ترائن کی پہلی لڑائی میں سلطان شہاب الدین غوری نے
اپنے سرداروں اورسپہ سالاروں کے بھاگنے اور شکست کے باعث ان پر سخت غصہ اور
برہم ہوا۔اور واپس غزنی آکر دن کا چین اور رات کا آرام چھوڑ کر ایک زبردست
لشکر تیار کرنا شروع کیا۔یوں ایک سال کی جدوجہدکے بعد اس نے ایک لاکھ سے
زائد ترکوں ، خلجیوں اور افغانیوں کا لشکر تیار کر لیا۔ہندوستان کے راجاؤں
کو پہلے یہ قوی امید تھی کہ مسلمانوں کا سلطان شکست کھانے کے بعد دوبارہ
ہندوستان کا رخ نہیں کرے گا۔لیکن ان کی اس اُمید کو دھچکا اس وقت لگا جب
انہیں یہ اطلاع ملی کہ اسلامی لشکر پشاور سے ہوتا ہوا ملتان پہنچ گیا
ہے۔ملتان میں چند روز قیام کے بعد سلطان شہاب الدین غوری نے اپنے لشکر جرار
کے ساتھ لاہور میں پڑاؤ ڈالا۔یہاں پہنچ کر اس نے اپنے ایک خاص اور قابل
اعتماد سپہ سالار رکن الدین حمزہ کوراجہ پرتھوی راج اور ہندوستان کے دیگر
امراؤں اور راجاؤں کو اسلام کی دعوت کا پیغام دے کر اجمیر روانہ کیا۔اس
دعوت کے جواب میں راجہ پرتھوی راج نے اسلام اور مسلمانوں کے سلطان کے لئے
نازیبہ الفاظ استعمال کیے اور رکن الدین حمزہ کو اپنے دربار سے باہر نکال
دیا۔ساتھ ہی پرتھوی راج نے اپنی مدد کے لئے ہندوستان کے تمام راجاؤں کوخطوط
لکھے۔جن کے ملتے ہی سارے راجہ اپنے اپنے لشکروں کے ہمراہ مدد کے لئے روانہ
ہوگئے۔یوں پرتھوی راج ایک سو پچاس راجاؤں اور تین لاکھ راجپوتوں کا لشکر
جمع کرنے میں کامیاب ہو گیا۔اور 588 ھجری میں اجمیر سے نکل کر دریائے
سرسوتی کے کنارے ترائن کے میدانوں میں خیمہ زن ہوا۔دوسری طرف اسلامی لشکر
بھی ترائن کے میدان میں حق و باطل کے معرکے کے لئے جا پہنچا۔
ہندوستان کے راجاؤں نے آپس میں یہ عہد کیا کہ جب تک مسلمانوں کو بالکل ختم
نہ کر لیں اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔اور ساتھ میں صلاح و مشورے کے
بعد سلطان کو ایک خط لکھ کر روانہ کیا۔ جس میں تحریر تھا۔
’’ ہم ہندو راجاؤں کے لشکر کی کثرت اور قوت تو تمہیں معلوم ہوگئی
ہوگی۔ہمارے ساتھ جس قدر لشکر ہے وہ تمہیں اور تمہارے لشکر کو تباہ و برباد
کرنے کے لئے کافی ہے لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی۔ اب بھی ہندوستان سے
جنگجو ہمارے لشکر میں شامل ہورہے ہیں۔ہم تم پر رحم کھا کر واپس جانے کا
مشورہ دیتے ہیں ۔ جس میں تمھاری بھلائی ہے۔ ورنہ یاد رکھو کل صبح ہم اپنے
تین ہزار ہاتھیوں اور بے شمار لشکر کے ہمراہ حملہ کردیں گے اور نتیجتاً
تمہیں ذلت اور رسوائی کے ساتھ بھاگنا پڑے گا ‘‘۔
خط پڑھ کر پہلے توسلطان شہاب الدین غوری غضب ناک ہوا ، لیکن بعد میں اس نے
ایک شاطرانہ جنگی چال چلی اور خط کا جواب یوں دیا۔
’’ آپ لوگوں کا خط محبت اور ہمدردی کے جذبات سے بھر پور ہے۔لیکن میں اپنے
بھائی غیاث الدین کی وجہ سے مجبور ہوں اور اس کا یہ حکم ہے کہ میں تم لوگوں
سے جنگ کروں۔ البتہ مجھے اتنی مہلت مل جائے کہ میں اپنے بھائی کو آپ کے
لشکر کی کثرت اور قوت کے متعلق بتا دوں تو ہوسکتا ہے جنگ کی نوبت نہ آئے
‘‘۔
سلطان کے اس جواب سے ہندوستان کے راجاؤں نے یہ سمجھا کہ مسلمانوں کا لشکر
بہت کمزور ہے اور اپنی کثرت اور طاقت کے گھمنڈ میں آکر مسلمانوں کی طرف سے
غافل ہوگئے۔دوسری جانب سلطان نے اپنی جنگی تیاریوں کو حتمی شکل دی اور لشکر
کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔صبح سویرے سلطان کے لشکر نے راجاؤں کے لشکر
پر اچانک حملہ کر دیا اور انہیں سنبھلنے کا موقع نہ دیا جس سے انہیں ناقابل
تلافی نقصان پہنچا۔راجاؤں کے لشکر میں تین ہزار ہاتھی تھے جو کہ مسلمانوں
کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ تھے۔چناچہ سلطان نے اپنی پلاننگ کے مطابق آہستہ
آہستہ پیچھے ہٹنا شروع کیا اور ایک تیر انداز دستے نے ہاتھیوں پر تیراندازی
شروع کردی اور ان کے آگے بڑھنے کی رفتار کو کم کر دیا۔سلطان کے لشکر کو
پیچھے ہٹتا دیکھ کر راجاؤں نے یہ سمجھا کہ مسلمان پسپا ہورہے ہیں اور
راجاؤں کا نصف سے زائد لشکر ہاتھیوں سے آگے نکل آیا۔ایسی صورت حال میں
اسلامی لشکراﷲ اکبر کے نعروں کے ساتھ دشمن پر ٹوٹ پڑا، اور ترائن کے میدان
میں ایک خوف ناک جنگ چھڑ گئی۔اسی دوران مسلمان لشکر نے ایک بار پھر تیر
اندازی تیز کردی جس سے ہاتھی زخمی ہوگئے اور پیچھے کی طرف پلٹے اور اپنے ہی
لشکر کو روندتے ہی چلے گئے۔ایسی صورت حال مسلمانوں کے لشکر کے لئے بڑی
حوصلہ افزا تھی اور ان کے پے درپے حملوں میں پرتھوی راج کے بھائی گوبندرائے
سمیت بہت سے راجہ جہنم واصل ہوئے۔ اس لڑائی میں پرتھوی راج بھاگ نکلا لیکن
اس کی بد قسمتی سے وہ مسلمان لشکر کے ہاتھوں دریائے سرسوتی کے کنارے پر
پکڑا گیا۔ جب اسے سلطان کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے پرتھوی راج کو قتل
کر دیا۔یوں ترائن کی دوسری لڑائی کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوگیا۔ |