کیا آپ جانتے ہیں کہ کوئین آف کراچی کسے کہتے ہیں، نہیں
نہ! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کراچی کی کوئی شہزادی ہوگی۔ لیکن نہیں یہ تو
شہرِقائد کی قدیم بس ہے جِسے W11 کہا جاتا ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر فرّاٹے
بھرتی کراچی کی یہ ملکہ، اپنے اردگرد موجود تمام گاڑیوں کو مات دیتی چلی
جاتی ہے۔ گلشنِ معمار سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والی یہ ملکہ کراچی کے
مختلف علاقوں جن میں نیوکراچی، سہراب گوٹھ، لیاقت آباد اور بندرروڈ سے
گزرکر کیماڑی پر اپنے سفر کا اختتام کرتی ہے۔ سجی سنوری، چمکتی دمکتی اس بس
کا آغاز 1979 سے ہوا۔W11 کی وجہ شہرت یہ تھی کہ 90 کی دِہائی میں موجود اس
کی چند بسوں کی چابی سونے سے بنی ہوئی تھی ساتھ ہی اس بس پر کُندہ کی گئی
رنگ برنگی چمک پٹیاں اور اندرونی سجاوٹ کے لئے لگائی گئی چیزیں اس بس کی
شان میں چارچاند لگادیتی ہیں۔ آج جب کہ ہمارے اردگرد جدید میوزِک سے لیس
گانے سُنائی دیتے ہیں مگر آج بھی W11 میں 90 کی دِہائی کے پُرانے گانے
سُربکھیرتے ہیں اسی وجہ سے لوگ W11 میں سفر بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کراچی کی اس W11 کی شہرت نہ صرف پورے مُلک بلکہ پوری دُنیا تک پھیل چکی ہے
اس سے متاثر ہو کرلندن کی ٹرام کو بھی W11 کی طرح سجایا گیا ہے اور ساتھ ہی
اِس ٹرام میں 90 کی دِہائی کے انڈین گانے بھی بجائے جاتے ہیں۔ ماضی میں W11
کی اس بس سروس میں تقریباً 350 کے قریب گاڑیاں موجود تھی مگر حالات کی
کشیدگی کے باعث اِن کی اکثر گاڑیوں کونذرِآتش کر دیا گیا، اس ماڈل کی بسوں
کی برآمدگی پر پابندی آئد کردی گئی، اکثر گاڑیوں کواسکریب کر دیا گیا۔ اب
اِن گاڑیوں کی تعداد 350 سے گھٹ کر صرف 90 کے قریب رہ گئی ہے۔ یکے بعد
دیگرے اپنے روٹ پرنظرآنے والی کراچی کی یہ پہچان آہستہ آہستہ ذبوں حالی کی
جانِب بڑھ رہی ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ شہرِقائد کی اس پہچان کو قائم رکھنے
میں اہم کِردار ادا کر ے۔ |