اﷲ تعالیٰ نے سزا وجزاکا قانون اسلئے بنایا ہے کہ اس سے
معاشرے میں انصاف کا نظام قائم ہوسکیں۔جن معاشروں میں سزا وجزا کے قوانین
پر عمل ہوتا ہے وہاں جرائم بھی کم ہوتے ہیں جہاں پر سزا ختم ہوجائے ،ان
معاشروں میں ماڈل ٹاؤن ،شاہ زیب قتل ،بلوچستان میں ایم پی اے کے ہاتھوں
پولیس پر گاڑی چڑھنا، راولپنڈی فیض آباد میں احتجاج کرنے والوں کا قتل عام
ہو یا الیکشن میں دھاندلی کے خلاف عمران خان کا دھرنا اور اس میں تشدد اور
تین آدمیوں کی قتل عام ہو ۔ان سب واقعات میں غریبوں اور بے کسوں پر ظلم ہوا
لیکن آج تک کسی کو انصاف نہیں ملا بلکہ ان واقعات میں زیادہ تر حکومت خود
ہی ملوث رہی جن کا معاشرے کو انصاف دینا ہے وہاں پر پولیس کو قاتل بنایا
گیا۔
گز شتہ رو ز پنجاب کے شہر قصور میں پیش آنے والے واقعے نے ہر زی شعور کو یہ
سوچنے پر مجبور کیا کہ آخر ہمارا معاشرہ کس طرف جارہاہے اور ایسے واقعات
کیوں ہورہے ہیں؟ زینب کے ساتھ پیش آنے والا یہ پہلا واقعہ نہیں لیکن شاید
اﷲ تعالیٰ نے ان والدین کی آہ کعبے میں سنی کہ شاید آج ہم جاگ جائے کوئی
سسٹم کو بہتر کر سکیں اور کوئی آور زینب کی ایسی موت واقع نہ ہوجائے جو موت
زیادتی کے بعد 7سالہ زینب کی ہوئی اور اس سے پہلے کئی دوسری بچیوں کی ۔واقعے
کی خبر سن کر بہت سے لوگ سڑکوں پر نکلا آئے اور احتجاج شروع کیا۔ پولیس
تھانے پر حملہ آور ہونے کی کوشش میں پولیس نے مظاہرین پر گولیا ں برسائی جس
کے نتیجے میں کئی لوگ زخمی اور دو آدمیوں کی شہادت ہوئی ۔قصور میں پیش آنے
والا یہ پہلاواقع نہیں بلکہ اس طرح کے کئی واقعات ماضی میں بھی ہوچکے ہیں
جب کہ اس سال بھی اسطرح کے بارہ کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں لیکن ایک جیسے واقعات
ہونے کے باوجود تاحال ظالم مجرم آزاد ہے اور پولیس روایاتی بیانات اور
کارروائیوں کے سوا کچھ نہیں کر سکی ہے۔ ایسے واقعات صرف ہمارے معاشرے یا
ملک میں نہیں ہورہے ہیں بلکہ اس طرح کے واقعات ہر جگہ اور ہرملک میں ہوتے
ہیں لیکن ان معاشروں میں ایک واقعے کے بعد مجرم پکڑا جاتا ہے اور ان کو سزا
دی جاتی ہے اور پھر وہاں پر ایسے گناہ اور جرم نہیں ہوتے ۔
کچھ مہینے پہلے ہمارے پڑوسی ملک ایران میں اس طرح ایک واقعہ پیش آیا کہ سات
سالہ بچی کو اغواکرنے کے بعد جنسی تشدد اور بعد میں قتل کیا گیا لیکن واقعے
کے اگلے تین روز میں پولیس نے جدید تفتیش اور آلات کے ذریعے مجرم کو پکڑ
لیا اور عدالت میں ثبوتوں کے ذریعے مجرم نے اپنا گناہ تسلیم کیا اور عدالت
نے سزائے موت کاحکم سنا دیا جس پر ایرانی حکومت نے ایسے واقعات کی روک تھام
اور دوسروں کیلئے سزا کو عبرت ناک بنانے کے لئے شہر کے ایک چوک میں کرین سے
مجرم کو لٹکا کر پھانسی دی اور یہ سارا کام دو ڈھائی مہینے میں مکمل ہوا۔
اس کو کہتے سزاوجزا کا قانون جہاں سسٹم موجود ہو تو وہاں پر پھر کسی کی
جرات نہیں ہوتی کہ وہ کسی ایسے گناہ اور جرم کا ارتکاب کریں۔
قصور میں پیش آنے والے واقعے کے کئی پہلوں ہے لیکن سب سے بڑاپہلوہمارا نظام
حکومت ہے کہ جہاں پر شریف برداران نے اپنی سکیورٹی پر دس ارب سے زیادہ خرچ
