روبوٹ اولمپکس کا جنم
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
روبوٹ اولمپکس کا جنم تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ بیجنگ میں حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والے دنیا کے پہلے عالمی ہیومنائیڈ روبوٹ گیمز میں، دنیا کے 16 ممالک کی 280 ٹیموں نے مقابلہ جاتی، نمائشی اور منظرنامے پر مبنی 26 سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ دھات، چپ اور الگورتھم کی اس دوڑ میں ہیومنائیڈ روبوٹس کی نمائندگی کرنے والی ادراکی ذہانت کے ابھرتے ہوئے شعبے کے لیے عوامی نمائش اور تکنیکی تبادلے کا پلیٹ فارم مہیا کیا گیا۔
قابل ذکر مقابلوں میں 100 میٹر، 400 میٹر، 1500 میٹر، لانگ جمپ، فری جمناسٹکس اور فٹبال جیسی سرگرمیاں شامل تھیں۔ نمائش میں انفرادی اور گروپ ڈانس کے ساتھ ساتھ ووشو بھی دکھایا گیا، جبکہ منظرنامے پر مبنی واقعات میں فیکٹریز، اسپتالوں اور ہوٹلوں جیسے حقیقی دنیا کے ماحول کی نقالی کی گئی۔ یہ تمام چیلنجز ہیومنائیڈ روبوٹس کے لیے حتمی امتحان ثابت ہوئے۔
اسٹیڈیم کے باکسنگ رنگ کے مرکز میں،معروف چینی روبوٹ ساز کمپنی یونٹری کے دو جی1 روبوٹس ایک دلچسپ مقابلے میں آمنے سامنے تھے۔ تقریباً 130 سینٹی میٹر لمبے اور 35 کلو گرام وزنی، انہوں نے پیشہ ورانہ باکسنگ دستانے اور ہیلمٹ پہن رکھے تھے۔ انسانی پہلوانوں کی طرح، روبوٹس نے بائیں اور دائیں ہُکس کا تبادلہ کیا، سائیڈ کِکس اور نِی سٹرائیکس کیں، اور آنے والی ضربوں کو چالاکی سے گریز کیا۔ گرنے کی صورت میں بھی وہ بغیر کسی مدد کے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور لڑائی جاری رکھی۔
کمپنی حکام کے مطابق، فری سٹائل کھیلوں میں ہارڈویئر کی پائیداری سافٹ ویئر الگورتھمز جتنی ہی اہم ہے۔اگر ساخت دباؤ برداشت نہ کر سکے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر توازن کا الگورتھم ناکام ہو جائے تو ایک ہلکا سا دھکا بھی روبوٹ کو گرا سکتا ہے۔"
پانچ اور تین کھلاڑیوں والے فٹبال فائنل میں، چاروں ٹیموں نے بیجنگ کی بوسٹر روبوٹکس کے ٹی1 روبوٹس استعمال کیے۔ یہ روبوٹس اپنے ماحول کا خودکار انداز میں جائزہ لے سکتے ہیں اور ٹروٹنگ، ٹیکلنگ، شوٹنگ اور ڈیفینڈنگ جیسے پیچیدہ افعال مکمل خودکار طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔ اس کے لیے نہ صرف ہلکے پھلکے مگر مضبوط ہارڈویئر کی ضرورت ہوتی ہے جو دباؤ برداشت کر سکے، بلکہ پیچیدہ حقیقی وقت کے ادراک، اعلیٰ حرکت کنٹرول، ذہین فیصلہ سازی، اور ہم آہنگ ملٹی ایجنٹ کوآرڈینیشن بھی درکار ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، روبوٹ فٹبال ٹیکنالوجی کے لیے سب سے بنیادی عالمی امتحان گاہ ہے۔ فٹبال کے منظرناموں میں ہیومنائیڈ روبوٹس کی تربیت یافتہ صلاحیتیں، جیسے نقل و حرکت، ادراکی الگورتھمز، پوزیشننگ اور نیویگیشن، نیز فیصلہ سازی کی منطق، روزمرہ زندگی اور پیشہ ورانہ منظرناموں میں حقیقی دنیا کی ایپلی کیشنز کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
