تحریر: آسیہ پری وش، حیدرآباد
میں مانتی ہوں کہ میرے گھر والے میرا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں۔ میں جو یہ
صاف ستھری زندگی گزار رہی ہوں یہ ان سب کی ہی مرہون منت ہے۔ مجھے گھر کے
اندر ہی بن کہے ہی ہر نعمت مہیا کردیتے ہیں لیکن ان سب آسائشوں کے باوجود
میں گھر میں فارغ بیٹھے بیٹھے اپنی اس فارغ اور یکسانیت بھری زندگی سے
اْکتا گئی ہوں۔ میں ان معذور لوگوں کی طرح جو دنیا میں فعال کردار ادا
کررہے ہیں ان کی طرح خود کو کارآمد بنانا چاہتی ہوں۔ خود کو ضایع ہونے سے
بچا کے کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ اور خود کو کچھ ثابت کروانے کے لیے مجھے گھر سے
باہر نکلنا ہوگا۔ کورسز کرنا ہوں گے۔ اور اس کے لیے مجھے بھائیوں کی مدد
اور ساتھ کی ضرورت ہے کہ وہ مجھے لے کر جائیں اور لے کر آئیں لیکن میری اس
خواہش کے سامنے ان کی اپنی مصروفیات ہیں جن کے سامنے انہیں میری بیزارکن
فراغت نظر ہی نہیں آتی۔ میرا ضایع ہونا دکھائی ہی نہیں دیتا۔ یہ نعمتوں
بھرا گھر میرے لیے سونے کا پنجرہ ثابت ہورہا ہے۔
واقعی معذوری بہت بڑی محتاجی ہے۔ وہیل چیئر پر بیٹھی اپنی اس حساس دوست کے
اس مایوسی بھرے شکوے اور اپنی اس سوچ نے مجھے ان سوچوں میں غرق کردیا جن کی
بنا پر میرے اندر میں کچھ لکھنے کا خیال پیدا ہوا۔
ہوا کچھ یوں کہ اپنی اس سوچ کے ساتھ بیاختیار میرے ذہن میں بچپن میں بہت
شوق سے دیکھی گئی ایک کارٹون سیریز گھوم گئی۔ جس میں ایک حادثے میں معذور
ہوا ایک نیگیٹو کردار تھا۔ وہیل چیئر پر بیٹھا وہ مشین میں جکڑا کردار جس
کے جسم کا کوئی عضو کام نہیں کرتا تھا سوائے اس کے دماغ کے۔ اور اس کے دماغ
سے نکلے منصوبے ایسے ہوتے تھے کہ عام انسان کی عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ بھلے
منفی ہی سہی پر اس نے ثابت کردکھایا تھا کہ ایک معذور انسان بھی پوری دنیا
کو ہلا سکتا ہے اگر اْس کی سوچ، اْس کا ذہن معذور نہ ہو تو۔
واہ کیا باہمت کردار تھا وہ۔ ویسے اس باہمت کردار سے مجھے ایک باہمت واقعہ
یاد آرہا ہے جس کی ہمت نے میری عقل کو بھی گھما ڈالا تھا۔ لیکن اس وقت اس
واقعے نے یاد آکر میری سوچ کی پرواز کو مزید اونچائی پر ڈال دیا ہے۔ ہوا
کچھ یوں تھا کہ پچھلے دنوں مجھے کراچی جانے کا موقعہ ملا۔ جہاں ایک سڑک پر
میں نے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس دو لوگوں کو دیکھا۔ جس میں سے ایک تو
ٹانگوں سے معذور تھا اور گجرے اور دوسری چیزیں ہاتھ میں لے کر فٹ پاتھ تو
ایک طرف سڑک سے گزرتی گاڑیوں کے بیچ میں سے بھی خود کو تیزی سے گھسیڑتے
ہوئے لیکن دراصل خود کو دوسروں کا محتاج نہ ثابت کرتے ہوئے وہ چیزیں بیچ کر
کچھ کمانے کی تگ و دو میں تھا جبکہ دوسرا شخص ہٹاکٹا ہوکر بھی بھیک مانگ
رہا تھا۔ جب وہ بھکاری ہمارے قریب آکر ہم سے بھیک مانگنے لگا تو ہمارے
کراچی کے میزبان نے اس ہٹے کٹے بھکاری سے کہا ’’ادھر اس شخص کو دیکھو جو
اپنی معذوری کی باوجود اتنی قابل رحم حالت میں بھی محنت مزدوری کررہا ہے
اور ایک تم ہو جو اپنے مکمل اعضاء کے باوجود بھی بھیک مانگ رہے ہو۔‘‘
بھائی جی! میں ذرا آئیڈیلزم بندہ ہوں۔ اور اپنے آئیڈیل کی کاپی کرنا اپنا
فخر محسوس کرتا ہوں اور میرا آئیڈیل آج کا حکمران ہے تو جب وہ سب کچھ اپنے
پاس ہونے کے باوجود اپنی خودساختہ مجبوریاں بتا کر دوسروں ملکوں سے بھیک او
سوری قرض مانگتا پھرتا ہے تو مجھے اپنے آئیڈیل کی پیروی کرنے میں کون سی
عار ہے۔ وہ بھکاری بنا کسی شرمندگی کے ہنستے ہوئے اپنا موقف ہمارے سامنے
رکھ کر ایک بار پھر ہمارے سامنے ہاتھ پھیلا کر کھڑا ہوگیا اور ہم اس آج کل
کے آئیڈیلزم بھکاری کو حق دق سے دیکھتے رہ گئے۔
