فرعون کے نقش قدم پر!!!

کچھ چیزیں عالمی سچائی (Universal Truth) ہوتی ہیں۔ جنہیں ماننا اور ان پر عمل کرنا عالمی طور پر اخلاق کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ مثلا پوری دنیا کے کسی بھی معاشرہ میں جھوٹ، زنا، چوری اور ظلم کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اسی طرح بچوں سے محبت اور ان کی نگہداشت بھی عالمی اخلاقی قانون کا حصہ ہے۔ بچے خواہ انسانوں کے ہوں یا جانوروں کے، انھیں شفقت و مہربانی اور الفت و انسیت کا حق دار سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ایک معاشرہ ایسا ہے، جس میں بچوں کو مارنا پیٹنا، قید کرنا، قتل کرنا، حتی کہ زندہ جلا دینا بھی روا رکھا جاتا ہے۔ جانوروں میں مگر مچھ اور انسانوں میں صیہونیت نواز… ایسے جان دار ہیں کہ اگر ان کی راہ میں خود ان کے اپنے بچے سدِّ راہ بنیں، راستہ سے ہٹانا ضروری سمجھتے ہیں۔

شکیم بن حمور، شلوموالیاہ، مردخائی الیاہو اور تیز حاق شابیرا وہ متشدد صیہونی و یہودی رِبّی ہیں جنہوں نے فتوی دیا ہے کہ فلسطینی معصوم بچوں کا قتل نہ صرف جائز بل کہ واجب ہے۔ ’’تیز حاق شابیرا‘‘ نے اپنی کتاب ’’تورات الملک‘‘ میں کہا ہے ’’اگر اسرائیل کی سلامتی اور بقا کے لیے کوئی شیر خوار بچہ بھی خطرہ ثابت ہو، اس کا قتل کرنا نہ صرف کارِ ثواب، بل کہ واجب ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی صیہونی ربی نے معصوم فلسطینی بچوں کی شہادت پر ایک لفظ بھی افسوس کا نہیں کہا۔ اُلٹا اپنی محفلوں میں خوشیاں مناتے اور رقص کرتے دیکھے گئے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک بچے علی عبداللہ کو زندہ جلا دیا گیا۔ اس بچے کی شہادت پر ایک محفل سجائی گئی اور پھر اس میں رقص و سرود کے ساتھ ساتھ اس بچے کی تصویر کی بے حرمتی بھی کی گئی۔

اسرائیلی معاشرہ سفاکیت کی اعلی مثال ہے۔ جو فلسطینی بچوں سے ان کے سارے حقوق چھین لینا چاہتا ہے۔ معیشت، تعلیم، آزادی اور ہنر، تمام حقوق سلب کر لینا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے مختلف ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں۔ مثلانئے عصری و دینی مدارس تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اور جو پرانے سکول ہیں ان میں صیہونی نصاب لاگو کیا جاتا ہے۔ چناں چہ صرف مغربی بیت المقدس میں دس ہزار بچے زیور تعلیم سے محروم ہیں۔ تعلیمی حالت مزید ابتر کرنے کے لیے کسی فلسطینی کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قید میں رکھ کر اُسے اِس شرط پر رِہا کیا جاتا ہے کہ تم اپنے بچوں کو گھر سے باہر نہیں نکالو گے، تعلیم نہیں دلاؤ گے اور کوئی ہنر بھی نہیں سکھاؤ گے۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تمہیں دوبارہ قید کر لیا جائے گا۔

2015ء کی سرکاری محکمہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق 10سے 17سال تک کی عمر کے 4.1%بچے غربت کے باعث کام کرنے پر مجبور ہیں۔’’چائلڈ ہیلتھ لیبر‘‘ کے مطابق 2011ء میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد 6500تھی، جب کہ اب یہ تعداد ایک لاکھ دو ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ایک اور رپورٹ کے مطابق فلسطینی آبادی 33%بچوں پر مشتمل ہے۔ جن میں 80%عرب بچے غربت کا شکار ہیں۔اور یہ تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔

قیدی بچوں کی حالت تو ان سے بھی دگرگوں ہے۔ فلسطینی قیدیوں کی کمیٹی اور سرکاری محکمہ امور اسیران کے مطابق سن 2000ء سے 20نومبر 2017ء تک تین ہزار بچے شہید کیے گئے، 13ہزار زخمی اور بارہ ہزار کے قریب بچے قید کیے گئے۔ جن میں 95%پر ظلم و تشدد کیا گیا۔ پھر ظلم کی ہر ایک قسم بچوں پر آزمائی گئی۔ مثلا بھوکا پیاسا رکھنا، زد وکوب کرنا، تحقیر نا، گالیاں دینا، تھپڑ مارنا، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنانا، گھسیٹنا، قید تنہائی، سر قدموں تلے روندنا، زخمیوں کا علاج نہ کرنا، فوجی عدالتوں میں جھوٹے مقدمات قائم کرنا، پنجروں میں بند کرنا، والدین سے ملاقات کی اجازت نہ دینا، ربڑ کی گولیاں مارنا اور آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر گھنٹوں ننگے فرش پر بٹھانا وغیرہ۔ ایک اسرائیلی اخبار ’’ہارٹز‘‘ کی کالم نگار ’’عمیرہ ہس‘‘ کے مطابق 70%بچوں پر جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد کیا گیا۔ مرکز اطلاعات فلسطین کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق 51%کو لاتیں، گھونسے اور تھپڑ مارے گئے۔ 19%کو گھسیٹا گیا۔ 14% کو لاٹھیاں ماری گئیں۔ 49% کو گالیاں دی گئیں۔ 56%کو ننگے اور ٹھنڈے فرش پر بٹھایا گیا۔ 93%کے ہاتھ باندھے گئے۔ 79% کی آنکھوں پر پٹیاں باندھی گئیںاورنامعلوم عبرانی مسودوں پر زبردستی دستخط کرائے گئے ۔ بچوں کی اس نازک اور مظلومانہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے بچوں کے حقوق کے عالمی ادارے یونی سیف نے صیہونی اسرائیلی حکومت کو خبردار کیا کہ ان بچوں کو ان کے حقوق دیے جائیں۔ لیکن یہودی حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ اب بھی صرف 21%بچے وکیل رکھنے کا حق حاصل کر سکے ہیں۔ باقی 79%اس حق سے تا حال محروم ہیں۔

ایک اطلاع کے مطابق بعض بچوں کو سائنسی تجربات کی بھینٹ بھی چڑھایا گیا۔ 1950ء میں گم ہوئے ایک ہزار بچوں کا آج تک علم نہ ہو سکا کہ وہ کہاں گئے؟ انھیں زمین کھا گئی یا آسمان؟ 1995-96ء میں اس معاملے کی تحقیق کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی، لیکن اس کی مرتب کردہ رپورٹ کا سُراغ بھی آج تک نہ ملا۔ افسوس کہ جو سلوک آج سے تین ہزار سال قبل فرعون نے اسرائیلیوں سے کیا تھا، آج وہی سلوک اسرائیلی مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک تاریخی سچائی ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ جیسے فرعون اپنے انجام کو پہنچا اور اُس کا ظلم و ستم اس کے ساتھ ہی دفن ہو گیا۔ بعینہ اسی طرح قوم یہود بھی فنا ہو جائے گی اور ان کا ظلم و ستم اپنے انجام کو پہنچے گا۔ ان شاء اللہ العزیز، اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

Abdus Saboor Shakir
About the Author: Abdus Saboor Shakir Read More Articles by Abdus Saboor Shakir: 53 Articles with 89767 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.