ٹرانسپورٹ کی ایک بڑی کمپنی نے اپنے ملازمین کے لئے 150
مکانات تعمیر کرائے دوران تعمیر بجلی کے کام کے لئے مختلف کاریگروں سے
رابطہ کیاگیا ارادہ تھا کہ کسی ایک اچھے مکینک کو تمام مکانات میں بجلی کے
کام کا ٹھیکہ دیدیا جائے ۔کمپنی نے مختلف کاریگروں سے اسٹیمیٹ لگوایا کہ فی
مکان کتنی تار درکار ہوگی ۔انہی کاریگروں میں محمد منیر نامی مکینک بھی تھا
جوصوم وصلٰواۃ کا پابند اور باشرع آدمی ہے ۔جب کمپنی نے اس کا انٹرویو لیا
تواس نے کہا کہ فی مکان 500 گز تار استعمال ہوگی ۔کمپنی نے یہ سن کر کہا کہ
آپ شاید بجلی کے کام سے واقف نہیں ۔۔۔منیر صاحب نے کہا کہ میری ساری زندگی
اسی کام میں صرف ہوئی ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں اس کام سے واقف نہیں ۔۔
میں نے یہ 500 گز تار بھی پوری تسلی کے بعد بتائی ہے جس میں سے کچھ بچ بھی
جائے گی ۔۔ کمپنی نے کہا کہ اچھا آپ ایک مکان کی وائرنگ کرکے دکھائیں ۔منیر
صاحب نے جب ایک مکان کی وائرنگ مکمل کی تو پتہ چلا کہ صرف 450 گز تار
استعمال ہوئی ہے ۔۔کمپنی والوں نے کہا کہ ہم نے تو جس مکینک سے بھی بات کی
اس نے کہا کہ فی مکان کم ازکم 1500 گزتار لگے گی ۔۔کمپنی نے منیر صاحب کی
ایمانداری کو دیکھ کر نہ صر ف انہیں 150 مکانات کی بجلی کے تمام کاموں کا
ٹھیکہ دیدیا بلکہ حسب خواہش تنخواہ پر اپنے ہاں سپروائزر کے طور پر مستقل
ملازم بھی رکھ لیا۔۔منیر صاحب نے اپنے جدید وقدیم تمام شاگردوں کو اس ٹھیکہ
میں کھپا دیا ۔سچ ہے کہ ایسے ایماندار لوگ زمین پر آفتاب ومہتاب کی مانند
ہیں ۔۔منیر صاحب اس پرفتن دور میں واقعی منیر ہیں جن کی روشنی ہمیں بھی
ایمانداری کا درس دیتی ہے۔بدقسمتی سے ایمانداری جو مسلمانوں کے ساتھ لازم
وملزوم سمجھی جاتی تھی اب ناپید ہوتی جارہی ہے آج آپ کسی بھی سرکاری ،کاروباری
،زراعت ،سیاست ،کھیل ،تعلیم ودیگر شعبوں کو لیں ایمانداری جیسی اہم اسلام
کی صفت دوربین سے بھی دیکھیں تو نظر نہیں آتی ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ مادیت
پرستی ،مال ودنیا کی حرص نے ہمیں دین کے اس اہم شعبے سے کوسوں دور کردیاہے
۔ایک مرتبہ حضور ؐ سے صحابہ کرام ؓ نے سوال کیا یارسول اﷲ ؐ کسی کے ایمان
والے ہونے کی کیا نشانی ہے ۔کیسے پتہ چلے گا کہ فلاں شخص ایماندار یا ایمان
والا ہے ۔آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم کوئی برائی کا کام کرو اورتمہیں اس کا
افسوس ورنج اور کوئی نیکی کا کام کرو تواسکی تم کو خوشی محسوس ہوتو تم جان
لو کہ تم ایمان والے ہو۔آج بدقسمتی ہے ہمارے معاشرے میں بے ایمانی ،جھوٹ ،دھوکہ
اتنی حد تک سرائیت کر چکا ہے کہ ہمیں گناہ کرنے کے بعد اس کا کوئی رنج تک
نہیں ہوتا جب انسان ایک گناہ کرتاہے توا سکے دل پر اﷲ تعالی ایک کالا دھبہ
لگا دیتے ہیں اگروہ اس گناہ سے توبہ کرلیتا ہے تو وہ دھبہ ختم ہوجاتا ہے
یعنی توبہ سے وہ شخص ایسے ہوجاتا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں الٹا اﷲ
کی رحیم وکریم ذات اس کا نامہ اعمال میں اتنی نیکیاں لکھ دیتے ہیں لیکن آج
ہمارے دل وضمیر گناہ کرکرکے اتنے مردہ ہوچکے ہیں کہ ہمیں گناہ کرنے کا کوئی
دکھ تک نہیں ہوتا اس لئے ہمیں توبہ کی بھی توفیق نہیں ہوتی ۔آپ کوئی بھی
سرکاری کام لے لیں اس میں ایمانداری نام کی کوئی صفت نظر نہیں آئیگی جو چیز
بازار میں دس روپے کی ملتی ہوگی وہ اگرسرکاری طریقے سے خریدی جائے تواس کی
قیمت میں بیس فیصد سے لیکر پچیس فیصد اضافہ کمیشن در کمیشن کے نظام کے باعث
ہوجاتا ہے جبکہ معیاری اشیاء سرکاری کھاتے میں خریدنا دور کی بات ہے ۔یہی
