کیا جو شخص ملازمت کے دوران اپنا کام درست طور پرنہیں
کرتا اور عوام سے رشوت لیتا ہے یا دفتر جانے کی بجائے گھر میں سویا رہتا ہے
اور اگلے دن دفتر جاکر حاضری لگا دیتا ہے۔ کیا اُسے معاشرئے کا ناسور نہیں
کہا جائے گا؟کیا جو شخص اشیاء خوردونوش میں ملاوٹ کرتا ہے کیا وہ معاشرئے
کا ناسور ہے یا نہیں۔؟کیا جو ڈاکڑ مریضوں کو اپنے میڈیکل سٹور سے اپنی ہی
تیار کردہ ادویات اصل لاگت سے کئی گُنا تک منافع کے ساتھ فروخت کرتا ہے کیا
وہ معاشرئے کا ناسور نہیں ۔ کیا ایسا ڈاکٹر جو ادویات کی کمپنیوں سے بطور
رشوت گاڑیاں لیتا ہے بیرون ملک کی سیریں کرتا ہے کیا وہ معاشرئے کا ناسور
نہیں؟۔کیا جو وکیل فیس لے کر بھی اپنے کلائنٹ کے ا مخالفین کے ساتھ مل جاتا
ہے اور حرام کھاتا ہے کیا وہ معاشرئے کا ناسور نہیں ہے؟کیا ناجائز منافع
خور معاشرئے کے ناسور نہیں ہیں؟کیا جو اُستاد ٹیوشن کے لالچ میں اپنے
شاگردوں کو سرکاری ڈیوٹی میں درست کام نہیں کروتا کیا وہ معاشرئے کا ناسور
نہیں ہے کیا یہ نام نہاد ڈبہ پیر، کالے پیلے جادو گرعوام کو مذہب اور
روحانیت کے نام پر لوٹنے والے معاشرئے کے ناسور نہیں ہیں۔کیا وہ حکمران جن
کی جائیدادیں بے شمار اور عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں ایسے حکمران
معاشرئے کے ناسور نہیں ہیں۔؟کسی کی عظمت بڑی گاڑی میں ۔ کسی کی عظمت لمبے
چوڑئے دستر خوان میں۔ کوئی حاکم وقت کے تلوئے چاٹ کر پھولے نہیں سما رہا
ہوتا جیسے کہ اُسے کوئی گوہر نایاب مل گیا ہو۔کسی کی شان بنک بیلنس میں
پنہاں۔ کوئی جھوٹی آن شان کے لیے بے غیرتی کی حد تک چلا جاتا ہے اور اپنے
عزت کو نیلام ہوتے ہوئے بھی اُسے کچھ نہیں ہوتا بلکہ وہ بڑئے مرتبے کے حامل
افراد کی پذیرائی میں فخر محسوس کرتا ہے۔کتنی زندگی ہے انسان کے پاس اوسطاً
پچاس سال ایک سال میں تین سو پینسٹھ دن۔ کُل 18250اِس میں سے عام طور سکول
کالج یونیورسٹی میں بائیس سال گذر جاتے ہیں۔اِس طرح پچاس سالوں میں سے اگر
بائیس سال نکال دئیے جائیں تو پھر18250 میں سے8030 دن مائنس کرنا پڑیں
گے۔باقی10220 دن بنتے ہیں۔اِس میں سے بیماری، سفر کاروباری ملازمت کی
مصروفیات کو دیکھ لیں۔اتنی ٹھوڑی زندگی کے لیے۔ جھوٹ، عزت کی نیلامی،ایمان
کا فروخت کرنا۔کیا یہ سب کچھ انسانیت ہے؟ مقدس ترین مہینے رمضان المبارک
میں حکومتی گڈ گورنس صرف میڈیا تک ہی محدود رہی۔ جو پھل پچاس روپے کا تھا
اُسی کوالٹی کا پھل ایک سو بیس روپے تک پہنچا ہوا تھا۔جس سبزی کی قیمت تیس
روپے تھی وہ سو روپے تک جا پہنچی تھی۔ لاہور میں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ
حکومت نام کی کوئی شے نہیں۔ اخبارات ٹی وی چینلز میں حکومتی مشینری تصاویرں
بنو ا بنوا کر خوش ہورہی تھی اور خادم اعلیٰ تک نوکرشاہی کا یہ پیغام پہنچ
رہا تھا کہ سب کچھ بہت اچھا ہے ۔ افراط زر کنٹرول ہوچکا ہے۔ لوگ چین کی
بانسری بجا رہے ہیں۔ ہر گھر میں چولہا جل رہا ہے ۔ لیکن حقیقت حال اِس
