تحریر: عائشہ صدیقہ ،سیالکوٹ
اسلام ہمیں بچوں سے شفقت و نرمی کا حکم دیتا ہے۔ بچے کسی بھی معاشرے کا سب
سے اہم اور حساس حصہ ہوتے ہیں، جنہیں مستقبل کا معاشرہ تشکیل دینا ہوتا ہے۔
اسی طرح ہمارے رویے ان کے شفاف ذہنوں پر نقش ہوجاتے ہیں۔ آج ہم ان کے ساتھ
جیسا سلوک کریں گے۔ وہ کل کے معاشرے کا آئینہ دار ثابت ہوگا۔ بد قسمتی سے
معاشرے میں بچے بہت سی زیادتیوں کا نشانہ بن رہے ہیں جس کے باعث وہ معاشرے
یا افراد کے لیے محبت کے بجائے تناؤ محسوس کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک پہلو لے
پالک اور یتیم بچوں سے متعلق ہے۔
بلاشبہ یتیم کی کفالت کرنے والے کے لیے اسلام میں بہت فضیلت ہے۔ مگر ہمارے
ہاں ایک عام رواج ہے کہ بے اولاد جوڑے اپنے رشتے داروں یا جاننے والوں میں
سے کسی کا بیٹا یا بیٹی گود لے لیتے ہیں۔ یہ عمل شرعی طور پر دَرْست نہیں
ہے۔ یعنی ایک ایسا بچہ جو یتیم ہے نا ہی لاوارث مگر اسے اپنی خواہش کے لیے
اس کے والدین سے جدا کر دیا جاتا ہے۔ پھر ظْلم یہ کہ اس کی ولدیت بھی بدل
دی جاتی ہے۔ اصل والدین کون ہیں اس بات کو عموماً صیغہ?ِ راز میں رکھا جاتا
ہے۔ جب اپنے اصل والدین (جنہیں وہ خالہ, پھپو, ماموں وغیرہ کہہ کر پکارتا
رہا) کے متعلق پتا چلتا ہے تو اس کی شخصیت کئی اْلجھنوں کا شکار ہو جاتی ہے۔
ذہن میں کئی سوال اْٹھتے ہیں جو اس پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
بعض حالات میں اسے نئے والدین میں سے کسی ایک کی بے رخی کا سامنا بھی کرنا
پڑتا ہے۔ ایسے ہی کچھ بچوں کو جب ان کے حقیقی والدین کا پتا چلتا ہے تو
والدین بچے سے مکمل دستبرداری اختیار کرلیتے ہیں کہ اب وہ جیسا ہے جس حال
میں ہے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں کیونکہ ان کے پاس اور اولادیں موجود ہوتی
ہیں۔ اس کے علاوہ بچے کو اصل والدین کی جائداد کے حق سے بھی محروم کر دیا
جاتا ہے۔ یوں ایسے بچے کی زندگی میں ایک اذیت شامل ہوجاتی ہے جسے وہ ساری
عمر نہیں بھولتا اور اکثر منفی افعال کا مرتکب ہوجاتا ہے۔
یہ بات بھی درست ہے کہ کچھ اچھے گھرانے ’’گود لیے بچوں‘‘ کو بے حد پیار و
محبت دیتے ہیں مگر اس کے باوجود کچھ سنگین مسائل ہیں جیسا کہ لے پالک بچوں
کو ان کے حقیقی باپ کے نام سے نہیں پکارا جاتا جبکہ قرآن میں واضع حکم
موجود ہے۔ ’’لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی نسبت کرکے بلاؤ۔ اﷲ کے
نزدیک پورا انصاف یہی ہے‘‘ (الاحذاب، آیت 5) ۔ اگر حقیقی باپ کا نام معلوم
نہ ہو تو دینی اعتبار سے وہ بھائی ٹھہرائے جائیں گے۔
احکام پردہ سے متعلق محرم و نامحرم کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے۔ اگر رضاعیت کے
لیے لے پالک بچے کو دودھ پلا دیا جائے تو وہ محرم ہوجاتا ہے ورنہ بلوغت کے
بعد شرعی پردے کے عام احکام لاگو ہوتے ہیں۔
بچے کی کفالت و تربیت اس کے حقیقی والدین پر فرض ہے لہٰذا اگر وہ اسے گود
دیں تو اس بات کو بھی سامنے رکھیں کہ اس کی درست تربیت نا ہونے پر وہ
جوابدہ ہوں گے۔
بچے کو اس کے اصل والدین کی طرف سے حقِ جائداد سے محروم کرنا ظلم ہے۔ اسی
طرح اگر (غیر حقیقی والدین کی طرف سے) جائداد لے پالک بچے کو ملے تو دوسرے
رشتوں کی حق تلفی ہوگی۔
اس وقت سینکڑوں ایسے بچے موجود ہیں جو ماں باپ کی فطری محبت سے محروم ساری
زندگی احساس کمتری میں مبتلہ، معاشرے کے طعنے سنتے گزار دیتے ہیں۔ کیا یہ
بہتر نہیں کہ ایک ایسے بچے کو اپنے سایہ شفقت کی آغوش میں لیا جائے جو ممتا
اور شفقت پدری دونوں سے محروم زندگی گزار رہا ہے۔
یاد رہے! یتیم بچے کو بھی اس کے حقیقی باپ کے نام سے ہی پکارا جائے گا اور
اسے شروع سے ہی با خبر رکھا جائے کہ آپ اس کے اَصَل والدین نہیں ہیں۔ شرعی
احکام کے مطابق جائداد کا صرف تیسرا حصہ آپ اپنی مرضی سے دینا چاہیں تو اسے
دے سکتے ہیں ورنہ اس کا کوئی حق نا ہوگا۔
عموما یتیم بچوں کا خیال نہیں رکھا جاتا، ان کے سرپرستوں کا دل بھی طرح طرح
کی باتوں سے برا سوچنے لگتا ہے۔ ایسی باتوں پر دھیان نا دیں بلکہ یہ سوچیں
کہ ہمارے پاک پیغمبر جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی یتیم تھے اور
یتیموں سے خاص محبت کرتے تھے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یتیم بچوں کی
پرورش کی اور صحابہ اکرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو بھی حکم دیا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ
ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری)
ہمیشہ اس بات کو نہ بھولیں کہ بچے بہت معصوم ہوتے ہیں۔ آپ ان کی جیسی تربیت
کریں گے ویسی ہی ان کی شخصیت ہوگی۔ اس کے علاوہ اپنے گرد و پیش میں ایسے
بچوں کی کفالت سے نا گھبرائیں جو آپ کی نظروں کے سامنے یتیم ہوتے ہیں۔ نا
ہی انہیں یتیم خانے کے سپرد کریں۔ اگر ہم کسی یتیم بچے کی کفالت کریں یا
انہیں اپنے گھر میں پناہ دیں تو اس سے رزق یا جگہ کم نہیں ہوگی بلکہ رازق
کا مالک تو صرف اﷲ ہے وہ ہی اصل کفیل ہے ہمارا تو وہ صرف دل آزماتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں توفیقِ عمل عطا کرے اور ان تمام لوگوں کو دنیا و آخرت میں
جزائے خیر عطا فرمائے جو یتیم و لاوارث بچوں پر دست شفقت رکھے ہوئے ہیں۔
آمین |