عظمت علی رحمانی
﴿ سرکاری تعلیمی اداروں کی بہتری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے
کمرشلائزیشن کے خاتمے کے لئے طلبہ تنظیمیں کا وجود ناگزیرہے﴾
طلبہ تنطیموں پر پابندی کوکم و بیش 31 برس بیت چکے ہیں، جمہوری حکومتیں
منتخب ہوئیں، آمریت کے دن بھی چلے گئے مگر نہ ہوئیں تو طلبہ تنظیموں و
یونین پر پابندی ختم نہ ہوئی،یہ تو سن ہی لیا تھا کہ طلبہ تنظیمیں طلبہ اور
انتظامیہ کے درمیان پُل کا کردارادا کرتی ہے مگر یہ دیکھ بھی لیا کہ یہی
طلبہ تنظیمیں اپنے بنیادی حق سے محروم بھی ہیں،یاد کیجئے کہ طلبہ تعلیمی
اداروں میں الیکشن کے ذریعے ایک سال کے لئے عہدیداران کا انتخاب کیا کرتے
تھے مگر یہ غالبا فروری 1984ء میں پہلی بار تھی،جب جنرل ضیا ئالحق کے دور
میں طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کر دی گئی۔
مارچ 1984ء میں ایک بار پھر وفاقی حکومت کی جانب سے یونیورسٹیوں اور کالجز
میں ادارہ سربراہان کی اجازت سے طلبہ کونسلز اور سوسائٹیز قائم کرنے کی
اجازت دے دی گئی مگریہ شرط رکھی گئی کہ ان کونسلز،سوسائٹیز کے سربراہوں کا
چناؤ متعلقہ وائس چانسلر یا پرنسپل نے اپنی مرضی سے کرنا ہے،اس فیصلے کو
سِرے سے مسترد کر دیا گیا تھا،جس کے بعد 1985ء میں سندھ کے اندر طلبہ
یونینز پرعائد پابندی اٹھائی لی گئی جس کے بعد کراچی کیزیادہ ترکالجز میں
الیکشنز کا انعقاد کیا گیا تاہم جامعہ کراچی میں حکومت مخالف مظاہروں کی
وجہ سے الیکشن منعقد نہ ہو سکے،بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد
2 دسمبر 1988ء کوقومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے طلبہ تنطیموں پرعائد
پابندی کو ختم کر نے کا اعلان کیاتھا جس کے بعد 1989ء تک پورے مُلک میں
طلبہ تنظں ہو بحال ہو گئیں تھیں، اسی سال مُلک کے بیشتر تعلیمی اداروں میں
انتخابات کا دوبارہ انعقاد بھی ہوا تھا۔91-1990ء میں سندھ میں لسانی فسادات
ہوئے جس کے باعث اور بالخصوص پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن اور آل پاکستان مہاجر
سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی باہمی لڑائیوں کی وجہ سے سندھ میں یونین کے الیکشن
کا انعقاد ممکن نہ ہو سکا تھا،اسی طرح 1992ء میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن
اوراسلامی جمعیت طلبہ کی باہمی لڑائیوں کے باعث لاہور سمیت پنجاب کے دیگر
حصوں میں طلبہ تنظیموں کے انتخابات کا انعقاد نہیں کیا جا سکا۔2008ء میں
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں طلبہ تنظیموں کو100 دن کے
اندر اندر بحال کرنے کا اعلان کیا، لیکن یہ معاملہ آج بھی جوں کا توں ہے۔
﴿طلبہ کی وجہ سے پابندی عائد ہوئی،طلبہ ہی پابندی کے خاتمے کی جدو جہد
کریں﴾
ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد کے پیش نظرسپریم کورٹ آف پاکستان نے از خود نوٹس
لیتے ہوئے یکم جولائی 1992ء کو اپنے عبوری حکم نامے میں تعلیمی اداروں میں
سیاست کو غیر قانونی قرار دے دیا اور حکم دیا کہ داخلے کے وقت طلبہ کے
والدین سے یقین دہانی لی جائے کہ ان کا بچہ سیاست میں ملوث نہیں ہو گا اور
اگر کسی بھی وقت سیاست میں ملوث پایا گیا تو اسے بغیر کسی نوٹس کے ادارے سے
فارغ کر دیا جائے گا۔1993ء میں ایک بار پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کے 3