بیوروکریسی نے خادم اعلیٰ تک پہنچنے ہی نہیں دی۔ لاہور میں تجاوزات کی بھر
مار قیمتوں کی حالت یہ کہ اُن کو کنٹرول کرنا تو درکنار دکانداروں کو کوئی
پوچھنے والا ہی نہیں ۔ مجسٹریٹ حضرات جرمانے کرنے کی خبریں اخبارارت میں
لگواتے ہیں اور جن دکانداروں کو جرمانے ہوتے ہیں پولیس اُن کا ساتھ مک مُکا
کر لیتی ہے اور اُن کو تھانے میں بند کرنے کی بجائے سیدھا مجسٹریٹ کی عدالت
میں پیش کرواکرضمانت کروادیتی ہے۔ گویا پولیس مستعد ی کے ساتھ منافع خوروں
کو پشت پناہی کر رہی ہے۔طلب اور رسد کی بات نہیں ۔ بات خالص نیت کی ہے۔
قیمتوں کا تعین طلب و رسد کی بناء پر ہی ہوتا ہے لیکن سرمایہ درانہ نظام کے
پجاری یہ سُن لیں کہ اشیائے خورد ونوش کے معاملے میں فری مارکیت اکانومی
میں بھی حکومت مداخلت کرتی ہے تاکہ اشیائے خوردنوش سب کی پہنچ میں رہیں۔
لیکن ہمارئے ملک میں بیوروکریسی نے عوام کو بھرکس نکال دیا ہے خادم عالیٰ
کو سب اچھا ہے کہ رپورٹ ۔ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ قیمتوں میں ہوشروبا
اضافہ۔ المیہ تو یہ ہے کہ رمضان جیسے مقدس مہینے میں اشیاء کی قیمتوں میں
کمی کرنے کی بجائے اسے بطور کمائی کا سیزن بنادیا گیا ہے۔ایک دن صوبے کی سب
سے بڑی عدالت میں اگر گزارا جائے تو کیا کچھ آشکار ہوتا ہے اور پتہ چل جاتا
ہے معاشرئے کے اصلی ناسور کہاں کہاں ہیں۔ میری اِس تحریر کا مقصد صرف اور
صرف عوام کی آگاہی ہے۔اِس ساری تحریر کا مقصد عدالتِ حضور کی کسی طور بھی
بھی کوئی عزت میں کمی نہیں ہے۔ میری تحریر کا مقصد صرف نظام کی خرابیوں کو
نمایا ں کرنا ہے۔ آئیے عدالت کا وقت ہو چکا ہے۔عدالت کی کاروائی کا آغاز
قران مجید کی تلاوت سے کیا گیا ہے ایک عدالتی اہلکار نے قران مجید کی تلاوت
کی۔ سب سے سے پہلے رٹ لگی ہوئی ہیں عدالتی اہلکار نے آواز لگائی تو رٹ میں
پیش ہونے والا سائل شکل و صورت سے انتہائی غریب دیکھائی دیتا ہے اِس کے
پاؤں میں جوتی ٹوٹی ہوئی ہے۔انتہائی میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس یہ شخص
برسوں کا بیمار دیکھائی دیتا ہے۔ سائل کے وکیل نے عرض کی کہ جناب اِس کی
بیوی کو فلاں شخص نے اغوا کر لیا ہے اور پولیس بھی اُس نے اپنے ساتھ ملائی
ہوئی ہے۔ جناب والا اِس شخص کی بیوی کو برآمد کروایا جائے۔جج صاحب نے آرڈر
کیا کہ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو کہ وہ اِس کی بیوی کو برآمد کرواکر
عدالت میں پیش کرئے اور ایک ہفتے کی تاریخ مقرر فرما دی۔سائل ایک ہفتے کے
انتظار میں سولی پر لٹکنے کے لیے تیار تھا۔اِسی طرح ایک اور کیس کے لیے
آواز دی تو سائلہ نے رٹ دائر کی تھی کہ جناب میرئے شوہر نے بچے چھین لیے
ہیں مجھے وہ بچے بازیاب کرواکر دئیے جائیں اِس رٹ میں بھی جج صاحب نے
متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو آرڈر کیا کہ بچے بازیاب کرکے عدالت میں پیش
کیے جائیں۔سائلہ جس نے یہ رٹ دائر کی تھی وہ کسی کے گھر کام کرتی تھی اور
غربت اُس کے چہرئے پر منحوس سائے کی طرح موجود تھی عدالت نے دو ہفتے کی
