سانحہ قصور حسین خانوالہ سے قصور کی زینب تک!

جس اسلامی ریاست میں شریعی سزاٶں کو رائج کیا جائے اس ریاست میں کوئی بھی جرم کرنے سے پہلے کڑوڑ دفعہ سوچے گا اس لئے اپنا مستقبل پرسکون بنانے کے لئے ملک میں دینِ اسلام کے نفاذ کے لئے آواز اٹھائیں ۔۔۔ آواز اٹھائیں کہ آواز اٹھانا آپکا جھموری حق ہے!

دو سال قبل قصور کے ایک بد بخت گاٶں میں ہزاروں کمسن نا سمجھ بچوں کے ساتھ بد فعلی کر کے انکو بلیک میل کرنے والے کچھ افراد کا گینگ موجود تھا جو گاٶں کے کمسن ”لڑکوں“ کو اغوا کرتے اور سپائن انجکشن لگا کر بے ہوش کرنے کے بعد انکی برہنہ ویڈیوز بناتے اور پھر ہوش میں آنے کے بعد ان ویڈیوز کو لیک کرنے کا کہہ کر ڈراتے دھمکاتےاور بچوں کو گھروں سے زیور اور پیسہ چوری کرنے اور دوسرے معصوم دوستوں کو اس گھنونے کام میں دھکیلنے پر مجبور کرتے ۔
یہ حیوانی کام ”اسلامی جھموریہ پاکستان“ میں شروع تو نہ جانے کتنے سالوں سے تھا مگر کچھ سال قبل کھل کر میڈیا کی وجہ سے عوام کی نظر ہوا۔
میڈیا نے اپنا کردار اسکے خلاف آواز اٹھا کر بھرپور طریقے سے انجام دیا چونکہ میڈیا کا کام عوام کو آگاہی دینا ہے مگر افسوس جو اسکام کی روک تھام کا پورا پورا حق رکھتے تھے جنکے پاس سو فیصد قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر قسم کے اختیارات موجود تھے اور جنکے ذمے میری، آپکی اور ہماری اولاد کی عزت، جان ومال کی ذمہ داری تھی ان ”حکمرانوں“کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور جب غریب، بے بس، لاچار والدین کے جگر کے ٹکڑوں کے ساتھ یہ سارا معاملہ کھل کر سامنے آیا تو ہمارے بڑے بڑے محلوں میں رہنے والے کند ذہن حکمرانوں نے کبھی اس وحشیانہ واقعہ کو سیاسی رنگ دیا تو کبھی فریقین کا آپس میں تنازع کہہ کر جان چھڑوائی اور آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔۔
آخر میں ایک من گھڑت کہانی ”زمین کا معاملہ ہے“ کہہ کر عوام کی نظر کی جس میں کسی قسم کی کوئی سچائی موجود نہ تھی اور اسطرح یہ معاملہ بھی ہر معاملے کی طرح دبا دیا گیا۔۔
بہرحال وہ ویڈیوز کسی طرح لیک ہوئیں جس میں سے 72کلپس کی ڈی۔ پی۔ او قصور نے تصدیق کی باقی 150 ویڈیوز کی تصدیق قصور میں موجود اک شخص نے کی جو اس واقعہ کو مانیٹر کر رہا تھا۔ ۔
اس واقعہ نے متاثرہ بچوں کے ساتھ ساتھ انکے لواحقین کو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑا ۔
لاتعداد گھروں کے چراغ بجھ گئے، ہزاروں گھر اجڑ گئے اور وہ بچے جو کل کے مستقبل کا چراغ تھے مانند پڑ گئے۔۔۔