روبوٹ کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ، پس منظر میں کام کرنے والے انسانی آپریٹرز نے بھی بڑی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی، خاص طور پر جبکہ ان میں سے زیادہ تر 20 اور 30 کی دہائی کے یونیورسٹی طلباء اور نوجوان انجینئرز تھے، جن میں سے کچھ تو ابھی ہائی اسکول میں ہی تھے۔افتتاحی تقریب کے دوران، بیجنگ کے ایک جونیئر ہائی اسکول کا 14 سالہ پرچم بردار سب سے کم عمر شرکت کرنے والا انجینئر بنا۔ جونیئر ہائی اسکول اور سینئر ہائی اسکول کے طلباء پر مشتمل تین ٹیموں نے بھی فٹبال کے مقابلوں میں حصہ لیا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ مختلف ممالک کی نوجوان صلاحیتیں ہیومنائیڈ روبوٹکس کی ترقی کی جانب راغب ہو رہی ہیں۔ ان میں سے اکثر سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شوقین یا یونیورسٹی کے طلباء ہیں جو ریاضی، میکینیکل انجینئرنگ، الیکٹرانکس، کمپیوٹر سائنس، اور مواصلات جیسے شعبوں میں زیر تعلیم ہیں۔ مقابلوں کے دوران، انہوں نے خراب روبوٹس کی مرمت کی، لیپ ٹاپس کو جوڑ کر سافٹ ویئر پیرامیٹرز کو لیبارٹری تجربے کی طرح درستی اور توجہ سے ایڈجسٹ کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کا صلاحیتی فائدہ ہیومنائیڈ روبوٹکس کو آگے بڑھانے میں ایک اہم محرک ہے۔ چین میں جدید تعلیم کو مرکزی اہمیت دینے والی ثقافت موجود ہے۔ والدین اور معاشرہ دونوں اختراعی تعلیم پر زور دیتے ہیں، جس کے تحت بہت سے بچے فعال طور پر مقابلہ جات میں حصہ لیتے ہیں، جو صلاحیتوں کی نشوونما کے لیے ایک منفرد ثقافتی اور سماجی ماحول تشکیل دیتا ہے۔
اس کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ رواں سال مئی میں جاری کردہ پالیسی دستاویزات کے مطابق، چین پرائمری، جونیئر ہائی اور سینئر ہائی اسکولوں پر محیط ایک درجہ بند مصنوعی ذہانت تعلیمی نظام قائم کرے گا تاکہ طلباء کو بنیادی علمی شعور سے عملی ٹیکنالوجی جدت طرازی کی طرف رہنمائی کی جا سکے۔
دوسری جانب ، ان گیمز نے عالمی ہیومنائیڈ روبوٹکس محققین کے لیے خیالات کے تبادلے کا پلیٹ فارم بھی فراہم کیا، جس سے مختلف ممالک کے انجینئرز کو تازہ ترین روبوٹکس پیش رفت سے آگہی ملی اور انہیں اپنے الگورتھمز کو بہتر بنانے کی رہنمائی بھی میسر آئی۔ماڈیولر اور قابل مطالعہ ڈیزائن کی بدولت، ڈویلپرز مربوط ترقی کے ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے مختلف روبوٹ برانڈز پر الگورتھمز کو تیزی سے منتقل کر سکتے ہیں۔
وسیع تناظر میں ، ورلڈ ہیومنائیڈ روبوٹ گیمز 2025 ایک پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ ایک نمائش بھی تھے، جس نے دنیا کو چین کے ہیومنائیڈ روبوٹکس سیکٹر میں صنعتی چین اور روبوٹ ہارڈویئر سے لے کر بڑی صارف بنیاد تک کے فوائد دکھائے۔ ان گیمز کے کامیاب انعقاد نے عالمی ڈویلپرز کو یہ بھی دکھایا کہ چین کے ساتھ تعاون کر کے، وہ ملک کے اعلیٰ درجے کے ہارڈویئر کو اپنے الگورتھمز کے ساتھ مربوط کر کے مختلف چیلنجز کو حل کر سکتے ہیں۔
چین کی جانب سے یہ واقعی ایک تاریخ رقم کی گئی ہے۔ ایک یا دو دہائی بعد، جب دنیا پیچھے مڑ کر دیکھی گی تو اسے روبوٹ اولمپکس کا جنم قرار دے گی۔ جس طرح اولمپک کھیلوں کی شروعات قدیم یونان میں ہوئی، اسی طرح آنے والی نسلیں جدید روبوٹ اولمپکس کی جائے پیدائش کے طور پر بیجنگ کو دیکھیں گی۔ |
|