قصور میں ہونیوا لایہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے
ماقبل بھی متعدد واقعات میڈیا میں گردش کرتے رہے ہیں اسی شہر میں 275بچوں
کے ساتھ زیادتی کے واقعات پر آٹھ مقدمات درج ہوئے2017میں 12بچوں کو جنسی
زیادتی کے بعد اسی شہر میں قتل کیا گیا مگر کاروائی نہ ہوسکی اور افسوس کے
ساتھ حکمرانوں نے کبھی اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہر ہ نہیں کیا گند میں
لت پت ہمارا نظام اور نظام چلانے والے انصاف کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے
بلکہ انصاف کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں یہ نام نہاد عوامی لیڈر صرف
غربیوں سے ووٹ وصول کرتے ہیں اس کے بعد یہ حکمران عامتہ الناس کو کیڑے
مکوڑے سمجھتے ہوئے ان کو گھاس ڈالنا بھی گوارہ نہیں کرتے عوام کے حقوق کا
تحفظ نہ ان کا وطیرہ رہاہے اورنہ ہی ان سے امید رکھنی چاہیے اگر تھوڑا بہت
یہ ان ایکشن ہوتے ہیں تو اس کی وجہ آزاد میڈیا اورسوشل میڈیا کی یلغار ہے
ان کا اندرون مغربی فحش کلچر سے متاثر ہے ظاہر ی طورطریقوں کے ذریعے
اورعوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کبھی کبھار فوٹو سیشن کرانے کسی مظلوم کے
گھر چلے جاتے ہیں چند دن گزرنے کے بعد پھر ایسا ہی سانحہ رونما ہوجاتا ہے
سوال یہ ہے کہ یہ فوٹوسیشن کرانے والے ظالموں کو گرفتار کیوں نہیں کرتے؟
درندے آزاد کیوں ہیں ؟ پولیس اپنا کا م ٹھیک انداز سے کیوں نہیں کرتی ؟حکمرانوں
اوراشرافیہ ظلم کو محسوس کیوں نہیں کرتے؟ غریب کو کب تک ظلم کا نشانہ بنایا
جاتا رہے گا؟یہ ظلم کب تھمے گا ؟ انصاف کا سورج کب طلوع ہوگا؟ معلوم ہونا
چاہیے کہ ظلم ایساناسور ہے جس سے معاشرہ اپنے حقیقی حسن سے محروم ہوجاتاہے
،اگر مظلوم کو انصاف فراہم کر دیا جائے تو چالیس دن تک اﷲ تعالیٰ کی رحمت
ایسی بستی پر سایہ فگن رہتی ہے خود انسانی فطرت طبعاً حرام کو ناپسند کر تی
ہے اور جرم کرنے والے کو سزا دینا چاہتی ہے۔پھر معاشرے میں امن وامان قائم
کرنے کے لئے جرم کی سزا دینا ضروری ہے۔اگر جرم پر سزا ختم ہوجائے تو وہ
معاشرہ درندوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔حکومت کا قیام بھی اسی لئے ہوتا ہے کہ
مجروموں کو کیف کردار تک پہنچا کر دوسرے انسانوں کے جان ومال اور عزت آبرو
کا تحفظ کرے۔خود قرآن پاک انصافکے نفاذ کے لیے جوہدف یا مقصد بیان کرتا ہے
چوری کے جرم میں فرمایا جزاء بما کسبا اور نکالا من اﷲ یعنی جرم کی سزا اور
دوسروں کے لئے عبرت کا سامان اسی طرح قصاص کے سلسلے میں فرماتا ہے ’’اے عقل
والو!تمہارے لئے قصاص لینے میں زندگی ہے تاکہ تم اس قانون کی خلاف ورزی کرن
سے پرہیز کرو۔لہذا جرم کی سنگینی کے لحاظ سے شریعت نے سزائیں مقرر کی
ہیں۔تاکہ لوگوں کے دلوں میں سزا کا خوف پیدا ہو اور وہ پھر جرم کے ارتکاب
کی ہمت نہ کریں۔اور عبرت کا مفہوم یہ ہے کہ سزا برسرعام دی جائے۔تاکہ عوام
الناس اس سے عبرت حاصل کریں اور آئندہ ان جرائم سے پرہیز کریں،دوسرا فائدہ
انصاف کی فراہمی سے زمین پر اﷲ کی رحمت سایہ فگن ہوتی ہے ۔انصاف کے نفاذ سے
معاشرہ مستحکم ہوتا ہے۔امن و امان قائم ہوتاہے۔ہر ایک کی جان ،مال ،عزت،وآبرو
محفوظ ہوتی ہے۔آپس میں محبت ہمدردی اخوت بڑھتی ہے۔جس کے نتیجے میں مالی
خوشحالی اورافزائش رزق ہوتی ہے۔زمین اپنے خزانے اگلتی ہے۔تو آسمان سے باران
