آؤ شام غم منائیں

﴿حافظ محمد نعیم عباس کی کتاب ’’آؤ پیار کے دیپ جلائیں پھر‘‘سے اقتباس﴾

تمام پڑھنے والوں کی خدمت میں سلام پہنچے!احسن الخالقین نے جب سے ہی اس انسان کو تخلیق کیا تو ہر انسان کے ساتھ خوشی اور غم کی ایک ڈور بھی باندھ دی جو ایک انسان کے اس دنیا میں پہلے سانس لینے سے لے کر آخری سانس لینے تک ساتھ رہتی ہے ۔ ایک انسان جب اس دنیا میں اپنی آنکھ کھولتا ہے تو سب سے پہلے اس کی چیخ ہی سنائی دیتی ہے اس کے گھر والے اس کی پیدائش پر خوشیاں منا رہے ہوتے ہیں لیکن وہ اپنا غم رو رو کر سنا رہا ہوتا ہے ۔اور اپنی چیخوں کے ذریعے اپنے خالی پیٹ کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ خدارا اس کا کچھ کرو اور پھر جب اس کے پیٹ میں جونہی کوئی چیز جاتی ہے وہ مسکرانے لگتا ہے۔ اسی طرح یہی انسان زندگی کی ڈگری پہ چلتا ہوا جب اس دنیا سے رخصت ہو رہا ہوتا ہے تب بھی ایک ہلکی سی چیخ اس کے حلق سے خارج ہو رہی ہوتی ہے۔اور اسی ہلکی چیخ کے ساتھ وہ لاکھوں غموں کا بوجھ اٹھائے منوں مٹی تلے جا سوتا ہے۔

تو پتہ یہ چلا کہ انسان کا سانس غم کا عنوان ہے اور یہی غم انسان کا پہلی سانس سے لے کر آخری سانس کا ساتھی ہے۔ زندگی تو ہے ہی خوشی اور غم کا نچوڑ۔ ہم اپنے ارد گرد بہت سے لوگوں کی زندگی کو دیکھتے ہیں ان لوگوں میں سے بہت سے ایسے لوگ ہو تے ہیں جن کی ساری عمر ہی غموں میں گزر جا تی ہے ان کے یہ غم ان کو اتنا پختہ بنا دیتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب اس کو مزید غم ملتے ہیں تو وہ بندہ مسکرانے لگتا ہے کہ یا اللہ اب اور کتنے غم دے گا اور وہ ان غموں کو اپنا ساتھی بنا لیتا ہے۔ ان لوگوں کی زندگی غموں سے چور ہوتی ہے لیکن جونہی وہ کسی دوسرے سے ملتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے یہ بندہ بہت خوش ہے اور اس بندے کی زندگی میں شاید کوئی غم نہیں۔ لیکن یہ اس بندے کا عالی ظرف ہے کہ وہ غم کو بھی خوشی کی طرح برداشت کرتا ہے اور مرزا غالب کی طرح کہ جب انہیں مز ید غم ملتا تو کہتے کہ لو اب غالب کو ایک اور جوتی پڑی کہہ کر اس غم کے پہاڑ کو اپنے چھوٹے چھوٹے کندھوں پر اٹھا لیتا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک پھر ہر غم اور ہر دکھ ایک جوتی کی مار کے برابر ہو جاتی ہے۔

اسی طرح ہمیں اپنے معاشرے میں ایسے لوگ بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں کہ جن لوگوں کو زندگی میں برائے نام ہی غم ملتے ہیں اور ان کو زندگی خوشیوں سے بھری ہوتی ہے یہ لوگ غم جیسے تجربے سے نہیں گزرتے ان لوگوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب انہیں زندگی کے کسی مرحلے میں کسی چھوٹے سے دکھ اور غم کا سامنا کرنا پرتا ہے تو ان لوگوں نے چونکہ پہلے کوئی غم نہیں دیکھا ہو تا اس لیے یہ بہت جلد گھبرا اٹھتے ہیں ان لوگوں کے نزدیک ایک چھوٹا سا غم بھی پہاڑ برابر ہوجاتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ غم انسان کو کیا دیتے ہیں عموماً ہمارے ہاں کسی دکھ اور غم پر لوگ گلے شکوے کرنا شروع کردیتے ہیں لیکن میں نے جو ایک بات دیکھی اور تجربے کی بات کہ ٹھیک ہے غم انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے لیکن ایک غم انسان کو اور بہت سی چیزیں دے جاتا ہے مثلاً انسان کو طاقت ،حوصلہ اور سب سے بڑھ کر تجربہ جو اگر میں یہ کہوں کہ غم ایک آٹھ سالہ بچے کو ستر سالہ بوڑھے کے برابر زندگی کا تجربہ دے جاتا ہے تو یہ غلط نہ ہو گا۔اور جب کبھی آپ کو کسی بزرگوں کی محفل دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ دیکھنا کہ وہاں کئی دفعہ ان بزرگوں کی محفل میں آپ کو نوجوان یا کم عمر بچے بھی بیٹھے نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ جب یہ بزرگ کسی مسئلے میں اٹک جاتے ہیں تو انہیں نوجوانوں سے رائے لیتے ہیں کہ بیٹا تم اس بات کے متعلق کیا کہتے ہو۔ لیکن وہ جو نوجوان یا کم عمر بندہ بیٹھا ہو گا کوئی عام نہیں ہو گا اس کے پیچھے اس کا تجربہ ہو گا جو اس نے لازمی اپنے زندگی کی اونچ نیچ سے سیکھا ہو گا۔