رکنی بنچ نے طلبہ تنظیموں کو بحال کردیا تھا اس وقت اس بینج کی سربراہی چیف
جسٹس افضل اﷲ کر رہے تھے۔1995ء میں لاہورسمیت پنجاب کے دیگر حصوں میں
دوبارہ یونین کے انتخابات کا انعقاد ہوا لیکن انتخابات کے دوران اور بعد
میں ہونے والے پرتشدد واقعات کی وجہ سے بگڑتے ہوئے امن و امان کے سبب حکومت
نے ایک بار پھر طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کر دی یہ پابندی مشرف دور میں
بھی برقرار رہی تاہم بعدازاں جب 2008ء میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے
قومی اسمبلی میں طلبہ تنظیموں کو 100 دن کے اندر اندر بحال کرنے کا اعلان
کیا توا س کے بعد اس سلسلے میں قومی اسمبلی کے ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی
بنائی گئی، جس نے طلبہ تنظیموں کی بحالی کے حوالے سے سفارشات مرتب کرنی تھی
لیکن کمیٹی نے اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہ دکھائی اور تنظیموں کی بحالی
اعلان سے آگے نہ بڑھ سکی۔اس کے علاوہ سابق گورنر خیبر پختون خوا اویس غنی
اور یونیورسٹیز کے زیادہ تر سربراہان نے امن و امان کی صورتحال کے پیشِ نظر
طلبہ تنظیموں کی زبردست مخالفت کی اور یہ معاملہ آج تک جوں کا توں ہے۔
﴿ایم ایس اوپاکستان وفاق میں ہونے کی وجہ سے اپنا کردار ادا کرسکتی ہے﴾
طلبہ تنظیموں کے اس اجمالی تاریخ سے ہر طالب علم اور خصوصا کسی بھی طلبہ
تنطیم سے منسلک رکن یہ سوچ ر کھتا ہے کہ اسے سیاست کا حق ملنے چاہئے مگر یہ
بھی ہر رکن و طالب کو معلوم ہے کہ یہ پابندی انہی یا انہی جیسوں کی وجہ سے
لگی ہے لہذا اس پابندی کو اب ختم بھی یہی طلبہ کرسکتے ہیں مگر اب یہ اختتام
احتجاجوں سے نہیں حکمت و تدبر سے ہو گا،یہ یاد رہے کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ
کا ہے جس کے خلاف احتجاج بھی نہیں کیا جاسکتا اور اس کو غیر آئینی کہہ کر
اس کے لئے آئینی دلا ئل کے علاوہ زمینی حقائق نہیں لائیجاسکتے،سابق طلبہ
لیڈر بھی اس بات پر متفق ہیں کہ طلبہ تنظیمیں بحال ہونی چاہیئے یہ اور طلبہ
تنظیموں کی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہ ماضی کے طلبہ تنظیموں کے رکن اب
عدلیہ،مقننہ اور انتظامیہ سمیت صحافتی حلقوں میں بھی موجود ہیں جن سے تعاو
ن حاصل کرتے ہوئے خود سپریم کورٹ سے استدعا سمیت دیگر ذرائع استعمال کئے
جاسکتے ہیں۔
طلبہ تنظیموں کا کم از کم ایک فائدہ تھا کہ ان کی موجودگی میں تعلیم
کمرشلائز ضرورتھی مگر کمرشلائز تعلیمی اداروں کو رویہ سفا کانہ نہیں تھا،
تنظیموں کی عدم موجودگی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے فیسوں میں اضافے ہو چکے،ان
پڑھ مالکان نے تعلیمی ادارے بنا کر کمائی کے دھندے کھول لئے،سرکاری تعلیمی
اداروں میں کرپشن کو فروغ مل گیا،تعلیم کو صنعت کے طور پر بنا دیا گیا،جس
کی وجہ سے مالکان خسارہ نہیں ہر صورت نفع کے خواہشمند ہیں۔میں امید کرتا
ہوں کہ سب سے زیادہ وفاق میں سرگرم مسلم اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن پاکستان(ایم
ایس او) طلبہ یونین سے پابندی کے خاتمہ کے لئے اور تعلیمی اداروں میں
کمرشلائزیشن کو روکنے اور سروسز کے تحت اداروں کو چلانے کے لئے اپنا کردار
ادا کرے گی اسی میں طلبہ اورتعلیمی اداروں کو روشن مستقل وابستہ ہے۔ |