ممتاز ماہر تعلیم ،شیخ طریقت پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمدنوراﷲ مرقدہ

بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم
نحمدہٗ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم

(۱۳۴۸؁ھ/۱۹۳۰؁ء دہلی…… ۲۲؍ربیع الثانی ۱۴۲۹؁ھ/ ۲۸؍ اپریل ۲۰۰۸ ؁ء کراچی)
خ خ
ہے یہ کس کی خوابگہِ حسیں‘ میں بتاؤں کس کا مزار ہے
کہ نَفَس نَفَس کو جو ہے سکوں‘ تو نظر نظر کو قرار ہے
بیہقی وقت ،شیخ طریقت،ممتاز ماہر تعلیم پر وفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نوراﷲ مرقدہٗ کی سراپا سنت و پیکرشریعت ہستی اقلیم علم و معرفت میں کسی سے پوشیدہ نہیں ……ان کے تصنیفی شہ پارے آج بھی شائقین علم اور متلاشیان حق کے قلوب پرابرِ باری بن کر برس رہے ہیں
عالمی سطح پر ابلاغِ علم واشاعت ِدین کے لیے اُن کی تجدیدی خدمات اور بلند پایہ تصانیف عالم اسلام کا بیش قیمت سرمایہ اور دنیائے اہل سنت کا سنگھا رہیں …… آپ نے ساری زندگی اعلیٰ حضر ت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الر حمۃ اور مجددالف ثانی حضرت شیخ احمد سر ہندی علیہ الرحمۃ کی تعلیمات کے ابلاغ میں گزاری اور اسی مشن کی تکمیل میں جانِ عزیز، جانِ آفریں کے سپر دکر دی …… وہ خود بھی ایک عظیم شخصیت تھے اور ایک عظیم علمی وروحانی خاندان کے روشن چشم وچراغ تھے …… علوم قد یمہ وجدیدہ کے جامع، اپنی تحقیقی و تخلیقی تصانیف کے سبب دنیا ئے علم ودانش اور اپنے ہم عصروں میں نہایت محترم اور قدآور شخصیت کے مالک تھے ۔
۱۹۳۰ ء ؁کو دہلی میں ولادت ہوئی …… جدِاعلیٰ، فقیہ الہند شاہ محمد مسعود محدث دہلوی نقشبندی مجددی (م۔۱۸۹۲؁ء)اُنیسویں صدی کے ان علماء و صوفیہ میں تھے جنہوں نے بلا کسی تفریق چالیس سال تک اپنے علم وفضل سے دہلی کی سر زمین کو منور رکھا…… والد ِماجد مفتی محمد مظہر اﷲ شاہ دہلوی نقشبندی مجددی قادری چشتی سہروردی (م۔۱۹۶۶؁ء) علوم اسلامیہ اور دیگر علوم وفنون میں خصو صی مہارت رکھتے تھے ۔ آپ کی متعد د علمی یاد گادر میں حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی کے فارسی تر جمۂ قرآن کا اردو میں ’’مظہر القرآن ‘‘ (مطبوعہ: ضیا ء القرآن پبلی کیشنز،لاہور)کے نام سے ترجمہ اورمجموعۂ فتاوٰی ’’فتاوٰی مظہری‘‘ نمایاں ہیں…… خانوادۂ اعلیٰ حضر ت سے اُن کے خاص مراسم تھے ، امام احمد رضا کے تبحر ِعلمی اور اُن کے نعتیہ کلام کے بڑے مداح تھے،جبھی تواُن کی تصانیف میں جا بجا کلامِ رَضاؔ کے جلوے بکھرے نظر آتے ہیں……فاضل ِبریلوی کے مقرب خلفائے کرام ہر سال آپ کی فتح پوری مسجد دہلی میں ہونے والے جلسہ جشن عید میلاد النبی ﷺ میں پابندی سے شریک ہوا کرتے تھے،جس کی تفصیلات فقیر کے مرتبہ رسالہ’’مساعی ٔجمیلہ‘‘میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں…… ۱۹۴۷؁ء کے فسادات کے زمانے میں جب دہلی ویران ہورہا تھا ، انہوں نے اپنے صبرو استقامت سے اسے آبا درکھا۔ مسجد فتحپوری (دہلی ) میں تا حیات خطابت وامامت فرتے رہے ،اُن کے فتاوٰی اور مکاتیب(مکاتیب ِ مظہری) زندگی کے لیے راہنمااصول فراہم کرتے ہیں ۔
