زینب منتظر ہے

2جنوری 2018 کو یہ خبر دیکھی کہ سپریم کورٹ نے 5 سالہ بچی سے زیادتی اور قتل کے ملز م کی سزائے موت ختم کر دی ،سب سے پہلے جو خیال ذہن میں آیا وہ یہی تھا کہ وطنِ عزیز میں انصاف کی تعریف دراصل وہ ہی ہے جو چند لوگوں کے فہم اور ادراک کے مطابق درست ہو ، ان مُٹھی بھر لوگوں کو اشرافیہ کہہ لیں، مقننہ ، عدلیہ یا انتظامیہ کہہ لیں ، باقی آپ میں ہم سب جنہیں عام عوام کہا جاتا ہے انکی عقل ، سوچ اور فیصلہ سازی محض ووٹ ڈالنے تک محدود ہوتی ہے ۔ اُسکے بعد ہماری وُقعت صرف مایوس کن اقدامات اور فیصلوں پر واویلا مچانے اور خاموش ہونے تک محدود ہو جاتی ہے۔

بہرحال یہ تو بڑے لوگ جانتے ہونگے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نامی خطے میں جہاں ایک طرف اسلام شرعی سزاؤں کے نفاذ کے حوالے سے بھرپور منطقی دلائل دیتا ہے اور دوسری طرف جمہوریت سے براہ راست منسلک بلکہ یوں کہہ لیں کہ جمہوریت کی جان ، عوام ، کی بڑی تعداد شرعی سزاؤں کے نفاذ کے حوالے سے پوری طرح متفق ہے وہاں قانون سازی کرنے والے ادارے ، قانون نافذ کرنے والی انتظامیہ اور آئین کے مطابق فیصلے کرنے والی عدلیہ کیوں اپنی من مانی کرتی ہے ، ان چند لوگوں کو "نفرت جُرم سے ہے مُجرم سے نہیں" جیسے جُملے میں ایسا کیا پہلو نظر آگیا ہے کہ یہ ظلم و زیادتی کا نشانہ بننے والے سے زیادہ جُرم اور ظلم کرنے والے اصلاح کی آڑ میں اپنے لوگوں کی جان ، مال ، عزت ، آبرو داؤ پر لگادیتے ہیں، یہ مظلوم کو انصا ف دلانے کی کوشش کرنے سے پہلے مُجرم سے اظہار ہمدردی کے مرتکب ہونے لگتے ہیں، یہ جبر و تشدد کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنانے کی بجائے ایسے ناسُور کو پالنے لگتے ہیں اور نتیجتا معاشرے میں جابجا مُجرم دندنانے لگتے ہیں جبکہ کہیں بنتِ حوا اپنی عزت گنواتی ہے، کہیں جان گنواتی ہے ، کہیں مزدور امراء کی گاڑیوں کے نیچے آکر کُچلے جاتے ہیں، کہیں بہن کی ناموس پر پہرہ دینے والے بھائیوں کو موت کی ابدی نیند سُلا دیا جاتا ہے تو کہیں کروڑوں لوگوں کی دن رات کی محنتوں کا ثمر اقتدار میں آکر لوٹ لیا جاتا ہے لیکن ہماری تاریخ گواہ ہے ، کہیں بھی مُجرم نشانِ عبرت نہیں بنا، کہیں بھی جُرم کا استیصال نہیں کیا جاتا ، کہیں بھی ظالموں کی حوصلہ شکنی کے لیے قانون میں ترامیم نہیں کی جاتیں ۔

ننھی زینب کی مُسکراتی تصویر دیکھ کر آنکھیں اشکبار ہیں، حالات اِس نہج پر آچکے ہیں کہ اب توقع کرنا صرف بیکار ہی نہیں بلکہ گناہ ہے، دعوت فکر دینا چاہتا ہوں ان لوگوں کو کہ جن کے نزدیک یہ پورا معاشرہ مہلک اور رذیل نفوس پر مشتمل ہے ، ایسا نہیں ہے، ایسا قطعا نہیں ہے ، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو کل رات ہونے والے ظلم ِ عظیم کے بعد آج کے دن میں اُس معصوم کلی کی لطافت کو تہ و تیغ کرنے والے ملعون کے خلاف لوگوں کا جمِ غفیر نعرہ حق نا بُلند کر رہا ہوتا ، لوگ رات کو افسوس کرنے کے بعد دن میں اپنی مصروفیات میں مگن ہو جاتے اور زینب کے لواحقین کے غم میں پورا ملک یوں شریک نہ ہوتا لیکن یہاں بھی اُنہی فیصلہ ساز قوتوں نے احتجاج کرنے والوںکو فائرنگ کا نشانہ بنا کر یہ ثابت کیا کہ "نفرت جُرم اور مُجرم سے نہیں مظلوم سے ہے"، نفرت اس سے ہے جو لُٹ جانے کے بعد روئے، آہ وبکا کرے ، انصاف کا مُتلاشی ہو ۔

آئیے، خُدارا اپنی اپنی زینب کی جانب ایک تفکر سے بھرپور نظر ڈالتے ہیں، یہ سوچتے ہیں کہ اگر بات محض چند اداروں ، شخصیات اور صاحب اقتدار لوگوں کے حوالے کرنے سے بن جاتی تو ا س ملک میں روزانہ اوسطا 11بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ نا بنایا جاتا، 11 میں سے اوسطا 8 کو زیادتی کے بعد قتل نا کیا جاتا، اسی ضمن میں فیصلہ سازی کرنے والوں نے درست فیصلے کیے ہوتے تو زینب کی جانب بڑھنے والے شیطانی ہاتھ کسی پہلے قاتل کی لٹکتی لاش سے اپنا انجام گناہ کرنے سے پہلے اخذ کر لیتے ، آئیے کہ ہمیں اب مزید کوئی زینب نہیں گنوانی ،اگر اخُدا نخواستہ اس معصوم بچی کی کوئی اور سہیلی انہی حالات کا نشانہ بننے کے بعد اُس تک پہنچی تو زینب بہت مایوس اور ناراض ہو گی۔ زینب منتظر ہے کہ ہم اس کے قاتل کو تختہ دار تک پہنچائیں۔
 

Sufi Nouman
About the Author: Sufi Nouman Read More Articles by Sufi Nouman: 16 Articles with 13323 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.