حال ہمارے سرکار اور دفاعی طور پر کی جانے والی بڑی خریداریوں اور ٹھیکوں
میں کیا جاتا ہے ۔بڑے بڑے صوبوں میں بھی سب کی کمیشن جمع کرکے نرخ کہیں سے
کہیں جاپہنچتے ہیں انگریز دور میں ایک فیصد سرکاری خریداریوں ،ٹھیکوں میں
کمیشن کی نحوست شروع کی گئی لیکن اب یہ ستر فیصد سے اوپر تک جاپہنچی ہے ۔رنگ
سسٹم کی بیماری اس کے علاوہ ہے سرکاری منصوبوں میں بہت زیادہ کرپشن ،کمیشن
در کمیشن کے نظام کے باعث معیاری ترقیاتی کام کا ہونا دیوانے کا خواب معلوم
ہوتاہے یہی وجہ ہے کہ پورے ملک کا نظام ہر جانب سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر
آتا ہے ۔ہماری سڑکیں ،گلیاں ،بازار ،عمارتیں ،پل ،قرون وسطہ کے دور کا منظر
پیش کررہی ہیں اور تو اور یہ ترقیاتی کام زلزلے کا معمولی جھٹکا تک برداشت
کرنے کی سکت نہیں رکھتی ۔2008 کے زلزلے میں آذاد کشمیر ،بالا کوٹ اوردیگر
علاقوں میں سکول وکالجز اسی لئے زمین بوس ہوگئے تھے اور ان میں ہزاروں کی
تعداد میں قیمتی جانیں لقمہ اجل بن گئی تھیں اگر ان کی تعمیر میں ایمانداری
سے کام کیا جاتا توکئی قیمتی جانیں بچائی جاسکتی تھیں ۔پاکستان میں
انگریزوں کی عمارتیں ،پل ،ریلوے سٹیشنز اپنے شان وشوکت کے ساتھ قائم ودائم
ہیں لیکن چند سال قبل بنائی گئی ہماری عمارتیں ،پل معمولی سا سیلابی ریلا ،زلزلے
کے جھٹکے میں کریک ہوجاتی ہیں اوپر سے سونے پر سہاگہ یہ کہ ہمارے ملک میں
کسی بھی ناگہانی آفات کے وقت اور بعد میں اس سے نمٹنے کا کوئی موثر سسٹم ،ادارہ
موجود نہیں ہے۔2008 کے زلزلے کے دوران گرنے والے کئی سکول تاحال جوں کے توں
پڑے ہیں ۔اسلام آباد میں مارگلہ ٹاور کی عمارت زلزلے میں زمین بوس ہوئی اسے
کلئیر کرنے میں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ لگ گیا ۔کہیں بھی آگ لگ جائے یا کوئی
پرانی مخدوش عمارت گر جائے ہمارے فائربریگیڈ اور بلڈنگ میٹریل کو اٹھانے کا
نظام ناکارہ ہے ہماری اکثر فائر بریگیڈ کے پائپ لیک ہوتے ہں ۔ہم ادویات میں
بھی ملاوٹ اور زائد قیمت وصول کرنے سے باز نہیں آتے ۔متعلقہ اداروں اور
ادویات بنانے والی کمپنیوں کی ملی بھگت سے ادویات کے نرخ آسمان سے باتیں
کررہے ہیں ۔اوپر سے ہر معیاری ادویات کی دو نمبر ہر جگہ مہنگے داموں دستیاب
ہے ۔ڈاکٹروں نے اپنی پریکٹیس کے علاوہ ڈسٹری بیوشن سنبھال لی ہے ۔انہیں
دبئی ،منیلا،بنکاک میں عیاسشی کروائی جاتی ہے جس کے عوض وہ غریب مریضوں کی
جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں ۔ہماری 99 فیصد اشیاء خوردنی جن میں گھی ،تیل ،لال
مرچ ،دالیں ،میدہ ،بیسن ،چائے ،چاول ،دودھ ،شہد میں ملاوٹ ہے ہمیں گوشت تک
لاغر جانوروں اور پانی کی ملاوٹ والا کھلایا جاتا ہے لیکن ہمارا ایمان جو
کہ منفی سطح پر پہنچ چکا ہے ہمیں ایسا کرنے سے باز نہیں رکھتا ۔زراعت ،معیشت
،سیاست ،انصاف،تجارت سب بے ایمانی کا شکار ہیں ۔حالانکہ اس دنیافانی کا
قائم رہنا ہی صرف ایمان والے کی برکت سے ہے ۔جب تک اس دنیا میں ایک بھی شخص
صرف اﷲ اﷲ کرنے والا ہوگا اس دنیا کا نظام اﷲ چلاتے رہیں گے اور پانچ ارب
کا فروں کو بھی رزق ملتا رہے گا ۔آج ہم جن پریشانیوں کا شکار ہیں اس کی بڑی
وجہ ہمارے معاشرے کی رگ رگ میں بے ایمانی جیسا گناہ کبیرہ کا سرائیت کرجانا
ہے ۔ہمارے سسٹم میں ایماندار آدمی کا چلنا محال اور بے ایمان کے لئے راستہ
صاف ہے ۔ایماندار آدمی کا مذاق اڑایا جاتا ہے ہم اس قبیح برائی جو کہ اﷲ
اور اس کے نبی ؐ کو انتہائی ناپسند ہے کبھی بھی ترقی کا خواب پورا نہیں
کرسکتے ۔
٭٭٭ |