تاریخ مقرر فرمادی۔بعد ازاں ایک اور کیس میں جو سائل پیش ہوا وہ کوئی مزدور
تھا جس نے کہا کہ اُس کے مالک نے اُس کو اغوا کروادیا تھا اور چھ ماہ کی
تنخواہ بھی نہیں دی۔ عدالتِ حضور نے متعلقہ ایس ایچ او کو حکم دیا کہ وہ
تفتیش کرئے اور مقدمہ درج کرکے تفتیش سے آگاہ کرئے اِس کیس کی بھی تین ہفتے
کی تاریخ پڑ گئی اِس کیس میں سائل دیکھنے میں عام سا دیہاتی دیکھائی دیتا
تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اُس نے کئی روز سے کچھ کھایا پیا بھی نہیں
اور کپڑئے اُس کے ایسے تھے جیسے کسی مزار کی چادر سے بنائے گئے ہوں۔اِسی
طرح قتل کے کیس میں ضمانت کے لیے درخواست لگی تو ایک انتہائی بزرگ سفید
داڑھی کے ساتھ غربت و عُسر ت کی تصویر بنے عدالت میں موجود تھا۔ اِس کا
بیٹا جو کہ مزدوری کرتا تھا وہ کسی قتل کے کیس میں جیل میں تھا۔ عدالت نے
متعلقہ ایس ایچ او کو ریکارڈ سمیت طلب کرلیا اور تیں ہفتے بعد کی تاریخ
مقرر فرمادی۔متذکرہ بالا عدالتی کاروائی کا حال اِس بات کی غمازی کرتا ہے
کہ (1) مقدمہ بازی میں سب سے زیادہ لوگ جو پڑئے ہوئے ہیں وہ انتہائی غریب
ہیں (2) دوسری بہت بڑی وجہ جو دیکھنے میں آتی ہے وہ ہے تعلیمی پسماندگی) (3
دین پر ایمان صرف زبانی کلامی، عمل نام کی کوئی شے نہیں (4) نتیجاتاً
معاشرئے کا سماجی معاشی عمرانی نفسیاتی رویہ انتہائی ہوس زدہ۔مجھے کریمنل
کورٹ میں امیر تو دور کی بات وسط درجے کے سائل بھی نظر نہیں آئے۔ معاشرئے
میں تعلیم کی کمی بہت بڑا ظلم ہے اِس لیے ملک کے دانشور طبقے کو چاہیے کہ
وہ حکمرانوں کو باور کروائیں کہ تعلیم عام کرنے سے معاشرہ بہت بہتر ہوسکتا
ہے ورنہ آبادی کے پھیلاؤ سے غربت میں بہت تیزی سے مزید اضافہ ہوتا چلا
جارہا ہے اور امن امان کی صورتحال کا بہتر نہ ہونا۔ چوری ڈاکے لوٹ مار، اِن
سب کے پیچھے ایک محرک بہت اہم جو ہے وہ توتعلیم کا نہ ہونا ہے۔اور محرکات
بھی ہوسکتے ہیں اور ہیں لیکن تعلیم بہت ضروری ہے۔ملک کا بہت بڑا پرابلم یہ
ہے کہ ہمارئے ہماشرئے میں گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کے رحجان نے بنیادی
یونٹ گھر کو تباہ کردیا ہے۔ معاشرئے کے ناسوروں نے گھر جیسے امن و سکون کے
دولت کدئے کو جہنم بنادیا ہے۔حلال امور کی ادئیگی میں سے صرف ایک واحد کام
جو کہ طلاق ہے کو اﷲ پاک نے نا پسند فرمایا ہے۔ معاشرئے کا بنیادی یونٹ گھر
ہے۔ جب گھر کو بسانے والے دونوں فریق خاوند اور بیوی کے درمیان سماجی
کنٹریکٹ ہی نہ رہے تو پھر گھر کے سکون کی بربادی میں کوئی کسر نہیں رہ
جاتی۔ سوشل میڈیا نے جہاں عوام کو بہت سے امور میں آگاہی دی ہے وہاں اِس کے
منفی اثرات نے بھی معاشرئے کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ انتہائی دکھ کا
مقام ہے کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے استعمال کی بدولت معاشرئے میں شرم
وحیا کو آگ لگ گئی ہے۔ گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کے رحجان نے معاشرئے کو