بات تو اس نے سچ ہی کہی تھی۔ اقتدار پاکستان جیسی دولت ہونے کے باوجود
دوسرے ملکوں سے قرض لینا مجھ کو آج تک سمجھ میں نہیں آیا۔ ہمارے پیارے
پاکستان کی اتنی زرخیز اور سونا اْگلتی زمین کے باوجود ہم دوسروں کے محتاج
کیوں بن گئے ہیں؟ یہ محتاجی آخر ہے کس چیز کی؟ جبکہ ہمارے پاکستان کے لوگ
ہیں بھی بہت محنتی۔ تو کیا اﷲ کی طرف سے ملی اتنی سرسبز، زرخیز اور سونے
جیسی نعمت کا صحیح استعمال کرنے کی بجائے ہمارے حکمران ذہنی طور پر محتاج
ہیں؟ حالانکہ اگر ہمارے حکمران نیک نیتی اور ایمانداری سے کام کریں اور لیں
تو ہمارے پاکستان کا ہر فرد خوشحال اور مطمئن زندگی گزار سکتا ہے۔ ہمیں
دوسروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔
ویسے یہ ہمارے محنتی لوگوں کی بات بھی خوب ہے جو کہ میڈیا کے اتنے عادی
ہوگئے ہیں کہ وہ ساری دنیا کو دیکھتے ہی میڈیا کی نظر سے ہیں۔ کون کیا
کررہا ہے؟ کہاں پہ کیا ہورہا ہے؟ کسی کی خفیہ سرگرمیاں کیا ہیں؟ کون کیا
کیا سازش کررہا ہے؟ کون کون اور کس کس بات پر جھگڑ رہا ہے؟ سب کچھ وہ میڈیا
پہ بلکہ میڈیا کی نظر سے دیکھنے کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ انہیں اپنی عقل
کو استعمال کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ وہ عقل جو ہمیں اشرف
المخلوقات جیسے رتبے پر فائز کرنے کا سبب بنی ہے۔ اس عظیم نعمت کا استعمال
شاذونادر ہی کرتے ہیں۔ حالانکہ ہم خود بھی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کیا صحیح
اور کون غلط ہے۔ لو جی یہاں پر بھی میڈیا کی محتاجی۔
میڈیا کی بات سے مجھے امی کی ڈانٹ یاد آرہی ہے جو کہ اکثر مجھے اس بات پہ
پڑتی رہتی ہے کہ اتنی اچھی سلائی کڑھائی آنے کے باوجود ٹی وی ڈراموں، نیٹ
اور موبائل کے پیچھے پڑکر میں اپنے اس سونے جیسے ہنر کو ضایع کررہی ہوں۔
اپنی اس غفلت اور سستی کی وجہ سے اپنا یہ کام دوسروں سے کروانے کی محتاج
بنتی جارہی ہوں۔ اور امی کی اس حقیقت پر میں موبائل گیم میں الجھے اور گیم
سے ہی ماؤف ہوتے ذہن کے ساتھ اْنہیں دیکھتی رہ جاتی ہوں۔ ملٹی میڈیا اور
جدید ٹیکنالوجی نے جہاں ہم لوگوں کے لیے بہت ساری تفریحات اور آسانیاں پیدا
کردی ہیں وہیں پہ ہمیں اپنا عادی بنا کر ہمارے ’’ایمان‘‘ وقت اور ذہنی
کسوٹیوں کو مفلوج بھی کرتی جارہی ہیں۔ ہمارے ایمان کو کمزور کرکے ہمیں صرف
نام کا اﷲ پر بھروسہ کرنے والا بناتے جارہے ہیں۔
دیکھا جائے تو ہم سب کہیں نہ کہیں ذہنی طور پر محتاج ضرور ہیں لیکن محسوس
کرنے کے باوجود ہمیں اپنی وہ محتاجی نظر نہیں آتی۔ جبکہ معذوروں کی محتاجی
نظر آنے والی چیز ہے۔ حالانکہ اصل محتاجی معذوری نہیں ہوتی بلکہ وہ سوچ
ہوتی ہے جو ہمیں دوسروں کا محتاج بنادیتی ہے۔ جسم کے کسی عضوے کی معذوری تو
اﷲ کی طرف سے ہوتی ہے اور اﷲ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ سو
اس معذوری کے لیے ہم اپنے پیارے اﷲ سے لڑ تونہیں سکتے لیکن اﷲ کی طرف سے
ملی نعمت عقل اور صلاحیتوں کو استعمال میں لاتے ہوئے خود کو ذہنی محتاجی سے
بچا ضرور سکتے ہیں۔ اب ہماری اس مایوس دوست کو ہی لیجیے۔ اﷲ نے اس کو لفظ
بننے اور کہانیاں لکھنے کی صلاحیت دی ہے۔ اپنی جگہ پہ مجبور اپنے مخلص گھر
والوں کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے یہ دوست اﷲ اور اپنی صلاحیت پہ بھروسہ کرکے
اپنی اس صلاحیت کو استعمال کرکے گھر بیٹھے بھی خود کو کچھ ثابت کروا سکتی
ہے۔ اپنا نام بنا سکتی ہے لیکن وہی دوسروں کے سہارے آگے بڑھنے کی محتاج
ذہنی سوچ اس کے آڑے آرہی ہے۔ نصیحت کرنا آسان خود عمل کرنا مشکل کی بنیاد
پہ اس مایوس دوست کے نام ایک پیغام’’ اے پیاری دوست! خود کو خود اس محتاجی
سے نکالو۔ |