جیسے دیکھو تھر پہ لکھے جا رہا ہے پاکستان فیڈرل کونسل آف
کالمسٹ کے تقریباً ممبران جو ہمارے ساتھ دورہ تھر میں شریک تھے انہوں نے
تھر کی وضاحت میں کچھ نہ کچھ لکھ دیا ہے تھر کی وضاحت میں کوئی مثبت خیال
ظاہر کرتا ہے تو کوئی منفی سب نے اپنے مزاج کے مطابق ہی تھر کو بیان
کیا۔بہت سے رہنماﺅں کا خیال تھا کہ صحافی حضرات تھر کی منفی خصوصیات کو ہی
اجاگر کرتے ہیں بہت حد تک ان کی بات کو درست سمجھنے کا حق رکھتی ہوں کیوں
کے اگر دیکھاجائے تو کیا اموات یہاں موجود ہسپتالوں میں نہیں ہوتیں تو جواب
مثبت”کہ“ کیوں نہیں جبکہ کراچی روشنیوں کا شہر ہے یہاں تما م ضروری سہولیات
موجود ہونے کے باجود شرح اموات موجودہے اسی طرح تھر میں سہولیات کی کمی کو
موت کی وجہ مقرر کرنا درست نہیں انسانی جان تو بہت اہمیت کی حا مل ہے یہاں
تو جانوروں کی زندگی کو بھی بچانے کی ہر ممکن کو شش کی جاتی ہے۔ اس مےں
کوئی دو رائے نہےں کہ وہاں اموات کی وجہ پےدا ہونے والے بچوں مےں منرل اور
وٹامن کی کمی ہوتی ہے وہ کےسے ختم ہو جس کی وجہ اخوراک کی قلت ہے ظاہر ہے
تھر کی زمین اپنے نام کی طرح لوگوں کو بنجر نظر آتی ہے لیکن اس زمین کی گود
میں کتنے خزانے دفن ہیں یہ شائد آنے والا وقت ہی بتائے گا سندھ پاکستان کا
ا یک اہم صوبہ ہونے کی حیثیت سے بہت اہمیت کا حامل ہے تھر کی بنجر زمین
سندھ کے بڑے رقبے کو گھیرے ہوئے ہے ۔ یہا ں کی ز مین کاشتکاری کے لئیے
ناموزوں ہونے کی بنیاد پر یہاں بھوک کی شدت موجود ہے۔کول مائین کاپروجیکٹ
اپنی جگہ ایک حیثیت رکھتا ہے لیکن کیایہ پروجیکٹ وہاں موجود تھری لوگوں کی
بھوک مٹا پائے گا ۔ اس پر وجیکٹ نے تھری عوام کے لئے بہت سے منصوبے شروع
کروادئےے ہےں جن مےں تعلےم اورصحت کو انتہائی اہمےت دی گئی ہے لیکن بنیادی
ضروریات جو کے وہاں کی انتہائی اہم ضرورت ہے کے لیے انکے پاس شاید کوئی
پلان نہیں کہ ان ویرانوں میںصحت مند رہنے کے لیے خوراک کس طرح مہییا کیا
جائے وہاں دور دور تک کھانے پینے کی اشیاءکا میسر آنا مشکل ہی نہیں نا ممکن
سا لگتا ہے ۔ تھر کا مستقبل کول ما ئن کے پراجیکٹ میں پنہا ں ہے اس منصوبے
میں شراکت دار کی تعداد زیا دہ اور مستفید ہونے والے آٹے میں نمک کے برابر
تھری لوگ ہیں۔حکومت پاکستان ۳۵ فیصد اس میں ثراکت رکھتی ہے باقی کی شراکت
مختلف کمپنی جن میں اینگرو سر فہرست کی ہے۔آنے والے سالوں میں زمین تھر
پاکستان کو کوئلے کی ایک وافر مقدار کے ذریعے بجلی پیدا کر کے فیڈرل کو
دینے والی ہے اس کان کی کے ہونے والے مراحل کے دوران تھری لوگوں کے جو گھر
زد میں آنے والے ہیں ان کے نعم البدل مکانات کے بہترین ماڈل بھی تیار
کروادیئے گئے ہیں ۔کھدائی میں متاثر ہونے والے رقبے کے لحاظ سے ماڈل گھر کی
تعدا د ز یادہ ہونی چاہئے تھی لیکن اس کے بر عکس صرف ایک ہی ما ڈل گھر تیار
کیا گیا ہے ما ڈل گھر کی ارائش وزبائش میں کو ئی کمی بظاہر نظرنہیں آتی سند
ھ کی ثفا قت کو انتہائی اعلی زوق کے سا تھ محفوظ کیا گیا ہے کہا یہ جا تا
ہے کہ انفرادی تھری جو کہ اس طرح کے شا ندار ماڈل گھر سے نوازا جاتے والا
ہے سند ھ میں رہنے والے کو اس سے پہلے بھی سنہری خو اب دیکھا ئے گئے ہیں
یہا ں گوجنے والا نعرہ روٹی کپڑا مکان نجانے کیوں غیر محفوظ اور لا حا صل
ہو کر رہ گیا ہے خواب کے شرمندہ تعبیر ہو نے تک خواب ہی شرمندہ ہوکر رہ گیا
۔سیاہ چمچماتی سڑکیں اس بات کی گو ا ہی تو دے رہیں کہ سرزمین تھر ترقی کی
شاہراہ پہ گا مزن ہے امید تو اچھی ہے لیکن پھر بھی کہیں ایسا تو نہیں کے
میں بھی منفی تو نہیں سوچنے لگ گئی ہوں نہیں نہیں یا رحمن سندھ کی سر زمین
پاک کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرما اور جو خواب دیکھا ئے جا رہے ہیں
ان کو شرمندہ تعبیر فرمادے ۔ |