22ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا تھر ایک بار پھر خبروں میں
ہے۔جنوری 2018کے پہلے دس روز میں تھرپارکر میں بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد
16ہو گئی ہے۔درجنوں بچے مٹھی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔یہ بچے غذائی قلت اور
دیگر امراض کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ یہ سب شیر خوار بچے تھے۔ ان کے
بے موت لقمہ اجل بننے کی وجہ قحط سالی ہے۔یہ قحظ کئی برسوں سے اس علاقے کو
اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ہسپتالوں میں طبی سہولیات کے فقدان سے بھی ان
بچوں کی جان گئی۔ تھر میں موت کا یہ رقص گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل جاری ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ سندھ کے اس غریب ضلع کے ساڑھے16لاکھ عوام کی چیخ و
پکارارباب اختیار تک نہیں پہنچ رہی ہے۔گزشتہ برسوں میں سندھ کے وزراء میڈیا
پر جھوٹ رپورٹ کرنے کا الزام لگا رہے تھے۔ تا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے بری
ہو جائیں۔ضلع کے 2325دیہات میں سینکڑوں بچوں کی اموات کے باوجود ایک رپورٹ
کے مطابق 80فی صد زچگیاں غیر تربیت یافتہ دایوں کے ہاتھوں ہوتی ہیں۔جس کی
وجہ سے ماں او بچوں کی ہلاکتوں کے واقعات بھی سامنے آتے ہیں۔ مگر بچوں کی
ہلاکتوں کی بی وجہ قحط ہے۔ گزشتہ برس سندھ ہائی کورٹ میں حکام نے اعتراف
کیا کہ 2014سے 2017کی ابتدا تک تھر میں 1340بچے انتقال کر گئے ۔ جس کی وجہ
قحط بیان کی گئی۔ عدالت کے دو رکنی بینچ نے چیف سیکریٹری ، سیکریٹری صحت
اور دیگر کو تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ تا ہم سیکریٹری خوراک نے
رپورٹ پیش کی کہ صوبائی حکومت نے تقریباً تین لاکھ گندم کے بیگ تقسیم کرنے
کے لئے وزیراعلیٰ کو سمری بھیجی ہے۔ حکومت مفت راشن تقسیم کرنے سے کیوں
قاصر ہے یا اس مسلے کا کوئی مستقل حل کیوں نہیں نکالا جا سکا ہے۔ اس بارے
میں مختلف توجیہات بیان کی جاتی ہیں۔ تا ہم سیکریٹری صحت کہتے ہیں کہ تھر
میں طبی عملے کی کمی کی وجہ سے بچے جاں بحق ہو رہے ہیں۔ تھر ضلع میں
سپیشلسٹ داکٹرز، سرجنز اور دیگر طبی ماہرین کی 517پوسٹ ہیں جن میں سے
332خالی ہیں۔ سیکریٹری صاحب نے عدالت کے سامنے جو رپورٹ پیش کی اس کے مطابق
2014سے مٹھی ضلع ہسپتال میں 4لاکھ 62ہزار بچے علاج کے لئے لائے گئے۔ جن میں
سے 341بچے غذائی کمی کی وجہ سے چل بسے۔ یہ رپورٹ بہت پہلے کی ہے۔ مگر ایسا
لگتا ہے کہ یہ آج ہی منظر عام پر آئی ہے۔
سندھ کے کئی اضلاع بارانی ہیں۔ بارش ہو گی تو یہاں زندگی کا پیہہ چلے گا۔
سارا انحصار بارشوں پر ہے۔ کوئی تالاب، بندھ، نہر، حوض بنانے کی ضرورت
محسوس نہیں کی جاتی۔ یہاں قحط سالی ہے۔ کم غذا کی وجہ سے زیادہ تر بچے موت
کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ درجنوں اب بھی ہسپتالوں میں ہیں۔ میڈیا کے مقامی
نمائیندے ہر روز درد بھری داستانیں سنا رہے ہیں۔جو میڈیا پر بھی آ رہی ہیں۔
لیکن حکمران اسے سیاسی پروپگنڈہ قرار دے کر بچ نکلتے ہیں۔ یہاں یہ ریت و
رواج بن چکا ہے کہ کسی مسلے سے بچنا ہو تو صاف کہہ دیا جاتا ہے یہ سیاسی
کھیل ہے۔ سچائی کو یوں چھپا دیاجاتا ہے۔ سندھ حکومت کبھی صاف انکار کر تی
ہے کہ تھر میں قحط سالی نہیں۔ وہ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ ہسپتالوں میں ادویات
کی قلت بھی نہیں اور نہ ہی طبی سہولیات کی کوئی کمی ہے۔ حکومت تھر کے لوگوں
کی بہتری کے لئے جان توڑ کوششیں کر رہی ہے۔ یہاں کوئی قحط نہیں اور نہ ہی
خوراک کی کمی ہے۔ ان کا اعتراف ہے کہ بچوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ مگر یہ