اس واقعہ کے بعد کچھ دن معمول کے مطابق ملک کی فضا پرسکون رہی کیونکہ ہمیشہ کی طرح یہ کہا گیا کہ ”ملزمان کو سزا سنا دی گئی ہے“ اور ریت کے مطابق عوام کو چونا لگتا رہا ۔۔
پھر اسی سانحہ کے بعد درندگی کی داستان رقم کرنے والے اسی شہر قصور میں ہی 2015میں 280 معصوم کم سن نا سمجھ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ماں باپ روتے رہے انصاف کی تلاش میں بھٹکتے رہے مگر انصاف تو شائد کوئی چھلاوا ہے جو وطنِ عزیز میں کسی کے ہاتھ نہیں آتا ۔۔
اسی زیادتیوں کے گڑ قصور شہر میں11 واقعات ایسے تھے جن میں11 کمسن بچیاں درندوں کی ہوس کا نشانہ بنی نہ صرف ان سےجنسی تشدد کیا گیا بلکہ انکو کئی کئی دن اپنے استعمال میں رکھ کر قتل کر کے پھینکا جاتا رہا۔۔
حیران کن بات تو یہ ہے کہ اس گھٹیا کام میں ملزمان کا طریقہ واردات ایک ہی جیسا تھا ۔۔۔
معصوم بچیوں کو اغوا کرنا ، اپنی حوس کا نشانہ بنانا ، کچھ دن تک زیادتی کرنا اور بعد میں گلہ گھونٹ کر گھر کے پاس کچرہ کنڈی کے ڈھیر پر پھینک دینا بلکل اسی طرح جسطرح زینب کی لاش اپنے گھر کے پاس سے کچھ دنوں پہلے کچرہ کرکٹ کے ڈھیر سے برآمد ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔
سال کےآغاز میں ہی دل دہلا دینے والا واقعہ جو 10جنوری کو پیش آیا ملک میں ہونے والا کوئی پہلا واقعہ نہ تھا اس سے پہلے بھی میری غریب عوام کے والدین کی عزتیں داٶ پر لگتی رہی ہیں۔
اس سے پہلے بھی ماٶں نے مشکلوں سے جنی بیٹیاں نازوں سے پالی ننھی کلیاں اپنے دل کے ٹکڑوں کو معاشرے کے درندہ صفت انسانوں کے ہاتھوں گنوایا ہے ۔
لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ 2017 میں اسی قصور شہر میں ہونے والے وقفے وقفے سے جن11 بچیوں کا ریپ ہوا اور اس کے بعد انکا قتل ہوا ان میں سے 8 سے ذائد بچیوں کے میڈیکل ٹیسٹ میں جس ملزم کا کا ڈی۔ این۔ اے ملا وہ ایک ہی شخص تھا ۔۔

اگر میں یوں کہوں تو غلط نہ ہوں گی کہ میں ایک ایسی ”اسلامی ریاست“ سے تعلق رکھتی ہوں جس میں اسلام کا نام و نشان تک نہیں
میں ایک ایسی”جھموری ریاست“سے تعلق رکھتی ہوں جس میں جھموریت کی دیوی کو ڈر و خوف کے پنجرے میں ایک ایسے پر کٹے پرندے کی مانند قید کردیا گیا جس سے اس کی آذادی چھین لی جاتی ہے اور وہ اڑان کو ترستا ہے۔
میں ایک ایسے ”ملک“ سے تعلق رکھتی ہوں جس کے حکمران ”مفاد پرست“ ہو چکے ہیں۔
میں نے جب سے وطنِ عزیز کی گود میں آنکھ کھولی ہے تب سے نا انصافی کو ملک کی ریت جانا
قانون کو کھیل سمجھا
اور عوام کو کھلونا پایا۔۔
میں نے دیکھا کہ منتوں مرادوں سے مانگے بچے بچیاں جنہیں نو نو ماہ کوکھ میں رکھ کر مائیں جنم دیتیں ہیں
جن کے باپ انکی شوخیاں ، مستیاں دیکھتے ہیں ، لاڈ اٹھاتے ہیں
