امراض قلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مرض شاعر حضرات کا پسندیدہ ترین مرض ہے۔ اردو شعرا میں یہ وافر مقدار یں
پایا جاتا ہے۔ اس میں مبتلا حضرات ہر سمے کسی کو ادھار یا نقد دل دینے کو
تیار رہتے ہیں۔ اگلی جانب سے قبولیت کی صورت میں ملاقاتوں اور تحفے تحائف
کا سلسلہ جاری ہوتا ہے جسکا انجام عموماً جیبوں کے صفائے کی صورت عبرت ناک
یا شادی کی صورت میں ہیبت ناک طور پر سامنے آتا ہے۔ با الفاظ دیگر دونوں
صورتوں میں ناک کٹنے کے امکانات کافی روشن ہوتے ہیں۔ اور باقی ساری عمر ناک
کی لکیریں نکالتے گزرتی ہے۔
اگر خوش قسمتی یا بد قسمتی سے اگلی جانب سے دل شرف قبولیت نہیں پاتا جو کہ
اکثر ہوتا ھے۔ تو شعر و شاعری کا ایک لمبا سلسلہ فروغ پاتا ہے جو سامعین کے
کان پھٹنے تک یا ان کے ہاتھوں میں پتھر آنے تک جاری رھتا ھے ۔
جسم کے باقی اعضا کے بر عکس دل اچھل کود کا کچھ زیادہ ہی شوقین ہوتا ہے
لہٰذا قدرت نے اسے پسلیوں کے پیچھے چھپا کے رکھا تھا لیکن یہ شریر وہاں بھی
باز نہیں آتا۔
بقول شاعر
ایک دن یہ پھیپھڑوں سے کہہ رہی تھی پسلیاں
ہم سب بھی تو ہیں جسم میں پھر آدمی دل ہی لگائے کیوں
دل کا کام عمومی طور پر دوران خون کو برقرار رکھنا اور شعرا کے معاملے میں
خصوصی طور پر بات بات پہ ٹوٹنا ہوتا ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کے اس عمل میں محبوب کا
سنگدل ہونا کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شدید توڑ
پھوڑ کے نتیجے میں دل اپنا اصل کام بھول جاتا ہے اور دوسرے ساتھی اعضاء کے
ساتھ مل کر سازشیں شروع کر دیتا ہے ۔مثال کے طور پر جگر اور دل کی ملی بھگت
سے شاعر کا خون سفید ہونے لگتا ہے اور وہ بات بات پر اپنوں اور بیگانوں سے
الجھتا ہے۔
دل کے چار خانے ہوتے ہیں کیونکہ اسلام میں چار ہی کی اجازت ہے ۔ تحقیق سے
ثابت ہوا ہے کہ شعرا کے دل میں ایک اضافی خانہ ہوتا ہے جو عام طور پر خالی
ہوتا ہے اور اسکے مکین آتے جاتے رھتے ہیں۔اس خانے کو غیر شاعرانہ زبان میں
فساد کی جڑ ۔مسافر خانہ ہا خانہ خراب کہتے ہیں۔
دل کے جملہ امراض کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا سوائے اسکے کہ مریض
کی جلد شادی کرا دی جائے۔ ویسے محققین اس بات پر متفق ہیں کہ دل کے دائمی
مریضوں اور شاعر حضرات کی صورت میں یہ مرض شادی کے بعد بھی جاری و ساری
رہتا ہے۔البتہ خاتون شعرا میں یہ مرض شادی کے بعد کافی حد تک شفا پا جاتا
ہےکیونکہ شوہر اور ساس نندوں کے ساتھ لڑائی جھگڑوں اور گالی گلوچ میں دل کا
بوجھ ساتھ ساتھ ہلکا ہوتا رہتا ہے۔علاوہ ازیں کچھ سالوں میں شعروں کی بجائے
پورے کا پورا دیوان آن کھڑا ہوتا ہے اور شاعرہ یہ گانے پر مجبور ہو جاتی ہے
دس میں کیہہ پیار وچوں کھٹیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |