سال نو کا آغاز اور میانہ روی

اسلام میانہ روی کا دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو انتہا پسندی کی بجائے درمیانی رستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ تکبر اور چاپلوسی کی مذمت کر کے خودداری کی طرف راغب کرتا ہے۔ فضول خرچی اور کنجوسی کی بجائے کفایت شعاری اختیار کرنے کا درس دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ "بہترین کام وہ ہے جو درمیانہ ہو"۔اسلام کی یہی خوبی بیشمار غیر مسلموں کیلئے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا سبب بن گئی۔ لیکن زندگی کے مختلف معاملات میں مسلمانوں کے کئی طبقات میانہ روی اختیار کرنے کی بجائے انتہا پسندی اختیار کرتے ہیں جو کہ ناروا ہے۔ سال نو کو ہی دیکھ لیں۔ اس کی آمد کے ساتھ ہی بحیثیت مسلمان upper & Lower دونوں انتہائیں عروج پر نظر آتی ہیں۔ کچھ تو نیو ایئر نائٹ مناتے مناتے عیاشی اور بے حیائی کی آخری حدوں کو چھو لیتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ یو کے میں ہمارے مسلمان بچے مساجد اور کمیونٹی سنٹرز میں نیو ائر نائٹ کو اصلاحی پروگرام رکھ لیتے ہیں تاکہ فضولیات سے بچا جا سکے۔ وہاں مسلمان کمیونٹی میں اس رات کو وہ کچھ نہیں ہوتا جو پاکستان کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ نیو ائر نائٹ میں غل غپاڑے، ون ویلنگ, عیاشی و فحاشی اور شراب و کباب کی صورت میں طوفان بد تمیزی برپا کیا جاتا ہے۔ نئے سال کی آمد پر یہ ایک انتہا ہے جو قابل۔مذمت ہے۔ دوسری طرف کچھ لوگ وہ ہیں کہ نئے سال کے آغاز پر خیر و برکت کی دعا کرنے والوں پر بھی فتوی بازی کر کے انہیں بزعم خویش گمراہی کے دروازے کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ یہ ہمارا سال نہیں بلکہ غیر مسلموں کا ہے۔ حالانکہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک سوائے سعودی عرب کے اسی عیسوی کیلنڈر کے مطابق اپنا کارو بار حیات چلاتے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق 2018 میں سعودیہ میں بھی عیسوی تقویم لاگو ہو جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کا کیلنڈر ہجری ہے جس کا با ضابطہ آغاز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا۔ ہماری عبادات مثلا حج، روزے، زکوة، اور عورتوں کی عدت وغیرہ کیلئے بھی یہی اسلامی کیلنڈر استعمال ہوتا. جب تک مسلمانوں کا عروج کا دور رہا یہی تقویم رائج رہی۔ اس حقیقت کا ہمیں اعتراف کر نا چاہئے کہ کچھ صدیوں سے ہم زوال پذیر ہیں۔ جہاں زندگی کے دیگر شعبوں میں ہم دیگر اقوام کے دست نگر ہیں وہاں عیسوی تقویم بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے۔ دنیا کے نقشے پر ستاون مسلمان ریاستیں موجود ہیں لیکن کسی ایک کو بھی اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں ویٹو پاور حاصل نہیں۔ صرف پانچ ممالک اس حق کو استعمال کر سکتے ہیں۔ ان میں سے امریکہ، برطانیہ،جرمنی اورفرانس عیسائی ممالک جبکہ چین کمیونسٹ ملک ہے۔ ان ساری باتوں سے قطع نظر سال نوبنیادی طور پر شمسی تقویم ہے جو سورج کی گردش سے منسلک ہے اگر اس تقویم کی نسبت عیسی علیہ السلام کی طرف ہے تو پھر بھی کوئی حرج نہیں کیوں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے فضائل و کمالات خود قرآن کریم نے بیان فرمائے ہی۔ اور اگر ہجری تقویم کو قمری اور عیسوی تقویم کو شمسی کہا جائے تو پھر بھی اسلام کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں چاند اور سورج دونوں ہی ہمارے اپنے ہیں اور ہمارا ان سے کوئی جھگڑا ہے اور نہ خدا واسطے کا بیر۔ قرآن پاک نے دونوں کی تقویم کا ذکر صراحتا کیا ہے۔مزید برآں پورا سال ہم شادی بیاہ، موت مرگ، بزرگوں کے اعراس، ذکر و اذکار اور میلاد و سیرت کی محافل کے اعلانات و اشتہارات عیسوی تقویم کے مطابق کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی قبروں پر سجے کتبوں پر بھی تاریخ وفات عیسوی تقویم کے مطابق ہوتی ہے۔ ساری مساجد میں نمازوں کے نظام الاوقات عیسوی تاریخوں کے مطابق لکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔ آج تک کسی مستند مفتی شرع و دیں کا کوئی فتوی نظر سے نہیں گزرا کہ یہ سب نا جائز ہے۔ لیکن جوں ہی نیا سال شروع ہونے پر کسی نے خیر و برکت کی دعا یا مبارکباد دے دی۔ تو اس وقت ہمیں یاد آتا ہے کہ یہ سال ہمارا نہیں کسی اور کا ہے۔ فتوے شروع ہوجاتے ہیں کہ یہ سب کچھ خلاف اسلام اور بدعت ہے حالانکہ سارا سال ایک ایک دن ہم اسی تقویم کو استعمال کرتے ہیں۔ نئے سال کے آغاز پر بحیثیت مسلمان ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہئیے۔ پچھلے سال کی کوتاہیوں سے سبق حاصل کرکے آئیندہ اصلاح احوال کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ عیاشیوں فحاشیوں سے ہر حال میں بچیں البتہ کوئی اس موقع پر دعائے خیر و برکت دے دے تو اس کو قبول کرلو۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219515 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More