رحمت کانزول ہوتا ہے۔قرآن کریم میں اﷲ کا ارشاد ہوتاہے۔اگر بستی و الے لوگ
ایمان لائیں اور اﷲ سے ڈریں تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروزے
کھول دیں گے۔مگر انہوں نے جھٹلایا تو پھر ہم نے ان کو ان کی کرتوتوں کی وجہ
سے پکڑ لیا۔اس ارشاد الٰہی سے واضح ہوتا ہے کہ اﷲ کے قانون کو نافذ کرنے سے
برکتوں اور رحمتوں کانزول ہوتاہے۔جب کہ اس سے اعراض کرنا سراسرنقصان اور
تباہی کا پیش خیمہ ہے۔در اصل اﷲ کا قانون ہر افراط وتفریط سے پاک متوازن
قانون ہے۔جس میں اﷲ نے انسان کی فطرت کے مطابق اصول واحکام دیئے ہیں اور وہ
ہیں بھی قابل عمل۔انسانی ہمت سے بڑھ کر بھی نہیں ہیں۔کیونکہ اﷲ تعالیٰ کسی
نفس پر اس کی ہمت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔اگر انصاف اورقصاص کا اہتمام
نہ کیا جائے تواﷲ کی رحمت ایسے معاشرے پر سایہ فگن نہیں ہوتی وہاں ظلم کا
راج روز بروز مضبوط ہوتا ہے اگر پنجاب حکومت قصور میں ہونے والے پہلے واقعے
پر نوٹس لے لیتی اورمجرموں کی نشاندہی کے بعد انہیں عبرت کی سزا دے دیتی تو
بیٹی زینب ظلم کا شکار نہ بنتی مگر ایک بعد ایک جرم سامنے آتا گیا اور
حکومت سوئی رہی ،افسوس درافسوس۔
بیٹی زینب اﷲ تعالیٰ سے کس کا شکو ہ کرے گی ؟ بیٹی زینب کس کا گریبان پکڑے
گی ؟ ۔۔۔ان تمام سوالوں کاجواب نااہل حکمران ہیں جو سالہاسال سے وطن عزیز
کی باگ دوڑسنبھالے ہوئے ہیں ان کی نا اہلی اورلاپرواہی کی وجہ سے معصوم
بچیاں ظلم کا شکار ہورہی ہیں اوریہ اپنے اقتدار کے لیے رسہ کشی کررہے ہیں
ان زندگیاں وطن عزیز میں لوٹ مار کرتے ہوئے گزری ہیں اس کے باوجود اقتدار
سے سبکدوش ہونے کو تیار نہیں ہیں بیٹی زینب میں نہیں پوری قوم شرمندہ ہے ،شرمندہ
قوم کے قائدین بھی اس ظلم پر سراپا احتجاج ہیں ،حسب سابق جے آئی ٹی بنا دی
گئی ہے ،اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے واقعہ کا ازخود نوٹس لے لیا گیا ہے ،آرمی
چیف نے پاک فوج کو پولیس کی رہنمائی کے احکامات جاری کردیے ہیں ۔ہرطرف درد
ہی درد بکھرا پڑا ہے ۔
بیٹی زینب معذرت کے ساتھ وطن عزیز کے اندر ایک بھی حکمران حجاج بن یوسف
جیسا نہیں جو ایک مسلمان بیٹی کی پکار پر اعلان جنگ کرتے ہوئے درندوں کو
عبرت ناک سزا دے تاکہ آئندہ کوئی ظالم اس فعل بد کا مرتکب نہ ہو مگر یہاں
تو قوم کے محافظ قوم کے راہزن ہیں عوام کو تحفظ دینے والے محافظین لوٹیروں
اوراشرافیہ کی حفاظت اور انکے پرٹوکول پر معمور ہیں اور قوم کی بیٹیوں کی
عزتیں لوٹنے والے درندے قانون کے شکنجے سے آزاد ہیں یہاں پر چند خاندان کی
بیٹیوں کو ہی صرف بیٹیاں سمجھا جاتا ہے یہاں انصاف برائے فروخت ،خانوادے کے
نزدیک شریعت برائے فروخت ،ملاکے لیے فتوئے برائے فروخت ،جامعات میں ڈگریاں
برائے فروخت ۔سچی بات یہ ہے کہ ان فروخت فروشوں کے نزدیک ہر چیز برائے
فروخت ۔ستم ظریفی پر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم ڈاکوؤں اوررہزنوں کو اپنا
راہرواور رہنما منتخب کرتے ہیں بحثیت قوم ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی چوروں
اورڈاکوؤں سے اپنی جان چھڑانی ہوگی اور حقیقی عوامی نمائندوں کا انتخاب
کرنا ہوگا،اورظالموں کو ان کے کیے پرسخت سزا دلوانی ہوگی اگر ایسا نہ ہوا
تو اپاہج حکمرانوں کے ساتھ ساتھ اس اپاہج نظام کے خلاف بھی آواز بلندہوگی ۔ |