اِس بُری طرح لپیٹ میں لے لیا ہے ایسا دیکھائی دیتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ
مذہب کے بغیر ہے اور روحانی اقدار نام کی کوئی شے یہاں نہیں ہے۔فیس بک کی
چیٹینگ سے شادیوں تک پہنچنے والے مراحل کے بعد جب نام نہاد محبت کی فینٹسی
کا بخار رفو چکر ہوتا ہے اور زندگی کی حقیقتوں کی آشکاری ہوتی ہے تو پھر
آٹے دال کو بھاؤ پتہ چلتا ہے کہ والدین کے گھر شہزادی بن کر رہنے والی نے
اپنی مرضی سے گھر سے بھاگ کر جو معاشرئے میں نیک نامی کمائی ہے اُس میں
غلطی پر کون ہے۔ یوں پھر خلع کی نوبت آجاتی ہے ۔ اگر لاہور میں فیملی
عدالتوں میں صرف طلاق والے کیسوں کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے
کہ معاشرہ کس جانب جا چکا ہے۔ اِسی طلاق اور خلع کی وجہ سے پھر نان و نفقہ
اور اگر بچے پیدا ہوچکے ہوں تو اُن کی حوالگی کے حوالے کے مسائل سر اُٹھاتے
ہیں۔ گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والوں کی بڑی تعداد غلط لوگوں کے ہتھے چڑھ
جاتی ہے جو اُنھیں جسم فروشی کے لیے استعا ل کرتے ہیں حالیہ مہینوں میں
پرنٹ اور الیکٹرنک میں یہ رپورٹ ہوچکا ہے شادی کے جال میں پھنسا کر مشرق ِ
وسطیٰ میں جسم فروشی کے لیے لڑکیوں کو سمگل کر دیا جاتا ہے۔ حوا کی بیٹی کے
ساتھ جو سلوک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہورہا ہے۔اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے
کہ ہمارئے رہنماء ہمارئے حکمران فکری طور پر مکمل کھوکھلے ہوچکے ہیں اُن
اِس کا بالکل ادراک نہیں کہ پاکستانی معاشری کس طرف پروز کر چکا ہے۔بے
روزگاری بھی بہت بری وجہ ہے طلاقوں کی شرح میں اضافے۔موجود مشترکہ خاندانی
نظام اور روپے پیسے کی ہوس نے رشتوں کو بھلادیا ہے اور بس اپنی جان کے لیے
ہر کوئی فکر میں مصروف ہے۔یوں مشترکہ خاندانی نظام بُری طور ٹوٹ پھوٹ کا
شکار ہے۔گارڈین کورٹ کے معاملات کے حوالے سے بہت سے مسائل اتنی پیچیدگیوں
کے حامل ہیں کہ بچے بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ماتحت عدلیہ میں میاں بیوی
کے درمیان علحیدگی کی وجہ سے بچوں کی حوالگی اور اُن کی اپنے والد یا والدہ
سے ملاقات کے حوالے سے احسن طور پر امور انجام نہیں دئیے جارہے ہیں۔ ایک
مہینے کے بعد د و گھنٹے کی ملاقات وہ بھی ایک ڈربہ نما کمرئے میں جہاں
سینکڑوں اور لوگ بھی اپنے بچوں سے ملنے کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اگر خادم
اعلیٰ اپنی آنکھوں سے جاکر ماتحت عدلیہ کے زیر انتظام عدالتوں میں چھوٹے
چھوٹے بچوں کا حشر دیکھ لیں تو اُن کو اندازہ ہو جائے گا کہ اِس طرح تو
کبوتر بھی کسی ڈربہ نما کمرئے میں نہیں رکھے جاسکتے جس طرح کہ گارڈین کورٹس
کی حالت زار ہے کہ بچے اپنے ولادین سے ملاقات کے لیے ذلیل وخوار ہو رہے
ہوتے ہیں اور یہی حال اُن کے والدین کا بھی ہوتا ہے۔والدین کی ناچاقیوں کی
سزا معصوم بچوں کو تو بھگتنا پڑتی ہی ہے اِس کے ساتھ ساتھ بچوں کے ماں باپ
