اتوار کی صبح لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن کے بیشتر مکین
نیند کے خمار میں تھے لیکن ڈاکٹر تیمورالحسن کے گھر میں غیر معمولی سرگرمی
جاری تھی۔
وہ علی الصبح تازہ دم نظر آ رہے تھے لیکن ان کی چھوٹی بہن قدرے گھبرائی
ہوئی تھیں اور پھر ڈیڑھ گھنٹے بعد ڈاکٹر تیمور روانگی کے لیے تیار تھے۔ اہل
خانہ ان کے گرد جمع تھے۔ دروازے پر ان کے لیے دعا کی گئی اور قران کے سائے
میں انھیں روانہ کیا گیا تاکہ ان کا سفر مبارک ہو۔
|
|
ڈاکٹر تیمور جگر کے کینسر کے مریض ہیں اور ان کی منزل انڈیا کا دارالحکومت
نئی دہلی ہے۔
دہلی میں سنہ 2015 میں ایک کامیاب سرجری کے بعد انھیں نئی زندگی ملی تھی
لیکن پھر کینسر لوٹ آیا ہے اور اس بار انھیں انڈیا میں علاج کے لیے ویزے کا
چھ ماہ تک انتظار کرنا پڑا۔
انھوں نے امید چھوڑ دی تھی لیکن ان کی بہن نے دیوالی کی شام انڈیا کی وزیر
خارجہ سشما سوراج سے ٹوئٹر پر ان کے لیے ویزے جاری کرنے کی درخواست کی۔
ڈاکٹر تیمور کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب دوسرے ہی دن انھیں ویزا دے دیا گیا۔
|
|
اپنی گاڑی میں داخل ہوتے ہوئے ڈاکٹر تیمور نے کہا دہلی میں مریض مطمئن رہتے
ہیں۔ ان کے لیے بہت آسانیاں ہیں، تہذیب و ثقافت، زبان اور سب چیزیں ایک سی
ہیں۔
اس کے بعد وہ واہگہ اٹاری سرحد پہنچے اور پیدل سرحد پار کی پھر ایک گھنٹے
بعد دہلی کے لیے روانہ ہو گئے۔
حالیہ دنوں پاکستانی مریضوں کے علاج کے لیے انڈیا پسندیدہ جگہ رہی ہے۔
ہزاروں مریض لیور ٹرانسپلانٹ، کینسر کے علاج اور بچوں کے علاج کے لیے وہاں
گئے ہیں۔ ملک کے ہر علاقے کے لیے یورپ اور امریکہ کی بہ نسبت انڈیا میں
علاج کرانا پسند کرتے ہیں حالانکہ امریکہ اور یورپ میں علاج زیادہ اچھے
تصور کیے جاتے ہیں۔
بہرحال انڈیا کے معاملے میں ویزا بڑا چیلنج ہے۔ انڈیا کی وزارت تجارت کے
ایک حالیہ سروے کے مطابق سنہ 16-2015 کے دوران کل 1921 پاکستانی مریضوں کے
ویزے جاری کيے گئے۔ خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں یہ تعداد بہت کم ہے۔
سروے میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ انڈیا کو فی مریض کے لحاظ سے پاکستانی
مریضوں سے زیادہ آمدن ہوتی ہے۔ اوسطاً ایک پاکستانی مریض انڈیا میں علاج پر
تقریبا تین ہزار امریکی ڈالر خرچ کرتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے لیے
راہیں آسان نہیں ہیں۔
|
|
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے حال ہی میں دعویٰ کیا
ہے کہ انڈیا ہر ماہ عام طور پر 500 پاکستانیوں کو علاج کے لیے ویزے جاری
کرتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہو رہا ہے۔
انھوں نے کہا: یہ سب مفت نہیں ہے، لوگ ان خدمات کے لیے اچھی خاصی رقم صرف
کرتے ہیں اور یہ دونوں ملکوں کے درمیان انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی جانے
والی چند چیزوں میں سے ایک ہیں۔
انھوں نے مزید کہا: 'اب قابلِ احترام وزیر (سشما سوراج) ٹوئٹر پر لوگوں کا
انتخاب کرتی ہیں۔'
مئی سنہ 2017 میں ایک میڈیا میں رپورٹ آئی تھی کہ انڈیا نے پاکستان کو دیے
جانے والے میڈیکل ویزا پر پابندی لگادی ہے جس کے بعد پاکستان میں اس وقت
انڈیا کے سفیر گوتم بمباوالا کو بلا کر یہ مسئلہ اٹھایا گیا تھا۔
انڈیا اس طرح کی خبروں کی ہمیشہ تردید کرتا رہا ہے۔ انڈیا کا مؤقف ہے کہ
پاکستانی مریضوں کے لیے ویزے پر پابندی نہیں ہے لیکن اعلیٰ سطح پر
درخواستوں کی جانچ کی جاتی ہے۔
تقسیم سے آج تک ہندوستان اور پاکستان کے رشتے میں نشیب و فراز آتے رہے ہیں
اور اکثر ایک دوسرے کے خلاف علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دی جاتی رہی ہے۔
کبھی انسانیت اور ہوش و خرد کا دور بھی آیا ہے لیکن پھر اس کی جگہ نفرت اور
بیان بازی نے لے لی ہے۔
|
|
اگر آپ وزیر خارجہ سشما سوراج کے ٹوئٹر ہینڈل کو دیکھیں تو آپ کو درجنوں
افراد ان سے ویزے کی درخواست کرتے نظر آئیں گے۔ حالیہ دنوں پاکستانی مریضوں
کے لیے ٹوئٹر آخری حربہ نظر آیا ہے۔
پاکستان میں ہندوستان کے نئے سفیر اجے بساریا نے اپنی آمد پر اس بات کی
یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنے قیام کے دوران اس شعبے پر کام کریں گے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا: 'ہمارے لیے لوگوں کو دھیان میں رکھنا ہے اور
یہ (میڈیکل ٹورازم) ان کا ایک پہلو ہے۔ تکلیف سے دوچار لوگوں کے لیے ویزا
اور لوگوں کو ایمرجنسی میں مدد کرنا ایک جہت ہے جس کے فروغ اور توسیع پر ہم
توجہ دینا چاہیں گے۔'
ادھر دہلی میں ڈاکٹر تیمور کی اپنے معالج ڈاکٹر سبھاش گپتا سے ملاقات ہو
گئی ہے۔
ڈاکٹر گپتا نے کہا: 'جب سے میں ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کر رہا ہوں پہلی
بار میڈیکل ویزا پر پابندی عائد کی گئی ہے لیکن ہم لوگوں نے (اسے ہٹانے کی)
کوشش کی اور اب چیزیں معمول پر آ رہی ہیں۔'
ڈاکٹر گپتا نے ریڈیو تھیراپی کے لیے تیمور الحسن کو ایک دوسرے ڈاکٹر کے پاس
بھیجا ہے۔ ڈاکٹر گپتا کا خیال ہے کہ وہ پوری طرح صحت یاب تو نہیں ہو پائیں
گے لیکن ان کی عمر میں یقیناً چند سال کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے
انھیں ہر تیسرے مہینے انڈیا کا سفر کرنا ہوگا۔
تیمورالحسن سشما سوراج کی امداد کے شکرگزار ہیں لیکن کیا ان کی مہربانیاں
مستقبل بھی جاری رہیں گی؟
ان کی طرح بہت سے پاکستانیوں کی زندگی اب اس بات پر منحصر ہوگی کہ انڈیا
آنے والے دنوں میں اپنی میڈیکل ویزا پالیسی کو کس طرح جاری رکھتا ہے۔ |