ہمارے آج کے دور میں ان بابوں کو کچھ نہیں سمجھا جاتا۔اور ان کے ساتھ بعض جگہوں پے تو بہت ہی بہت ہی برا سلوک کیا جاتا ہے خاص طور پر نیو جنریشن کا تو جو سلوک میں نے دیکھا ہے اس سے تو اللہ سب کو بچائے لیکن جس بندے نے کم عمر میں دکھ اور غم ہی غم دیکھے ہوں تو وہ بند ہ آپ کو زیادہ تر بابوں کی محفل میں نظر آئے گا۔

اب یہ بندے زندگی کے معاملات میں بڑے چالاک ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو ان کے اپنے غم ان کو اتنا تجربہ دے دیتے ہیں اور دوسری طرف وہ ان بابوں سے ستر ستر سالہ زندگی کا تجربہ بھی لے لیتا ہے جو اسے مزید طاقتور بنا دیتے ہیں۔ جب ہم چھوٹے تھے تو ہم بھی مکتب میں پڑھا کرتے تھے تو وہاں ہمارے ساتھ ایک لڑکا پڑھا کرتا تھا ماشا اللہ بہت اچھی باڈی تھی اس کی۔ اب وہ جب بھی پڑھنے آتا تو کسی بابے کے ساتھ آتا تو اس کے ساتھ جو بابا آتا وہ اکثر ہمارے ساتھ اچھے مذاق کرتا اور بہت پیاری باتیں کرتا تو ایک دن ہم نے اس لڑکے سے پوچھا کہ یہ بابا کون ہے اور تم روزانہ اس کے ساتھ کیوں آتے ہو تو وہ کہنے لگا کہ یہ میرا دادا ہے میرے ماں باپ دونوں فوت ہو گئے اس وقت سے میرے دادا نے میری پرورش کی اب اس لڑکے کی جو بات میں آپ کو بتانا چاہتا تھا کہ اس لڑکے میں بلا کا Confidanceتھا اور میں اکثر اپنے ٹیچرز کو اس سے بہت سے معاملات میں مشورہ تک لیتے دیکھا یہ سب اس لیے تھا کہ ایک تو اس کو غم نے تجربہ دیا اور دوسرا اسے ایک تجربہ کار بندے کی رفاقت مل گئی۔

یہ زندگی کا ایک اصول ہے کہ ہر انسان کی زندگی میں غم اور خوشی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ایک غم جو کسی کے لیے موت کا سبب بن رہا ہوتا ہے وہی غم کسی دوسرے انسان کے لیے خوشی کا باعث بن رہا ہوتا ہے ہو سکتا ہے کہ جہاں کسی کی موت کے غم میں آنسوؤں کے سلاب بہائے جا رہے ہوں وہیں دوسری طرف اسی کی موت کے جشن منائے جارہے ہوں۔ میں نے اکثر دیکھا کہ ایک طر ف سے جنازہ آرہا ہوتا ہے اور دوسری طرف سے بارات یہ زندگی کا کارواں ہے جو ازل سے جاری و ساری ہے اور ابد تک جاری رہے گا ایک شاعر نے کہا تھا:
کسی کی ٹوٹیں چوڑیاں کسی کا بنے سہاگ
کبھی یہ دنیا روگ ہے کبھی یہ دنیا راگ

جب سے ہی انسان تخلیق ہو ا غم بھی اس انسان کے ساتھ ساتھ سفر کرتے رہے۔سب سے پہلے انسان یعنی آدم علیہ السلام کو بھی خلافت کا تاج دیکھ کر نہ جانے خوشی ہو ئی ہو گی یا آزمائشوں کا خوف غالب آیا ہو گا شاید ظَلُوماً جَھُولاً کا خطاب سن کر دل غم سے بھر گیا ہو گا خلافت کا بوجھ غم زدہ کرنے والی ذمہ داری ہی تو تھی جو اس مٹی کے پتلے کو وہاں بھی بے چین رکھتی۔اور پھر جب اپنے رب کی نہ مان کر جو آدم علیہ السلام کے دل میں احساس غم پیدا ہوا ہوگا تو یہ غم کیسے دل کو دہلاتا ہوگا۔ دھوکا کھانے کا غم، ندامت و شرمندگی اور پھر اپنے رب کی جانب سے جنت سے نکل جانے کا غم اور پھر حوا علیہ السلام سے دوری کا غم نے کیسے کیسے ان کے دل پر گھاؤ لگائیں ہوں گے۔

تو یہی وہ غم کی بنیاد تھی جو اس سے پہلے انسان کے ساتھ آئے اور یوں اس انسان سے قیامت تک آنے والی اس انسان کی نسلوں میں منتقل ہو گیا۔اور ابھی تک جاری ہے اور نہ جانے کب تک غموں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ تو ایک بات یہ کہ کبھی کچھ ایسا مت کریں کہ آپ کی وجہ سے کسی دوسرے پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں۔اپنے آپ کو اس قدر مضبوط بنائیں اور ہر وقت اپنے آپ کو کسی بھی غم کے لیے تیار رکھیں جب ہم اپنے غموں کو بھی خوشی سمجھ کر برداشت کریں گے تو بدلے میں آپ کو بہت کچھ ملے گا ہو سکتا ہے کہ آپ کا وہ غم خوشیوں میں بدل جائے اور خوشی کے ہر لمحات میں دوسروں کو بھی ساتھ ملائیں تاکہ خوشی کا دیا ہمیشہ جلتا رہے۔

تو اللہ ہم کو اس دیے سے دیا جلانے کی تو فیق دے۔(آمین﴾
Young Writer and Columnist
About the Author: Young Writer and Columnist Read More Articles by Young Writer and Columnist: 15 Articles with 13728 views Hafiz Muhammad Naeem Abbas.A young writer from Dist Khushab.
Columnist, Script Writer and Fiction, NON FICTION Writer.
Always write to raise the sel
.. View More