حضر ت مسعودِملت نے قرآن کریم اور عربی وفارسی کتب ایسے والدِ ماجد سے پڑھیں اور سلسلہ نقشبند یہ مجدد یہ میں انہی سے بیعت و خلافت کا شرف بھی حاصل کیا …… ۱۹۴۱ ؁ء …… ۴۵ ۱۹؁ء مدرسہ عالیہ مسجد فتحپوری دہلی میں چند سال درس نظامی میں شریک رہے ۔ ۱۹۴۷ ؁ء میں اور ینٹل کا لج ، دہلی سے فارسی میں آنرز ، ۱۹۴۸؁ء میں مشرقی پنجاب یو نی ورسٹی (سوطن ) سے فاضل اردو کا امتحان پاس کیا…… ہجرتِ پاکستان کے بعد ۱۹۵۶؁ء میں پنجاب یونیورسٹی(لاہور) سے بی ۔ اے ، ۱۹۵۸؁ء میں سند ھ یونی ورسٹی جامشورو(حیدرآباد، سندھ) سے ایم ۔ اے(گولڈ میڈلسٹ) کیا اور ۱۹۷۱؁ء میں ’’ قرآنِ پاک کے اردو ترا جم وتفا سیر ‘‘ کے عنوان سے ایک ضخیم مقالہ لکھ کر اِسی یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی اعلیٰ سند حاصل کی ۔
۱۹۵۸؁ء میں گورنمنٹ کا لج، میر پور خاص(سندھ) سے بحیثیت لیکچر ارملا زمت کاآغاز کیا اور اپنی صلاحیتوں کے سبب پر نسپل کے عہد ے پر فائز ہوئے ، پھر سندھ اور بلوچستان کے مختلف کا لجوں میں پر نسپل رہے …… نظامت ِتعلیم ،کراچی کی اردو نصاب کمیٹی ریویو ، سند ھ یونی ورسٹی حیددآباد کے بورڈ آف اسٹڈ یز کے ر کن ، سندھ یونیورسٹی اور پنجاب یونی ورسٹی ،لاہور ، بورڈ آف سیکنڈری ایجو کیشن، حید آباد، کوئٹہ اور مغربی پاکستان کی طرف سے بی ۔ اے ، ایم ۔ا ے اور درجۂ اول افسران کے ممتحن مقر ر ہوئے …… شاہ عبداللطیف یونی و رسٹی، خیر پور میرس (سندھ ) اور کراچی یونی ورسٹی،کراچی کے ڈائر یکٹر ر یسرچ بھی رہے ……عالمی سطح پردینی وعلمی خدمات پر پانچ گو لڈ میڈل ، ایک سلور میڈل اور دیگر تمغات کے علاوہ صدرِ پاکستان کی طرف سے ’’سند ِا عز ازِ فضلیت ۱۹۹۲؁ء ‘‘بھی دی گئی…… مگراُن کی طبیعت پر فقر وغنا غالب تھا، ہمیشہ ان چیزوں سے بے نیاز ر ہے ،جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب کسی نے آپ کا گولڈ میڈل چرالیا تواطمینانِ قلب اور بے فکری سے فرمایا:……’’ کوئی ضرورت مند تھا ‘سولے گیا‘‘
۱۹۹۲؁ءمیں ایڈ یشنل سیکرٹری، وزارت تعلیم،حکومت ِسندھ کے منصب پرفائز ہوئے ……اور اسی سال ملازمت سے سبکدوش ہو کر خود کو کلی طور پر خد مت ِدین کے لیے وقف کر دیا ۔
۱۹۹۴؁ء میں عرب کے مشہور عالم‘ شیخ طریقت علامہ شیخ سید محمد علوی مالکی مکی سے مدینہ طیبہ میں خرقۂ خلافت کا اعزاز پایا ……آپ کو اس کے علاوہ متعدد مشایخ سے سلاسل طریقت قادریہ رضویہ ، چشتیہ ، نقشبندیہ مجددیہ و غیرہا میں اجازات تھیں مگر تا حیات سلسلۂ نقشبندیہ مجدد یہ کے ذریعے عشق ِرسول (ﷺ)کے جام پلا پلا کر عالم اسلام کوخوب سیرا ب کرتے رہے…… آپ کے ارادت مندوں کا حلقہ پاکستان کے متعدد شہروں کے علاوہ بھارت‘ مسقط، افغانستان،سعودی عرب، عمان ، دبئی ،ابو ظہبی ، مصر ، امریکہ،برطانیہ اورکنیڈا و غیرہ تک پھیلاہوا ہے…… پچاس سے زائد خلفاء کرام میں اکثر علماء ومشایخ اور نامورصاحبانِ علم وقلم ہیں، مثلاً شیخ الحدیث علامہ عبدالحکیم شرف قادری،شیخ محمد عارف ضیا ئی قادری مدنی،علامہ ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد،پیر فضل الرحمن آغا مجددی،علامہ قاری محمد رفیق مسعودی،علامہ بدرالقادری،علامہ ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی،علامہ محمد رضوان خان نقشبندی،علامہ ڈاکٹرحافظ عبدالباری صدیقی،مولانا جاوید اقبال مظہری ، راقم الحروف ڈاکٹر اقبال احمد اخترالقادری وغیرہم۔