ہلاکتیں ان کے طبی مراکز پر دیر سے پہنچنے اور ان کو معلومات کی کمی کی وجہ
سے ہوئی ہیں۔ اگر یہسچ ہے تو گزشتہ کئی سال سے جو سیکڑوں بچے موت کے منہ
میں گئے ہیں ، کیا وہ سب ہسپتال دیر سے پہنچنے اور معلومات کی کمی کی وجہ
سے ہلاک ہوئے۔سیکریٹری صحت کا اعتراف کیا ہے۔ معلومات کی کمی اور دیر سے
علاج تک رسائی کا ذمہ دار کون ہو سکتا ہے۔ یہ کسی ایک بچے کی بات نہٰیں۔
سیکڑوں بچوں کی تڑپ کر موت کے منہ میں جانے کی دردناک کہانی ہے۔ ان کا قاتل
کون ہے۔کبھی صوبائی وزیرا طلاعات کہتیتھے کہ معلومات نہ ہونے کی وجہ
ہلاکتوں کا باعث بنی اور ان کے ہی دوست مشیر اطلاعات کہتے تھے کہ تھر میں
اگر بچے مر جائیں تو اس کے لئے سندھ حکومت ذمہ دار نہیں ہو سکتی ہے۔ وہ
کہتیرہے کہ یہ سب اﷲ کا کرنا ہے۔ حکومت ذمہ دار نہیں۔ وہ میڈیا سے ناراض
دکھائی دیئے کہ وہ بچوں کی موت کی خبریں شائع کر رہا ہے ۔ اگر دور دراز
گاؤں میں کوئی بچہ مر جائے تو ہم کیا کریں۔یہی وجہ ہیکہ گزشتہ برسوں کی طرح
آج بھی بچے مررہے ہیں۔مستقبل میں بھی مرتے رہیں گے اور ہم اسے اﷲ تعالیٰ کی
مرضی قرار دے کرقحط سالی یا علاج و معالجہ کی کمی پر قابو پانے سے آزد ہو
جائیں گے۔قحط سالی سے نپٹنے کی طرف بھی کوئی توجہ نہ دے گا اور نہ ہی
ہسپتالوں میں ادویات کی کمی پوری ہو گی۔ ان گاؤں میں چوکیدار بدستور ڈاکٹری
خدمات انجام دیتا رہے گا۔ جب وفاقی دارلحکومت سمیت بڑے شہروں میں مریض
لاعلاج مر رہے ہوں تو پھر ان دیہات کی کسے فکر ہو گی۔ آپ کے پاس پیسہ ہے تو
علاج ہو سکتا ہے۔ دوئیاں خریدی جا سکتی ہیں۔ ڈاکٹر آپ کے مریض کے آپریشن کے
لئے سرکاری ہسپتال میں مہینوں کی تاریخ دیتا ہے۔ بلکہ ایک دن میں اپنے کلنک
پر آپریشن کرنے کا عمل مکمل کر لیتا ہے۔
بلا شبہ موت اﷲ کے حکم سے آتی ہے۔ مگر خود کشی حرام ہے۔ حکومت بہانے بنا کر
عوام کو خاص کر معصوم بچوں کو تڑپ تڑپ کر مرنے کے لئے نہیں چھوڑ سکتی۔ پھر
حکمران بھی زکام ہونے پر ولایت سے علاج کرانے کے نام پر سیر سپاٹے کس منہ
سے کر پائیں گے۔ کچھ اﷲ کا خوف کریں۔ اﷲ کی مرضی سے موت ہر ایک کو آنی ہے۔
جو بچے بھوک اور افلاس کی وجہ سے تھر کے ہسپتالوں میں داخل ہوتے ہی اورعلاج
نہ ہونے کے باعث تڑپ رہے ہیں۔ کم ازکم ان کے علاج کی فکر کریں۔ جو بروقت
ہسپتال نہیں پہنچ سکتے یا جنھیں معلومات نہیں ، ان کے لئے ہی کچھ کیا جائے۔
قحط سالی کا مقابلہ کرنے کے بجائے اور عوام کو بے موت مرنے سے بچانے کے
بجائے بہانے اور جواز پیدا کر رہے ہیں۔تھر میں کوئلے کی نکاسی کے لئے کنویں
کھود کر کھارہ پانی باہر بہا دیا جاتا ہے۔ جس سے آبی آلودگی بڑھ رہی ہے۔
تحقیقات اور انکوائریاں بٹھا کر معاملات کو طول دیا جا رہا ہے۔ تھر کے
ہسپتالوں میں بجٹ دوگنا کرنے اور مختلف سکیموں کے اعلان کے باوجود چند دنوں
میں مزید ڈیرھ درجن بچے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ غربت میں کمی، تعلیم
نسواں، صاف پانی کی فراہمی، بہتر صحت و صفائی، معیار زندگی کی بلندی ، رسل
ورسائل میں آسانی علاقے میں آبپاشی وسائل کی بہتری کے بغیر ناممکن ہے۔ سندھ
ہائی کورٹ نے تھر کے متعلق ایک کمیشن مقرر کیا جس کی رپورٹ منظر عام پر
نہیں لائی گئی۔ کم از کم اس کمیشن کی سفارشات پر عمل کرنے سے بھی بچوں کو
بے موت مرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔سندھ حکومت نے گزشتہ پانچ سال میں پانی
سپلائی اور ڈرینیج سکیموں پر 29ارب روپے خرچ کئے۔اگر حکومت کا گندم کی
مستحقین میں تقسیم اور دیگر سہولیات کی فراہمی کا دعویٰدرستہے تو آج بھی
بچے غذائی قلت اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے کیوں لقمہ اجل بن رہے ہیں۔
|