معذرت کے ساتھ ایک چھوٹی بچی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے
خلاف تو ہم سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں (احتجاج ہونا بھی چاہئے) فیس بک پر
طرح طرح کی پوسٹیں کر کے کبھی انتظامیہ کے خلاف تو کبھی مجرم کے خلاف ہم
اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں
جس نے جرم کیااسے جرم کی سزا ضرور ہونی چاہئے کہ آئندہ کوئی جرم کرنے والا
اس باز رہے
پر سوال یہ ہے کہ ہم خود کہاں کھڑے ہیں؟
کیا کسی نہ کسی طرح ہم بھی مجرم نہیں؟
=>ہم بھی تو اسکول، کالج، یونیورسٹی، موبائل، فیس بک، پڑوس، علاقہ، محلہ
میں اسی حوا کی بیٹی کی عزت پر گندی نظر جمائے بیٹھے ہیں (مجرم کے خلاف صرف
اسی لئے ہیں کے اس نے گناھ سرانجام دے دیا ، اور ہمیں اب تک موقع نہیں ملا)؟
=> ہم اپنامعاشرہ بدلنا چاہتے ہیں پر خود بدلنا نہیں چاہتے؟
=> ہم ان چوروں کی جماعت کا حصہ بننا پسند کرتے ہیں جو قاتل، شرابی اور
زانی ہیں ہم انہیں خود حاکم بناتے ہیں جن کی سرپرستی میں زنا، شراب اور
جووے کے مراکز چلتے ہیں
=>جو حوا کی لاکھوں بیٹیوں کو سرِعام سڑک پرنچائے وہ ہمارا کپتان ہے، جو
ہمارے دین پر مسلسل حملہ کرے وہ ہمارا شریف ہے، جو لاکھوں کا قتل کرکے ملک
سے فرار ہوجائے وہ ہمارا قائد ہے
ہم خود نظام دین نہیں چاہتے،امن نہیں چاہتے،انصاف نہیں چاہتے
اگر چاہتے تو قصور اور اس طرح کےاکثر رونما ہونےوالے واقعات پرصرف سوشل
میڈیا پر مختصر سا شور کرکےاس ذمہ داری سےخود کا دامن جھاڑکر خود کو پارسا
ثابت کرنے میں مصروف عمل نہ ہوتے
بلکہ نکلتےاور ان کے ساتھ جا کھڑے ہوتے جو اس نظام کو بدلنے نکلےہیں جو
ہمیں آپکو بچانے(نظام مصطفٰی صلی الله علیہ وسلم قائم کرنے) نکلے ہیں
ان کے ساتھ کھڑے ہوں جو خود کو مشکل میں ڈال کر آپکو تحفظ،انصاف،امن اور
عزت دلواناچاہتے ہیں
اگر آپ واقعی اس واقعے پراحتجاج کرنا چاہتے ہیں تو پہلے خود اور سوچ کو
بدلیں پھر بدلےگا معاشرہ اور پھر بدلے گا پاکستان
ورنہ قصور ہمارا ہے اور ہر گلی میں قصور والی بچی بے قصور
لبیك لبيك لبيك يارسول اللہ |