آپ کا تصنیفی کا م عالم اسلام کے لیے عظیم سرمایہ ہے…… آپ کے علمی و تحقیقی مقالات کی تعدداد سات سوسے متجا وز ہے جو کہ ملک و بیرون ملک کے علمی و ادبی جرائد کے علاوہ پاکستان،بھارت، ایرا ن اور اردن کے انسائیکلو پیڈ یا کی زینت بنے…… اسلام کے بنیادی عقائداور اہم معاشر تی مسائل کے حوالے سے ایک بین الا قومی کتابی سلسلہ شروع کر کے تجدیدوا حیاء دین کی سعادت حاصل کی……یہ سلسلہ اس قدر مقبول ہواکہ دنیا بھر میں لوگوں نے از خود ہزاروں کی تعداد میں ان کتب و رسائل کو شائع کرکے اپنے اپنے علاقوں میں تقسیم کیا‘اسی دوران(۱۹۹۱؁ء )میں حج بیت اﷲ اور سعادتِ زیارت ِاقدس حاصل ہوئی پھربعد میں پانچ بارطلب کر کے دربارِاقدس سے نوازے جاتے رہے ۔
اعلیٰ حضرت محدث بر یلوی کے علمی و تجدیدی کار نا موں کو جدیدا نداز میں پیش کرکے علمی دنیا سے ’’ ماہر رضو یات ‘‘ کا خطاب پایا…… اردو نثر کو مذہبی نکتہ سنجیوں سے ہم کنا ر کرکے قلم کا روں کو نئے اندازِ نگارش سے روشناس کرایا …… مجد دالف ثانی حضرت شیخ احمدسرہندی پر جدید انداز میں علمی و تحقیقی کتب کی تصنیف و ترتیب کا سہرا بھی آپ کے سر رہا ، جن میں پندرہ جلدی عظیم انسائیکلوپیڈ یا ’’جہان امام ربانی مجددالف ثانی ‘‘ دنیا ئے علم و معرفت کے آسمان پرنہایت آب و تاب سے چمک رہا ہے ……
تصانیف کے انگریز ی ، عربی ، ہندی ، سندھی ،بنگلہ، فارسی اور کئی زبانوں میں تراجم شائع ہوچکے ہیں……عہدِ حاضرہ میں پچاس کتب کے مصنف کو عالمی سطح پر بڑا مصنف تسلیم کیا جاتا ہے جب کہ آپ کی ۱۵۰ ؍سے زائد تصنیفات وتا لیفات مقبول ِعام ہیں جو کہ www.almazhar.com نامی ویب سائٹ پر بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ۔ آپ کی دینی و تبلیغی اور تصنیفی و تجدیدی خد مات نیزشریعت و سنت کے سانچے میں ڈھلے آپ کے ذاتی اوصاف کی بناء پر شرف ِملت سیدی مرشدی اُستاذی شیخ الحد یث علامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری جیسی متعدد سرا پا علم اور صاحب ِبصیرت شخصیات نے’’ مجددِ عصر‘‘ کہا……عالمی شہرت یافتہ ممتاز نعت گو شاعر خالد محمود خالدؔ نے اپنے ایک شعر میں اس کا یوں اظہار کیا ہے کہ: ؂
مجدد کا گماں کرتے ہیں تم پر
تمہارے قدر داں مسعودِ ملت
آپ کی نگرانی میں کئی اسکا لر ز نے پی ایچ ڈی اور ایم۔ فل کیا …… آپ دنیا کی اُن چند ممتاز شخصیات میں تھے جن پراُن کی زندگی ہی میں نہ صرف مقالات و کتا بیں لکھی گئیں بلکہ پی ایچ ڈی کے تھیسس لکھ کر اسناد حاصل کی گئیں…… چنانچہ آپ کی حیات، علمی اور ادبی خدمات پر بہار یونی ورسٹی (بھارت )سے علامہ ڈاکٹرمحمد اعجاز انجم لطیفی(اُستاذ‘جامعہ رضویہ منظر اسلام‘ بریلی شریف و مدیر معاون ’’ماہنامہ اعلیٰ حضرت ‘‘بریلی شریف) نے ۱۹۹۷؁ء میں مقالہء ڈاکٹر یٹ تحریر کر کے پی ایچ ڈی کی اعلیٰ سند حاصل کی۔یہ مقالہ کراچی سے کتابی صورت میں شائع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی حیات اور دینی و علمی خد مات پر متعدد کتابیں پاک وہند،بنگلہ دیش، اورمصر وغیرہ سے لکھی گئیں۔
