سالانہ دولاکھ سے زائدبچے موت کے منہ میں جارہے تھے
یعنی 40فیصدبچوں کی اموات واقع ہورہی تھی اوربچے بھی وہ جن کی عمر5سال سے
کم تھی، 24اضلاع میں موجود2ہزاردیہات سے حاصل کئے گئے پانی کے نمونوں میں
سے 82فیصدنمونے آلودہ ملے،حتی کہ چیف جسٹس کے چیمبرسے لئے گئے پانی کے
نمونے بھی حکومت کامنہ چڑارہے تھے ، پاکستان کی 80فیصدعوام مضرصحت پانی
حلقوں میں انڈیلنے پرمجبورتھی، پی سی ایس آئی آر کے مطابق
تقریباً80فیصدبیماریاں آلودہ پانی سے جنم لیتی رہیں ، پانی میں کیمیکل ،
بیکٹیریا، فاسفورس اورکیلشیئم وغیرہ کے نمکیات وافرمقدارمیں پائے گئے ،
ڈسٹری بیوشن لائنز کاگزرگندی نالیوں سے ہوتارہا، پائپ لائنوں میں جگہ جگہ
سوراخ یالیکجزکے ثبوت فراہم کیے گئے ، آلودہ پانی نے ہیپاٹائٹس ، ٹائیفائیڈ،
ڈائریا، گیسٹر، ذیابیطس، جلدی اورگردے ودل کے امراض ،پیدائشی نقائص،پیٹ
اورگلے کی بیماریاں حتی کہ کینسرجیسے موذی امراض معاشرے میں بانٹے،1.2ارب
روپے کی لاگت سے بننے والی پی سی آرڈبلیو آر لیبارٹری فنڈزکی عدم فراہمی کی
وجہ سے اپناکام انجام نہ دے سکی، وفاقی وزیربرائے سائنس وٹیکنالوجی کے بیان
نے بھی حکومت کوجھنجھوڑااوربتایاکہ پاکستان مضرصحت پانی پینے سے موت کی
وادی میں اتررہاہے مگرحکومت خاموش تماشائی بنی موت کایہ کھیل دیکھتی رہی ۔
پاکستانیوں کوسفیدزہرپلایاجارہاتھا، دودھ کے نام پرڈیٹرجنٹ پاؤڈر، پانی کے
ساتھ ساتھ سینتھک ملک، فارملین ، یوریا، سوڈیم کلورائیڈ، ہائیڈروجن ،
پیراآکسائیڈ، پنسلین، بال صفاپاؤڈر، ایمونیم سلفیٹ، لاشوں کوحنوط کرنے
والاکیمیکل اوردیگرزہریلے کیمیکلز کوعوام کی غذابنایاجاتارہا، فوڈاتھارٹی
کی کارروائیوں کے نتیجے میں دوکانداروں اورفیکٹری مالکان کوبھاری جرمانے
بھی ہوئے مگرکارپوریشن کے انسدادی عملے کی ملی بھگت سے زہربیچنے کایہ کام
ہنوزجاری تھا، دودھ میں 50فیصدتک اضافہ کے لئے بھینسوں کوآکسی ٹوسین
اوربوائن جیسے ہارمون انجکیشنزلگائے جاتے رہے حالانکہ اگر یہ انجیکشن
ملائشیامیں لگائے جاتے توپھانسی ایسے لوگوں کامقدرہوتی مگریہ توپاکستان
تھا،اس لئے سب کچھ چلتارہا، پروان چڑھتی نسل کی ہڈیوں کوکمزورکیاجارہاتھا،
دودھ کوذخیرہ کرنے کے لئے تیزاب اورخطرناک کیمیکل کے ڈرموں کااستعمال
ہورہاتھا، یہ سب کچھ لاہورجیسے شہرمیں بھی جاری تھامگر حکومت کے لب سلے رہے
، ہاتھ بندھے رہے اوروہ یہ تماشہ ہوتے سرعام دیکھتی رہی ۔
سرکاری ڈاکٹروں کی ہڑتالیں عروج پرتھیں ،ڈاکٹروں نے تنخواہ حکومت سے لینی
اورکمانااپنے پرائیویٹ کلینک میں ہوتا،انہی ڈاکٹروں اورہسپتالوں کے عملے کی
مہربانی سے بچے سڑکوں پرپیداہورہے تھے ، بڑے اکیس اضلاع کے سرکاری ہسپتالوں
میں سی ٹی سکین کی مشینیں موجودہی نہیں ،جن میں غلطی سے موجودہیں ان کی
حالت بیان سے باہرہے، سب سے بڑے سرکاری میو ہسپتال کی 31اسی طرح بالترتیب
سروسزہسپتال کی 29، جنرل ہسپتال کی 30، گنگارام ہسپتال کی 27، چلڈرن ہسپتال
کی 21اورجناح ہسپتال کی 25 مشینیں ناکارہ پڑی تھیں ۔کہنے والے نے تویہاں تک
کہہ دیاکہ سرکاری ہسپتالوں میں صرف مرنے کاہی انتظارکیاجاتاہے ، سابق