جب وہ گھر کے قریب تھوڑا دور تعلیم کی غرض سے پڑھنے جاتےہیں تو مڑ کے واپس گھر نہیں لوٹتے،
میں نے دیکھا ہے کہ بے چین ماں،باپ گمشدہ بچیوں کے غم میں کئی کئی دن نڈھال رہتے ہیں مگر کوئی انکی مدد کو نہیں پہنچتا،
میں نے دیکھا ہے کہ ملک میں دل کو چھلنی کرنے والے قصور کے انہیں واقعات کی وجہ سے سال میں دو ڈی۔پی۔او تبدیل ہوئے مگر بچیوں کے ریپ کے بعد قتل میں کوئی کمی نہیں آئی ۔۔۔
حقیقت کیا ہے حقائق کیا ہیں کون جانے؟
لیکن جھموریت کا حق رکھنے والی میں ایک پاکستانی اپنے حکمرانوں اور قانون کے ٹھیکےداروں سے سوال کرتی ہوں کہ آخر کب تک ہم ایسے اپنی اولادوں کو کھوتے رہیں گے ؟
آخر کب تک بچیاں کوڑے کے ڈھیر سے ملتی رہیں گی؟
آخر کب تک معصوم بچوں کو جنسی حراساں کیا جائے گا؟
کہاں ہے وہ چائلڈ پروٹکشن بل جو 2015میں پاس ہوا ؟
کہاں ہے بچوں سے متعلق کسی بھی قانون کا ایک بھی قدم جو بچوں کو روز مرہ ہونے والے برے واقعات اور جانوروں سے بھی بدتر واقع ہونے والی اموات سے بچائے؟
کہاں ہیں آئین کے پاسدار جس میں مجھ جیسے تمام تر عوام کی جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت کرنے والے دعویدار موجود ہیں؟
کہاں ہیں وہ جو اس ملک کے ساتھ اسکی عوام کے ساتھ ایماندر ہونے کا حلف اٹھاتے ہیں ؟
آخر کہاں ہیں؟
میں اپنا رونا کہاں روٶں ؟
میں کسکو دل کی بات سناٶں؟
ایسا لگتا ہے جیسے الفاظ کھو گئے ہوں
قلم نے ساتھ چھوڑ دیا ہو
اور امید بھی ”ناانصافی“ کے دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہو ۔۔۔۔۔
میں نے ہر شہر میں نئے طرز کے پل دیکھے
نہیں دیکھا تو غریب کا گھر نہیں دیکھا
میں نے نئی گاڑیاں متعارف ہوتے ہوئے دیکھیں
نہیں دیکھا تو غریب کا سہارا نہیں دیکھا
میں نے روشنیوں سے چمکتے دمکتے شہر دیکھے
نہیں دیکھا تو غریب کے گھر کا اجا لا نہیں دیکھا
میں نے ہر جگہ سڑکوں پر پھولوں پودوں کی سجاوٹ دیکھی جنکو روز پانی لگا کر انتظامیہ چمکاتی ہے انکی حفاظت کرتی ہے
میں نے اگر نہیں دیکھا تو اپنے ملک کے ننھے پھول پودوں کی بہتری نہیں دیکھی اپنے ملک کے بچوں کو تحفظ ملتے نہیں دیکھا کوئی ایسا نہیں دیکھا جس نے میرے ملک کے بچوں کے مستقبل کا سوچا ہو کوئی قانون ، کوئی سزا میں نے نہیں دیکھی !

میں نے نہیں دیکھا کہ ماضی میں کسی بھی کم سن بچی سے زیادتی کے بعد اسکے ماں باپ کے دل کی تسکین کے لئے مطلقہ مجرم کو سزا ملی ہو
مجھے ابھی بھی زینب کے والد کی میڈیا سے گفتگو یاد ہے جسکے الفاظ یوں ہیں
”یہ لوگ اس قابل ہی نہیں کہ انہیں انسان کہا جائے جس میں انسانیت ہو وہ بھاگ کر آتا ہے کہ یہ میری بچی ہے ