’’ اندھیر نگری چوپٹ راج ‘‘کا محاورہ یا کہاوت ہم بچپن سے
سنتے چلے آرہے ہیںلیکن اس پرسنجیدگی سے کبھی اس لئے دھیان نہ دے سکے
کیونکہ ہم جس دیش میں رہتے ہیں وہاںایسی کوئی صورتحال نہیںتھی پھر بھلا اس
تعلق سے ہم کیوں کر سنجیدہ ہوتے ۔ نہ تو یہاں راجا چوپٹ تھا نہ ہی جنتاکرپٹ
تھی لیکن اب صورتحال بالکل بدل چکی ہےاور بدقسمتی سےہمارے ملک میں اب چوپٹ
اور کرپٹ نام کے دونوں ہی سکے پوری طرح رائج الوقت ہوچکے ہیں ۔ماضی بعید کی
بات تو جانے دیجئے ماضی قریب میں بھی کسی ایسے ’ چوپٹ راج ‘ کی کوئی نظیر
ہمارے سامنے نہیں جسے ہم بطور مثال پیش کرسکیں ۔کانگریس کے دور حکومت کے
ابتدائی سالوں میں بھی ہمیں اس کا تجربہ نہ ہوسکا لیکن بعد کے دنوں میں
خصوصا ً راجیو گاندھی اور نرسمہا راؤ کے زمانے میں اس کی کچھ جھلکیاںصاف
طور پر دکھائی دینے لگیں لیکن بی جے پی خاص طور سے نریندرمودی اور اترپرد
یش کے یوگی کے دور اقتدار میں یہ محاورہ اچھی طرح سے سمجھ میں آگیا اور
ملک کی موجودہ صورتحال تو خود ہی چیخ چیخ کر اس محاورےکے عملا ً رائج ہونے
کا اعلان کررہی ہےاور لوگوںکی کھلی آنکھیں چاروں اور اسی کی حکمرانی کا
مشاہدہ کررہی ہیں ۔کہتے ہیں کہ کسی جگہ ایک غریب آدمی ایک ٹوٹے پھوٹے مکان
میں رہتا تھا ، دیواریںخستہ تھیں، ایک د ن بیٹھ گئیں ۔غریب آدمی فکر مند
ہوگیا سر چھپانے کیلئے کچھ تو ہونا چاہئے ۔اخراجات میں جبری کٹوتی اور قرض
کے بوتے کسی طرح اس نے دیواریں تو کھڑی کردیں لیکن چھت نہ ڈال سکا ،اس کی
جگہ ٹاٹ پھیلاکر اس پر مٹی ڈال دی اور بچوںکے ساتھ رہنے لگا ۔علاقے میں ایک
چور بھی تھا اس نے سوچا یہ شخص ضرور متمول ہوگا ورنہ نیا مکان کیسے بنتا
،اس کے پاس رقم بھی ہوگی ،رات کو چوری کی غرض سے چھت پر چڑھا توٹاٹ پھٹ گیا
اور و ہ نیچے سوئے ہوئے مالک مکان کے اوپر گرپڑا ، مالک مکان ہڑبڑا گیا اسے
پکڑنے کی کوشش کی لیکن اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چور نکل بھاگا۔ اسے
مالک مکان پر بہت غصہ آیا کہ اس نے ایسی کمزور چھت کیوں بنوائی اگر میری
ٹانگیں ٹوٹ جاتیں تو ۰۰ ۰ اس نے بادشاہ سے شکایت کی کہ جہاں پناہ اس آدمی
کی سرزنش کریں اور سزا دیں کہ اس نے اتنی کمزورچھت کیو ں بنوائی،بادشاہ نے
کہا گھبراؤ نہیں یقینا ً انصاف ہوگا اور انصاف بھی ایسا کہ لوگ برسوں یاد
رکھیںگے ۔اس نے مالک مکان کو طلب کرکے پوچھا کہ کیا یہ بات سچ ہے کہ یہ
آدمی تمہاری چھت ٹوٹنے سے نیچے گرا ، غریب آدمی نے کہا جہاں پناہ بات تو
سچ ہے ، لیکن یہ تو اچھا ہوا کہ یہ میرے اوپر گرا ورنہ اس کی ٹانگیں ضرور
ٹوٹ جاتیں ، بادشاہ نے کہا ٹھیک ہے ہم تمہیں سزائے موت دیتے ہیں ، جلادسے
کہا اسے پھانسی پر لٹکادو ، غریب آدمی بادشاہ کے قدموں میں گرگیا اور
گڑگڑاتے ہوئے کہا حضور مجھے کیوں ،پھانسی تو چور کو ہونی چاہئے ،بادشاہ
گرجا ، چپ ہوجا تیری یہ مجال کہ میرے فیصلے سے انکار کرے میرا فیصلہ ہی
انصاف ہے ۔غریب نے من میں سوچا کہ اس طرح سےتو انصاف نہیں مل سکتا ، فورا ً
بادشاہ سے کہا حضوراس میں میری غلطی کہاں، غلطی تو اس مزدور کی ہے جس نے یہ
ٹاٹ بچھایا اگر و ہ کمزور ٹاٹ نہ بچھاتا توچور نہ گرتا ، بادشاہ نےکہاکہ
اسے رہا کرکے اس مزدور کو پھانسی دیدی جائے ۔مزدور حاضر کیا گیا ،لاکھ منت
سماجت کے باوجود سپاہیوں نے اس کے گلے میں پھندا ڈال دیا بالآخر اس نے بھی
یہ کہہ کے جان چھڑائی کہ جہاں پناہ اس میں میرا کیا قصور ،قصور تو اس ٹاٹ
بنانے والے کا ہے،جس نے اتنا کمزور ٹاٹ بنایا ، اگر ٹاٹ مضبوط ہوتا تو کبھی
نہ پھٹتا اور یہ حادثہ نہ ہوتا ، بادشاہ کی سمجھ میں یہ بات آگئی ،اس نے
مزدور کو رہا کردیا اور حکم دیا کہ ٹاٹ بنانے والے کو پھانسی دیدی جائے
کیونکہ سارا قصور اسی کا ہے ۔جب اسے پھانسی پر لٹکایا گیا ،اس نے بھی ایک
کہانی گڑھ لی اوربادشاہ سے کہا کہ حضور میں اس ملک کا ایک نامور کاریگرہو
ںمیرے تیار کردہ ٹاٹ پورے ملک میں بھروسے کی علامت سمجھے جاتے ہیں،معاملہ
یہ ہے جس وقت میں ٹاٹ بن رہا تھا میرے ایک کبوتر باز پڑوسی نے کبوتراڑادیئے
،ان کی اڑان اور قلابازیوں کو دیکھنے میں میرا دھیان کام سے ہٹ گیا اور
میرے ٹاٹ چھدرے اورکمزورہوگئے ،سارا قصور کبوترباز کا ہے ،نہ وہ کبوتروں
کواڑاتا نہ میری توجہ بٹتی ، اسے بھی بری کردیا گیا اور کبوتر باز کو
پکڑلیا گیا ،پھانسی کےتصورسے ہی اس کے اوسان خطاہوگئے آخر مجھے کیوں اور
کس جرم میں پھانسی دی جارہی ہے جبکہ میں نے کوئی جرم ہی نہیں کیا ،اس کا
واویلا کسی کام نہ آیا ۔بادشاہ کاحکم جوتھا ،انجام کار اسے پھانسی پر
لٹکادیا گیا ۔ ہوسکتا ہے یہ واقعہ محض ایک فکشن ہو لیکن ہمارے ملک کی
موجودہ صورتحال اس کے درست ہونے کی تصدیق کررہی ہے ۔بادشاہ کو گمان نہیں
پورا یقین ہے کہ وہ منصف ہے لیکن رعایا مایوس ہے وہ اس کے فیصلے سے فکر مند
اور پریشان ہے مگر بادشاہ خوش ہے ۔اس نے کہا تھا کہ اس کا انصاف برسوں یاد
رکھا جائے گا تو حقیقتا ً اس کا یہ فیصلہ برسوں یاد رکھنے کے ہی قابل ہے
۔ظاہر ہے بادشاہ کے نزدیک انصاف کا جو معیار تھااس نے اسی کے مطابق فیصلہ
دیا ۔آج جب ہم معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو انصاف کا وہی معیار چاروں اور
قائم ہے۔تین طلاق کا معاملہ خالص مذہبی معاملہ ہے جس کی اجازت آئین ہند نے
دی ہے اس میں مداخلت کا مطلب آئین سے کھلی چھیڑ چھاڑہے جو خود حکومت کررہی
ہے ۔ آج ہمارا معاشرہ بھی وہی کررہا ہے جو بادشاہ نے کیا ۔غریبوں اور
کمزوروں پر قانون کی ساری دفعات نافذ کردی جاتی ہیںلیکن امیر اس سے متثنیٰ
ہوتے ہیں۔قانون کےمحافظین دبنگوںپرقانون کے نفاذ کے بجائےاسے ہوا دیتے ہیں
بڑی بڑی عدالتوںمیں ان کا دفاع کیا جاتا ہے لیکن ان سے کوئی باز پرس نہیں
کی جاتی ۔عوام کی فلاح و بہبود کیلئے ہمارے حکمراں بڑی بڑی اسکیمیں بناتے
ہیں ،بلند بانگ دعوے کرتے ہیں ،طرح طرح کے ٹیکس عائد کرکے عوامی دولت سے
عیاشیاں کرتے ہیں اور سیر سپاٹا کرتے ہیں ۔پورا ملک مہنگائی اور بے روزگاری
سے بدحال ہے اور شرپسند عناصر گھروںگھروں گائے کا گوشت تلاش کرتے پھررہے
ہیں اور اس کی آڑ میں قتل و غارت گری مچائے ہوئے ہیں ۔دہشت گرد بے خوفی کے
ساتھ سینہ تانے گھوم رہے ہیں اور ہمار ے حکمراں مذمتی بیانات جاری کرکے
ایئرکنڈیشنڈکمروں میں غائب ہوجاتے ہیں۔ملک میں نراجیت پھیلی ہوئی ہے ، صبح
کے اخبارات روزانہ خون میں لتھڑے ہمارے ہاتھوں میں جب آتے ہیں تو اندر تک
روح کا نپ جاتی ہے ۔ عوام کا نہ کوئی پرسان حال ہے نہ مسیحا،علاج ہوتو کیسے
۔یہ ایک ایسا سوال ہے جو بار بار کچوکے لگاتا رہتا ہے، کیا زندگی کا یہی
انداز ہمیں پسند ہے کیا ہمیں گونگے اندھے اوربہرے رہنے ہی میںعافیت نظر
آتی ہے ، کیا ظلم کے خلاف خاموشی ہی میں ہمیں مسئلے کا حل نظر آتا ہے ؟
اگر نہیں تو اس کے تدارک کیلئے ہم کیا کررہے ہیں اورکون سی تدبیر اپنا رہے
ہیں۔آپ سن رہے ہیں نا ۰۰۰ |