وزیراعظم نوازشریف ان ہسپتالوں کی حالت سنوارنے کی بجائے مزید50 نئی موت کی
انتظارگاہیں قائم کرنے کاعندیہ دے چکے تھے ، ہسپتالوں کی کسمپرسی اورناگفتہ
بہ حالت خودہی نوحہ کناں تھی مگرحکومت ہاتھ پہ ہاتھ دھرے محوتماشہ تھی ۔
سرکاری سکولوں کوجاری ہونے والی 27کروڑروپے کی گرانٹ سکولوں تک نہ پہنچ
پائی ، معصوم بچے کھلی چھت تلے ، خستہ حال دیواروں کے سائے میں ، بغیرپانی
کے ، دھول مٹی میں اٹے زمین پربیٹھے ، بغیراستادوں کے تعلیم حاصل کرنے میں
مگن ہیں ، نہ فرنیچرنہ واش رومز، نہ صفائی کااہتمام اورنہ ہی معیار تعلیم ،
سرکاری سکولوں کانصاب ، طریقہ تدریس اورانفراسٹرکچر مکمل طورپرتباہ
ہوچکاتھا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے 2کروڑ26لاکھ بچے سکولوں سے باہرنظرآتے
رہے، 70فیصدبچے میٹرک سے قبل ہی تعلیم کوخیربادکہنے پرمجبورہوئے،پرائیویٹ
سکولوں اوراکیڈمیوں کی بھرماراورلوٹ مارعروج پرتھی، لاہورکے 1240سرکاری
تعلیمی اداروں سمیت پنجاب بھرکے 52ہزارسے زائدسرکاری سکولوں میں حاضری
کوسوفیصدیقینی بنانے کے لئے ڈراپ آؤٹ سسٹم جاری تھامگرحکومت دیدے پھاڑے
نظارہ کرنے میں منہمک رہی ۔
قبضہ مافیانے افادہ عام کے لئے چھوڑی ہوئی جگہوں پرغیرقانونی پلازے
تعمیرکئے، شادی ہال بناکرلاکھوں کمائے، تجاوزات نے لوگوں کے راستے روکے ،
لاہورہی کے 164شادی ہال غیرقانونی قرارپائے ، 25سے 30سال سے چلنے والے
غیرقانونی شادی ہالوں پرکسی کوبھی ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہوئی، سب کچھ
حکومت کی ناک تلے ہوتارہامگرحکومت خاموش ، سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی نہ دیکھ
پائی،سب کچھ کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجودبھی کچھ نہ کرپائی،ہاں اگرکچھ
کیاتوان عدالتوں اورججزپرتنقیدجواس سلسلے کوروکنے کے لئے بڑھے، جوعوام کی
زبوں حالی دیکھ نہ پائے ، جنہیں اس ملک کی عوام کادردمحسوس ہوا ۔ان بے
دردیوں پرسپریم کورٹ کوازخودہی نوٹس لیناپڑا، اسے خودہی اس ملک میں پائی
جانے والی خامیوں کودورکرنے کابیڑااٹھاناپڑا، چیف جسٹس آف پاکستان میاں
ثاقب نثارحکومت کویوں تماشہ دیکھتے ہوئے پھرکیوں نہ کہتے کہ اگرحکومت نے
صحت وتعلیم اوردیگرعوامی مسائل کوحل نہ کیاتوپھراورنج ٹرین منصوبہ ٹھپ
کردیاجائے گا۔
غذاؤں میں ملاوٹ کرنے والے عناصرکے خلاف عدالت کوہی میدان میں کودناپڑا،
حکومت بولی توہے مگرعدلیہ کے خلاف، عدلیہ اورججزکوکڑی تنقیدکانشانہ
بنایاجارہاہے ،ان پرطعن وتشنیع کے تیربرسائے جارہے ہیں ۔ تماش بین حکومت اب
تماشہ دکھانااورلگاناچاہتی ہے مگروہ نہیں جانتی کہ جس ملک کی عدلیہ
خودمختارہووہ ملک حکومت کے ہاتھوں کبھی بھی بربادنہیں ہواکرتا ۔ حکومت کے
جھوٹے دعووں کاتسلسل کبھی ٹوٹاہے اورنہ ہی ٹوٹے گا،عملی اقدامات اٹھانا
گویا حکومت کی شان کے خلاف ہو، اب عوام کی نظریں اسی عدلیہ کی جانب ہیں جس
کے فیصلوں کوحکومتی سربراہان ردی کی ٹوکری میں پھینکنے چلے ہیں ۔یہ تووقت
ہی بتائے گاکہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے ۔ |