کیے ہیں وہاں پر پورے پنجاب میں عوام کی سکیورٹی پر خر چ نہیں کیے ہیں ۔
ابھی دس سال مسلسل حکومت کرنے والے اور پنجاب میں تیس سال سے حکمرانی کرنے
والے یہ کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں اس میں ہمارا کیا قصور ہے وہ سچ کہتے ہیں
کہ قصور ان کا نہیں بلکہ عوام کا ہے جو تھوڑے بہت ووٹ ان کو دیتے ہیں باقی
یہ لوگ دھاندلی سے جیت جاتے ہیں لیکن ان تیس سال حکمرانی میں انہوں نے صرف
پولیس کوقاتل اور نون لیگ جس کو اب عوام قتل لیگ کہتے ہیں اپنی حفاظت پر
مامور رکھا ہے ۔ پولیس کو قتل لیگ بنادیا ہے جو احتجاج کرنے والوں کو انصاف
نہیں بلکہ گولیاں چلا کر قتل کرتی ہے۔ کرپشن اور لوٹ مار کے ان حکمران کو
اپنے علاوہ کسی کی فکر نہیں جبکہ شہباز شریف نے عوام کو بے وقوف بنانے
کیلئے اور اپنی مشہوری کیلئے ادھر گئے اُدھر گئے ،ٹی وی پر خبریں چلا دی کہ
وزیر اعلیٰ نے نوٹس لیا اور پولیس آفسران کو عہدے سے برطرف کیا بس کہا نی
ختم ۔۔۔ نون لیگ کی سب جرائم ایک طرف لیکن انہوں نے جو پولیس کوتباہ کیا
اور اس کو ذاتی بنا دیا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ آج جد ید دور ہے
تفتیش اور مجرموں کو پکڑنا انتہائی آسان ہوا ہے جو پہلے تصور بھی نہیں کیا
جاتا تھا آج وہ ممکن ہوا ہے لیکن خدا کے فضل سے ہمارے ان حکمرانوں نے جدید
نظام اور پولیس کو بہتر نا بنانے کی قسم کھائی ہے وجہ اس کی ایک ہی ہے کہ
جب پولیس آزاد اور خود مختار ہوجائے ان کو جدید طریقوں کا پتہ چل جائے وہاں
پر سب سے پہلے ان قاتلوں کو پکڑے گی جو سیاست اور جمہوریت کا لبادہ اُڑے
ہوئے ہیں ۔
سچ تو یہ ہے کہ پولیس کو جدید اور ایک بہتر ادارہ بنانے کیلئے جو عوام کے
دکھ میں کھڑی ہو اور انصاف دے سکے وہ کسی بھی صوبے میں نہیں ہے ۔ پنجاب ،
سندھ اور بلوچستان کو چھوڑئیں ۔ تحریک انصاف اور عمران خان جس خیبر
پختونخوا کی پولیس کو مثالی قرار دے رہی ہے وہ بھی برائے نام ہے ،وہ بھی
جدید تقاضوں سے ہم اہنگ نہیں ۔ پختونخوا میں اگر سیاسی عمل داخل کم ہے اور
پولیس قاتل نہیں ہے لیکن باقی کوئی بہتر ی نظر نہیں آرہی ہے وہاں بھی
روایتی طریقہ کار موجود ہے ۔قاتلوں کو پکڑنا پولیس کا نہیں لواحقین کی ذمہ
داری ہے۔ جس پولیس کی عمران خان بات کررہے ہیں وہ ایک خواب ہے جس کو بقول
عمران خان کے اقتدار میں آکر سب سے پہلے اس کو ٹھیک کروں گاتا کہ حکومت جو
سب سے پہلے ذمہ داری ہے کہ عوام کو سکیورٹی دی جائے ، عوام کاا پنے پولیس
پر اعتبار قائم ہو تب معاشرے ٹھیک ہوسکتے ہیں ۔ جہاں پر پولیس کو سب سے کم
بجٹ دی جائے ، جہاں پر تمام ملک میں ان کی تعداد کم ہو ، جہاں پر تمام
محکموں کی نسبت ان کی تنخو اہیں کم اور مراعات نہ ہو ، جہاں کی پولیس نون
لیگ اور پیپلز پارٹی کی جاگیر ہووہاں قصور جیسے واقعات ہوتے رہیں گے ۔
مومن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک سوراخ سے بار بار نہیں ٹھسا جاتا
لیکن ہم کیسے مومن اور لوگ ہے کہ بار بار انہی قاتل پارٹیوں کو ووٹ دیتے
ہیں جن کو اپنے مفاد کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ہمیں اپنے گریبان میں جھاگنے
کی ضرورت ہے۔
|