نسل کی فصل..........

باپ نمبر1....
بھیگی آنکھیں،پریشان حال،چہرے سے ٹپکتی مایوسی اور لاچاری۔گھر کے باہر لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔وہ ان سے ملنے پر مجبور تھا۔چیخنا چا ہتا تھا،چلانا چا ہتا تھا،اس ظُلم اور نا انصافی پر لیکن ہر عام آدمی کی طرح اپنے ہونٹ سختی سے بھنچے ہو ئے تھا۔
باپ نمبر 2....
اُس کے گھر بھی لو گ اکٹھے تھے۔اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان سے مل کر وہ کیا کہے۔شرم اور ندامت کے مارے اُس کا سر جُھکا ہوا تھا۔وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ لو گ اُس کا غم بانٹنے آئے ہیں یا اُس کا تمسخر اُڑانے۔وہ چیخ چیخ کر دُنیا والوں کو بتانا چاہتا تھا کہ اُس کے ساتھ ظُلم ہو اہے نا انصافی ہو ئی ہے لیکن ہر عام آدمی کی طرح اپنے ہونٹ سختی سے بھنچے ہو ئے تھا۔
باپ نمبر 3....
غُصے کے مارے اُسکابُرا حال تھا اُس کییار دُوست،ملنے ملانے والے سب اُس کے گھر اکٹھے ہو چُکے تھے بھانت بھانت کی بولیاں اُس کے کانوں میں صُور کی طرح لگ رہیں تھیں اُس کا بس نہیں چل رہا تھا ان سب کو نکال باہر کرے اُور اس مشکل صورتحال کا کو ئی حل نکالے۔اپنے ساتھ ہونے والے اس ظُلم اور نا انصافی کے خلاف وہ کیا کرے سمجھ سے باہر تھا بس ہر عام آدمی کی طرح اپنے ہونٹ سختی سے بھنچے ہو ئے تھا۔
یہ تین مجبور،لاچار،پریشان باپ کون ہیں؟آپ،میں ہم سب انھیں جانتے ہیں۔ان تینوں کے ساتھ ہو نے والیظُلم،نا انصافی سے واقف ہیں۔ان تینوں کے حالات مختلف،صورتحال مختلف،
لیکن ہو نے والا ظُلم ایک سا ہے۔جس کے خلاف کچھ کرنے یا آواز اُٹھانے سیوہ قاصر ہیں۔
باپ نمبر 1 مشعال کا باپ ہے جسے انتہائی بے دردی اور ذاتی مفاد کی خاطر مو ت کے گھاٹ اُتا ر دیا گیا۔اُس کا قصور صرف یو نیورسٹی انتظامیہ کے خلاف آ واز اُٹھانا تھا۔یہ آواز ہی اُس کی موت کا پیامبر ثابت ہو ئی۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ انتظامیہ نے تو ہینِ رسالت کو استعمال کرتے ہو ئے یہ قدم اُٹھا یا تاکہ اُن پر کوئی قدغن نہ لگ سکے۔آہ یہ کیسا وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے نبی ؐ کو کس مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔یہ لو گ انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں جنھوں نے لمحے میں ہنستا بستا گھر اُجا ڑ دیا۔لیکن سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو یہ کیوں یقین تھا کہ اس الزام پر ممکنہ نتا ئج وہ حاصل کر پا ئیں گے۔اُنھیں اس بات کی یقین دہانی کیوں تھی کہ ہجوم یہ بات سُنتے ہی کہ مشعال نے تو ہینِ رسالت کی ہے اُس پر چڑھ دوڑے گا۔کو ئی اُس سے یہ پو چھنے کی زحمت تک گوارا نہ کرے گا کہ تم نے یہ حرکت کی ہے یا نہیں؟ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟
با پ نمبر 2 نو رین کا با پ ہے۔وہی نو رین جو یونیورسٹی کی طالبہ ہے۔عام دنوں کی طرح وہ یونیورسٹی گئی لیکن جب واپس نہ آئی تو اس کے گھر والوں کے لیے یہ دن عام نہ رہا۔سوشل میڈیا کے پیغام نے اُن کی زندگی کو مزید دو بھر کر دیا۔ داعش میں شمولیت،اپنی مرضی سے جانا اور پھر پنجاب میں ایک آپریشن کے دوران پکڑے جانا ایک عجیب مُعمہ سا ہے۔ ایسٹر کے تہوار پر خود کُش کا منصوبہ لیے یونیورسٹی کی نو رین کی کہانی زبانِ زدعام ہو ئی تو ہر ایک چو نک کر رہ گیا۔سوال یہاں یہ اُٹھتا ہے کہ ایک یونیورسٹی کی طالبہ زندگی کی رنگینیوں کو چھوڑ کر اس راستے پر کیسے گامزن ہو ئی۔ اُس کی برین واشنگ کس نے اور کیسے کی؟ اس انتہا پسندی کا شکار وہ کیسے ہوئی۔
اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟
باپ نمبر 3 اُس خاندان کا سربراہ ہے جو گزشتہ دنوں ناروے سے پاکستان آیا۔ماں اور بیٹیاں جن میں ایک جوان طالبہ اور ایک دس سالہ کمسن بچی شامل ہے جب جہاز سے باہر قدم رکھا ہوگا تو اس وطن کی مُحبت سے بندھی ان دیکھی ڈور کو محسوس ضرور کیا ہو گا لیکن اگلے چند لمحوں میں پیش آنے والے واقعے سیوہ بے خبر تھے اگر کسی حکمت سے اُنھیں معلوم ہو جاتا تو یقیناََ وہ کبھی واپس نہ آتے۔ائیرپورٹ پر،سیکورٹی اسٹاف،ایئرپورٹ سیکورٹی فورس،ایف آئی اے،مسافراور کئی دیگر افراد کے سامنے سر عام ماں بیٹیاں پٹتی رہیں اور سب تماشائی بنے دیکھتے رہے۔غلطی کس کی تھی،تلخ کلامی کیوں ہو ئی،ہاتھا پائی تک بات کس نے پہنچائی یہ سب بعد کی باتیں ہیں سوال تو یہاں یہ اُٹھتا ہے کہ اُس خاتون اہلکار کو یہ زیب دیتا تھا کہ وہ اس طرح سرعام ایک خاتون کو پیٹ ڈالے۔
کیا یہ عورت کی تذلیل نہیں؟ 10 سالہ کمسن بچی کے سامنے اُس کی ماں بہن کی پٹائی ہو تی رہی اُس کے معصوم ذہن پر کیا اثر ہوا ہو گا؟یہ تو بھلاہو اُس شخص کا جو امیگریشن کا ؤنٹرپر موجود تھا جس نے اس واقعے کی ویڈیو بنالی۔وگرنہ حسبِ روایت مظلوم ہی مُجرم ٹھہرایا جا تا ہے۔
ان تینوں واقعات کے اوقات مختلف،حالات مختلف،نتائج مُختلف لیکن ایک بات سب میں یکساں ہے اور وہ ہے عام عوام کا برتاؤجسے ہم انگریزی میں behavior کہتے ہیں۔مشعال خان کے واقعے میں انتہاپسندی اور عدم برداشت کا برتاؤ ہے۔نورین کے واقعے میں لا پرواہی،عدم اعتماد اور انتہاپسندی کار فرما ہے۔ائیرپورٹ کے واقعے میں عدم برداشت،انتہاپسندی اور تماش بین کی سی کیفیات پائی جا تی ہیں۔آج ذرا مُعاشرے پر ایک نگاہ کریں۔ہر طرف اسی برتاؤ کی ہوا چلتی ہو ئی ملے گی۔ہم مجموعی طور پر انتہاپسند ہو گئے ہیں اپنی مرضی کے اخلاف اور اختلافِ را ئے ہم سے برداشت نہیں۔ہم قوم کی حیثیت میں تماش بین بن چُکے ہیں۔ہر واقعے کو ہم صرف ایک تماشے کے طور پر لیتے ہیں ہمیں اس کی چنداں پرواہ نہیں کہ غلط کو روکنا چاہیے اور صحیح کی حمایت کرنی چاہیے۔ہم خودغرض ہو چُکے ہیں اور ہم یہ بھول بیٹھے ہیں کہ ہم اسی مُعاشرے کا حصہ ہیں کل ہمارے ساتھ بھی ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔ہم نے اپنی زندگی کو پیسہ کمانے میں اتنا مصروف کر لیا ہے کہ ہمیں اردگرد کی کوئی پرواہ نہیں رہی حتیٰ کہ اپنے خاندان،بیوی بچے،رشتہ داروں میں ہو نے والی تبدیلیوں سے بھی لا تعلق رہتے ہیں یہاں تک کہ کو ئی بڑا واقعہ رُونما نہ ہو جا ئے۔انتہا پسندی آج سب سے زیادہ خطرناک ہتھیا ر ہے جسے اغیار ہمارے ہی خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اسکول، کالجز،یونیورسٹیاں،آفس،ان پڑھ، تعلیم یافتہ،با شعور انتہا پسندی کا جانور ہر جگہ اپنے پنجے گاڑھ چُکا ہے۔یہ آج کا مسئلہ نہیں ہے اس کا بیج آج سے بیس سال پہلے بو یا گیا تھا آج تو ہم اس بیج کا پھل کھا رہے ہیں۔جس نسل کی فصل ہم نے ان گزشتہ برسوں میں تیار کی ہے آج ہم اُسی فصل کو کا ٹ رہے ہیں اور یہ فصل تو اب کا ٹنا پڑے گی۔کوشش یہ ہو نی چاہیے کہ اب آنے والی نسل میں ہم یہ بیج نہ بو ئیں تاکہ آئندہ تیار ہو نے والی فصل کے پھلوں میں مُحبت،برداشت،احسان،حُسنِ سُلوک اور بھائی چارے کے پھل بھی شامل ہوں تبھی یہ مُعاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے اور یاد رہے امن سے ہی ترقی ہے۔

Sohail raza
About the Author: Sohail raza Read More Articles by Sohail raza: 19 Articles with 30486 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.