آپ بین الا قوامی علمی وا شاعتی اداروں ،ادارۂ مسعودیہ کراچی ، ادارۂ مظہر اسلا م لاہور ، ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا انٹر نیشنل کراچی ، شرکت اسلا میہ میر پور خاص،سندھ اور امام ربانی فاؤنڈ یشن انٹرنیشنل کراچی کے بانی/ سر پر ست جبکہ علامہ ارشدالقادری کے قائم کردہ عا لمی ادارہ ‘‘ الر ابطہ انٹر نیشنل پاکستان‘‘ کے صدر تھے ، ان اداروں کے علاوہ ماہنامہ ’’معارف ِرضا ‘‘ کراچی،’’ سالانہ مجلہ یاد گا رِ مجدد‘‘ کراچی اور’’ماہنامہ مجلہ المظہر‘‘ کراچی کا تعمیری وا شاعتی اور تبلیغی سفر آپ ہی کی رہنمائی میں رواں دواں رہا ۔
آہ!…… ۲۲؍ربیع الثانی ۱۴۲۹؁ھ/ ۲۸؍ اپریل ۲۰۰۸ ؁ء کی شب وہ گل ِحیا ت سے خوشبو کی طرح چلے گئے۔انا ﷲ و انا الیہ رٰجعون…… اگلے روز بعد نمازفجروصیت کے مطابق احقر راقم الحروف نے سنت ِغسل ادا کی ۔ بعد نمازِ ظہر شاہراہ قائدین (کراچی)سے متصل و سیع گراؤنڈ میں وصیت کے مطابق ان کے فر زندوجا نشین صاحبزادہ ابو السر ور محمد احمد کی اما مت میں ہزاروں ں علماء و مشایخ ، پر و فیسرزوڈاکٹرز‘ اسکا لرز ،د انشورانِ قوم اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے احباب نے نماز جنازہ ادا کی،اُن کے پسندیدہ شاعر امام احمد رضا فاضل بریلوی کے رحمت آفریں کلام کی بر سات سے شرابو ر قا فلۂ جنازہ پرا نا قبر ستان (ماڈل کا لونی‘کراچی) کے احاطہ خاندانِ مجدد یہ پہنچا ، جہاں عاشق صادق کو محبوب ِحقیقی سے ملاقات کے لیے حجرۂ خلدکی آغو ش میں دے دیا گیا ؂
دل تو جاتا ہے اُن کے کوچے میں
جا مری جاں‘ جا خدا حافظ!
آپ کا چلے جانا‘عالم اسلام اور خاص کر دنیائے اہل سنت کے لیے ایک عظیم سانحہ ہوا، جس پرتا حال ہر دل پُر غم اور ہر آنکھ پُر نم ہے …… وہ عالم باعمل تھے …… علم دین کی بہار ‘ عمل سے ہے ‘ اور عمل کی بہار اخلاص سے ہے ۔ وہ سر اپا اخلا ص تھے …… صاحب ِعز یمت تھے…… بے مثال شیخ طریقت تھے …… بے نظیر محقق تھے…… با اثر مصنف تھے……بہترین متر جم تھے…… اور مقرر نہ ہوکر بھی اثر انگیز خطیب تھے……’’جانِ ایمان‘‘،’جانِ جاناں‘،’دین ِفطرت ‘اور ’جانِ جاں‘جیسی کتب کے ذریعے نئے نئے رُخ سے محبت رسول ﷺ کے جلوے دکھانے پر محبت والے’’عاشق صادق‘‘ اور’ ’بیہقی وقت‘‘ کے علاوہ کچھ اور خطاب دینے کو تیار نہ ہوئے ……’’جہان ِامام ربانی مجدد الف ثانی‘‘کا منصوبہ بتاتا ہے کہ آپ’’ رمز شناس ِمجدد الف ثانی‘‘ تھے……انصاف و تحقیق کی ہواؤں سے تعصب کی گرد و غبارصاف کر کے رُخِ رَضا کی جلوہ زیبائی پراہل سنت ہی نہیں سارا زمانہ آپ کو’ ’ ماہرِ رضویات‘‘ کہتا ہے ۔

Dr Iqbal Ahmed Akhtar Ul Qadri
About the Author: Dr Iqbal Ahmed Akhtar Ul Qadri Read More Articles by Dr Iqbal Ahmed Akhtar Ul Qadri: 30 Articles with 46625 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.