¶ سب سے کہ دو
محمد علی جنا ح نے لوگو
دیکھا تھا جو سپنا سب کا
ساری دنیا پراب ہو گا
سایہ ایک اور ایک ہی رب کا
وہ رب سچا وہ رب سانجھا
وہ ہرمذھب ہردھرم کا رب ہے
مسلم ہندو سکھ عیسائی
ہرانسان کے کرم کا رب ہے
سانجھا مالک سانجھا خالق
اسکے در پے سب حاصل ہے
عدم تشدد اسکا رستہ
امن ہمارا مستقبل ہے
ظالم اورغاصب کی دشمن
جنتا اب سے عیش کرے گی
مظلوموں کی آخر
جاری جدوجہد رہے گی
رستہ تھوڑا ہی باقی ہے
دیکھودیکھو وہ منزل ہے
ظالم ڈرکے بھاگ رہا ہے
جیت ہمارا مستقبل ہےت٥٥
|