حکمت آمیز باتیں-تیراہواں حصہ

یہ تحریر فیس بک کے آفیشل پیج www.facebook.com/ZulfiqarAliBukhari
پر میری کہی گئی باتوں کا مجموعہ ہے، میری سوچ سے سب کو اختلاف کا حق حاصل ہے،میری بات کو گستاخی سمجھنے والے میرے لئے ہدایت کی دعا کر سکتے ہیں۔

دوسروں پر لعنت ملامت کرنے والے دراصل اپنی کمزوریوں کو چھپا رہے ہوتے ہیں۔

کم حوصلہ لوگوں سے زیادہ میل جول آپ کے حوصلے بھی پست کر دیتا ہے۔

دوسروں پر انگلی اٹھانے کا مقصد انکی ذلیل کرنا ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ اصلاح کی جانب توجہ دلوانا بھی ہو سکتا ہے تاکہ وہ اپنی غلطیاں اور رویے درست کر سکیں۔

بس نہیں چلتا ورنہ یہ بھی کر دوں،وہ بھی کر دوں؟؟؟ آخر ہم کسی کے لئے اپنی استطاعت کے مطابق ہی کچھ کیوں نہیں کرنے کا سوچتے ہیں،ہم جب حد سے زیادہ کسی کو عطا کرتے ہیں اور وہ ہمیں اس کے برخلاف کچھ تکلیف دیتا ہے تو پھر ہمیں اُس پر کئے احسانات آنا شروع ہو جاتے ہیں،اس لئے میرے خیال میں ایک حد میں ہی رہ کر کسی کو کچھ دینا چایہے،مگر کوشش یہ ہو کہ آپ کا ضمیر مطمن ہو جائے ،دوسروں کے مطابق آپ کبھی بھی جتنا بھی کر دیں وہ مطمن نہیں ہونگے۔

زندگی کے کسی ایک دکھ،ناکامی اورغلطی کو پوری زندگی پر پھیلا دینا اور اسی میں قید ہو جانا بے وقوفی ہے، دنیا بہت وسیع ہے لہذا ان لمحات کو سر پر سوار نہ کریں بلکہ ماضی کا تجربہ سمجھتے ہوئے آئندہ کی زندگی کو خوشگوار گذارنے کی کوشش کریں۔

جیون ساتھی کی پسند اگر آپ کی مرضی کی ہے تو پھر اس کے ساتھ تاحیات نبھانے کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد ہونی چاہیے ناکہ آپ دوسروں کے کہنے پر چل کر اپنے جیون ساتھی کو چھوڑنے پر آجائیں۔

کامیاب ہونے کے لئے شرط ہے کہ پہلا قدم اُٹھالیا جائے اور پھر منزل تک پہنچنے سے قبل سستی کو خود پر حاوی نہ ہونے دیا جائے تو آپ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

ہم اپنے گریبان میں جھانکنا ہی پسند نہیں کرتے ہیں کہ ہم کس قدر غلط کام سرانجام دیتے ہیں مگر دوسروں کے دامن کو داغدار ہوتا دیکھ کر زیادہ مچاتے ہیں کہ وہ بدکردار ہے

اپنے مفادات سب لوگوں کو عزیز تر ہیں،تب ہی اگر کہیں کوئی اپنے حق کی جستجو کر رہا ہو تو کم ہی لوگ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں،کچھ اپنے مفادات پر اپنے تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں تاکہ وہ خود پر سکون رہ سکیں،چاہے اس کی وجہ سے کتنے ہی لوگ بے آرامی اور پریشانی کا شکار رہیں۔

اسلام کےمطابق جھوٹ سے گریز کرنا چاہیے مگر جہاں ہم اپنے ہی چھوٹے بچوں کو جھوٹ بولنے پر مجبور کرتے رہیں گے تو پھر وہ کسیے سچ بولنے کی عادات اپنا سکتے ہیں۔

جب تک ہم سوچ نہیں بدلیں گے کچھ بھی نہیں ہوگا، جب ہماری سوچ ہی فرسودہ اور غلط ہوگی تو کیسے ہمارے حالات منفی سوچ کی وجہ سے بدل سکتےہیں۔

