تقریباً ایک ہفتہ ہو چکا ہے ایک بات کے بارے میں سوچتے
ہوئے کہ اسے سپرد تحریر کیا جائے یا نہیں ۔ جب بھی لکھنے کا ارادہ کیا ایک
جھجک سی آڑے آ گئی سترہ سال پرانی بات ہے ایک چھوٹی بہن کے علاوہ اور کبھی
کسی سے بیان نہیں کی بلکہ ہم تو بھول بھال ہی گئے تھے ۔ اور اب بھی احتمال
ہے کہ اسے کسی خودنمائی یا خودستائی یا میڈیا میں وائرل ہونے کے ہتھکنڈے پر
محمول نہ کر لیا جائے مگر پاکستان میں صرف مضامین و تجزیات کی ایک معروف
ویب سائٹ پر ملکہء ترنم نورجہاں کے بارے میں ایک اتنی گھٹیا تحریر نظر سے
گذری ہمیں وہ بھولی ہوئی بات یاد آ گئی اور شدت سے دل چاہا کہ اسے ھماری
ویب پر قارئین کے ساتھ شیئر کیا جائے ۔ یہ دراصل میڈم نورجہاں کے انتقال کے
بعد دیکھا ہؤا ایک خواب ہے اور یہاں ہم یہ وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم
بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ جھوٹا خواب بیان کرنا بہت سخت گناہ ہے اور حضورﷺ
نے ایسے شخص پر لعنت فرمائی ہے ۔
یہ ملکہء ترنم نورجہاں کے انتقال کے تقریباً تین ہفتے بعد کی بات ہے ایک
رات ہم نے خواب میں کیا دیکھا کہ رات کا وقت ہے اور ایک بہت بڑا میدان ہے
اور ایک چمکیلا سفید رنگ کا شامیانہ لگا ہؤا ہے جو کہ روشنیوں سے جگمگا رہا
ہے ۔ زرق برق ملبوسات زیب تن کئے ہوئے لوگوں کا رش لگا ہؤا ہے میڈم شامیانے
کے داخلی دروازے کے باہر کھڑی نظر آئیں ۔ انہوں نے سفید رنگ کی سفید ہی
کامدار ساڑھی پہنی ہوئی ہے اور سفید ہی نگینوں سے مزین بہت سے زیورات ۔ ان
کا سنگھار اور بال بنانے کا انداز وہی تھا جو کہ ان کا زندگی میں ہؤا کرتا
تھا اور وہ بالکل جوان اور انتہائی حسین نظر آ رہی تھیں ۔ یعنی ان کی عمر
اور حالت وہ نظر نہیں آ رہی تھی جو کہ ان کے آخری دنوں اور انتقال کے وقت
تھی ۔ آپ یقین کیجئے ان کے چہرے پر اتنی تابناکی ایسی خیرگی تھی کہ ہمیں
حالت خواب میں بھی ان سے ایک حسد سا محسوس ہؤا کیونکہ ہمیں اس بات کا ادراک
تھا کہ وہ انتقال کر چکی ہیں ۔ ہم نے دل ہی دل میں سوچا میڈم نے جو بھی
جیسی بھی زندگی گذاری مگر ان کے اس شاندار حال سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ
اللہ نے انہیں بخش دیا ہے اور انہیں اپنے جوار رحمت میں عمدہ مقام عطا
فرمایا ہے ۔ اور رشک و حسد کی یہ کیفیت ہم پر جاگنے کے بعد بھی طاری تھی ۔
اب ہم کوئی بہت پہنچی ہوئی اور کوئی برگزیدہ ہستی تو ہیں نہیں ایک بہت ہی
عام اور خطا کار انسان ہیں ہمارے دیکھے ہوئے اس خواب کی کوئی اہمیت ہو یا
نہ ہو اگرچہ یہ دینی تعلیمات و احکامات کے حوالے سے بہت سے اعتراضات و
سوالات کو جنم دینے کا سبب بھی بن سکتا ہے مگر یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ
میڈم ہمیں بُری حالت میں نظر آتیں مگر ایسا نہیں ہؤا بس یہی بات ہمارے لئے
اہم ہے ۔
تحریر متذکرہ کے مصنف نے جتنی محنت ایک مری ہوئی عورت کے اندر پڑے ہوئے
کیڑوں کو چُننے میں صرف کی اس سے کہیں کم میں وہ کوئی تعمیری و اصلاحی
تحریر بھی قلمبند کر سکتا تھا جس سے اس کی عزت اور نیکیوں میں اضافہ ہی
ہوتا ۔ اپنی انتہائی گھٹیا ترین تحریر میں وہ ایک خاص قسم کے دینی گھمنڈ
میں مبتلا نظر آتا ہے جیسے خود کو کوئی بہت بڑا دودھ کا دُھلا سمجھتا ہو ۔
مضمون کے اندر موجود دینی حوالوں کی صحت سے انکار نہیں ہے لیکن کیا اصلاح و
تبلیغ کا کام نورجہاں کی کیمسٹری و ہسٹری کا سہارا لئے بغیر نہیں لیا جا
سکتا تھا؟ اس نے اپنا وقت اور توانائی ایک گھٹیا و گنہگار عورت کی تاریخ
کھنگالنے میں کیوں خرچ کی؟ میڈم کے بارے میں اُگلا ہؤا ایک ایک لفظ انتہائی
سخت قسم کی نفرت مخاصمت تکبر اور شان رعونت سے لتھڑا ہؤا نظر آتا ہے مگر
سستی شہرت کا بھوکا جو منافق ہونے کے ساتھ ساتھ بزدل بھی تھا لہٰذا میڈم کی
زندگی میں اس کی جرأت نہیں ہوئی کہ اپنے بغض و حسد کا اظہار کر سکے ۔ موصوف
اگر ایسے ہی امت کے ہمدرد اصلاح معاشرہ اور کلمہء حق کے چمپیئن تھے تو اپنے
افکار عالیہ میڈم کی زندگی میں ہی کیوں نہیں قلمبند کئے؟ دبنگ نورجہاں ان
کے ہوش ٹھکانے لگا دیتی اسی لئے ملکہء ترنم کے جہنم رسید ہونے کے ایک سال
بعد موصوف نے یہ جرأت فرمائی ایک مذہبی میگزین میں اور ایک مقبول و معتبر
ویب سائٹ کی ٹیم نے سولہ سال پہلے کا گڑا مُردہ کھود کے نکالا اپنا سب نام
و مقام اور معیار و اعتبار اس کی جگہ دفن کرنے کے لئے ۔
بس آخر میں اتنا ہی کہنا ہے کہ اللہ بڑا بےنیاز ہے کچھ پتہ نہیں ہوتا کب
کون اسے پسند آ جائے کس کی توبہ قبول ہو جائے نورجہاں کا معاملہ بھی اس کے
سپرد ہو چکا ہے وہ بہتر جانتا ہے اس کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے اسے کہاں
رکھنا ہے کوئی بھی کون ہوتا ہے ملکہ کی جنت یا جہنم کا فیصلہ کرنے والا ۔
(رعنا تبسم پاشا) ۔
|