بھی گارڈین کورٹ کے چکر لگا لگا کر اور بچوں کے لیے نان و نفقہ کے حصول کے
لیے جس طرح عدالتوں میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یقینی طور
ماں اور باپ اور اِسی طرح بچوں کے لیے بھی ایک مشکل صورتحال بن جاتی ہے۔
دوسری طرف اگر ان بچوں کی تعلیمی استعداد اور اُن کی ذہنی کیفیات کا اندازہ
لگایا جایا تو یہ امر بالکل واضع ہے کہ بچے ذہنی طور پر کافی مسائل کا شکار
ہوجاتے ہیں۔بن ماں یا باپ کے بغیر بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہونے والے مضر
اثرات کا ادراک وہی کر سکتا ہے جو اِس چکی میں پس رہا ہو۔ ماں یا باپ کے
فوت ہوجانے کی صورت میں بچوں کو یہ صبر کو آہی جاتا ہے کہ اُن کی ماں یا
اُن کا باپ اب اِس دُنیا میں نہیں ہے۔لیکن جب بچے اپنے ہم جماعتوں کو اپنے
والدین کے ساتھ دیکھتے ہیں اور والدین کی مشترکہ تربیت اور محبت سے استفادہ
ہو رہے ہوتے ہیں تو یہ معاملہ اُن بچوں کے لیے سوہانِ روح بن جاتا ہے۔ماں
یا باپ کی علحیدگی کی وجہ سے منتشر خیالات کے حامل بچے معاشرئے کے لیے اُس
طرح ذہنی طور پر بہتر شہری ثابت نہیں ہو پاتے جس طرح والدین کی آغوش میں
پلنے والے بچوں کی پرورش ہورہی ہوتی ہے۔ حالیہ ایک دہائی سے پاکستانی سو
سائٹی کے بودوباش میں عجیب و غریب تبدیلی آئی ہے۔ اِس تبدیلی کو اگر تباہی
سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ٹی وی چینلز کی بھرمار، موبائل فون
اور انٹرنیٹ کا بے تحاشہ استعمال معاشرئے کو ایسے دوراہے پہ لے آیا ہے کہ
خاندانی نظام کی دھجیاں بکھرتی جارہی ہیں۔ دادا دادی جو کسی بھی گھر کے لیے
نعمت و رحمت تصور ہوتے تھے اور اسلامی و مشرقی معاشروں کی پہچان تھے اُن کے
حوالے جو صورتحال بنی ہے وہ یہ کہ اُن کا احترام ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔
دوسرا والدین کا احترام والا نظریہ بھی بہت حد تک مفقود ہوتا جارہا ہے۔
تیسرا موبائل کی وجہ سے سارا جہاں ایک بٹن کے دبانے پر آشکار ہونے کے لیے
ہر وقت تیار ہوتا ہے اِس لیے زندگی میں ہوس پرستی نے اتنی جگہ بنا لی ہے کہ
اب خلوص اور وفا صرف شاعری کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ معاشرئے میں تعمیر و
تربیت کے لیے سب سے اہم خیال کیا جانے والا شخص اُستاد اِس وقت اُس مقام کو
کھو چکا ہے جو اِس معلمی پیشے کا خاصہ تھا۔اب اُستاد بھی پیسہ کمانے والی
مشین بن چکا ہے کیونکہ معاشرتی اخلاقی زوال پذیری اِس نہج تک پہنچ چُکی ہے
کہ اُستاد کا درجہ ایک ملازم کی طرح کا ہو چکا ہے اِس کی وجہ معاشرئے میں
دولت کی عزت ہے اور یوں پرائیوٹ اداروں میں علم کی روشنی کی بجائے ڈگریوں
کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔طلاقیں کیوں اتنی بڑی تعداد میں ہورہی ہیں اور جو
بچے ماں یا باپ کے بغیر پروان چڑھیں گے اُن کے ساتھ کون کون سی محرومی ہے
جو جونک کی طرح نہیں لپٹ جائے گی۔ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا
ہوگا۔ |