مجھے نہیں معلوم آپ کیا سوچیں گے کہ اس بات پر کہ ہم سب اعمال سرانجام دینے کے بعد یہ نہیں ہوا،وہ نہیں ہوا،ایسا نہیں ہوا،ویسا نہیں ہوا،وہ نہیں ملا،یہ نہیں ملا،ہم نے تو کوشش کی مگر نصیب میں ہی ایسا لکھا تھا وغیرہ وغیرہ کہہ کر کہیں ساری زمہ داری اللہ میاں پر تو نہیں ڈال دیتے ہیں،کیا واقعی سب معاملات میں ہماری سوچ سو فیصد مثبت ہوتی ہے ؟کیا ستر ماوں سے زیادہ پیار کرنے والی ذات اپنی ہی کلام پاک میں فرمانے کے بعد کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے؟یہ انسان کے لئے پیغام نہیں ہے کہ کسی قدر کچھ ملنے اور ہونے میں انسان کا اپنا بھی کردار ہے؟؟؟ تو پھر ہم کیوں ایسا کہتے ہیں کہ سب لکھا ہے تو کوشش کیوں کریں؟؟؟؟

اپنے ملک کے بارے میں نا زیبا باتیں کرنے والے یہ بات یاد رکھیں کہ وہ یہاں کے ہی باشندے ہیں، اپنے وطن سے محبت رکھنا چاہیے۔اگر کوئی خامی ہے تو اپنی کاوشوں سے دور کرنے کی کوشش کریں۔

آسان کام تو سب ہی کرسکتے ہیں مگر اپنی صلاحیتوں کو مشکل کاموں کو سرانجام دے کر بھی آزمانا چاہیے۔

اچھی عادتوں کے پختہ ہونے میں وقت لگتا ہے اس لئے کبھی گھبرانا نہیں چاہیے کہ بلکہ کوشش کرتے رہنے چاہیے کہ اچھی تبدیلی اپنے لا سکیں۔

ہر انسان کی اپنی سوچ ہوتی ہے یہ ضروری نہیں ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی سوچ پر چل کر انکا غلام بن جائے۔

بدعنوان عناصر یہ اتنا بڑا گنا ہ نہیں ہے کہہ کہہ کر آپ کو بھی اپنے ساتھ شریک جرم کرلیتےہیں اور جب آپ گناہ کی دلدل میں پھنسنا شروع ہوتے ہیں تو پھر واپسی ناممکن سی ہو جاتی ہے لہذا گمراہی کے راستے پر چلنے سے پہلے سوچ لیں کہ ہدایت نصیب ہو یا نہ ہو، ابھی سنبھل سکتے ہیں تو فوری طور پر برائی سے دور ہو جائیں۔

محبت وہ ہے جب کوئی آپ کو غلط کام سے روک کر اچھا بننے پر اکساتا ہے تاکہ آپ کبھی کسی جرم میں پکڑے نہ جائیں۔جتنے بھی رشتوں میں ایسا احساس شامل ہوتا ہے وہ سب محبت کی ڈور سے بندھے ہوتے ہیں۔

ایسے لوگ جو بنا بتائے ایک طرف ہو جاتے ہیں وہ اپنے اوپر تو ظلم کرتے ہیں،دوسرے کے ساتھ بھی اکثر ناانصافی کر تے ہیں اور پھر اپنی غلطی کو جب تسلیم کرتے ہیں تو پھر بھی معافی نہیں مانگتے ہیں کہ سمجھتے ہیں کہ دوسرا ہی غلط ہوگا یا ایسا کرنا اچھا ہے کہ بھرم قائم رہے مگر ایسے لوگوں کو مکافات عمل کا ایک دن جب سامنا کرنا پڑتا ہےتو پھر وہ اپنے آپ سے بھی آنکھیں نہیں ملا کر مل سکتے ہیں۔

اختلاف رائے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ دوسروں کو قانون ہاتھ میں لے کر ٹھکائی کرکے اپنے موقف تسلیم کرنے پر مجبور کریں یا جان سے ہی مار دیں، حق پر کون ہے بہترین فیصلہ رب کی ذات کرنے والی ہے،مار دینے سے سوچ بدل نہیں جائے گی لہذا دلیل سے سوچ بدلیں ورنہ ہدایت کی دعا کریں۔

دوسروں پر انگلی اٹھانا اور طنز کرنا آسان سا عمل ہے مگر یہی فعل جب ہمارے خلاف ہو تو اتنا ہی برداشت کرنا مشکل ہے۔

سچ بولنے سے آپ کی جہاں قدرومنزلت بڑھتی ہے وہاں دوسروں کو بھی سچ کہنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

یہ ضروری نہیں بوتا ہے کہ جب بھی دوسری شادی کی جائے، کسی عورت کی حق تلفی مردکرے۔عورت دوسری شادی کرے یا مرد دوسری شادی کرلے،دونوں صورت میں ہمارا معاشرہ اس کو معیوب سمجھتا ہے۔
 

Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522556 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More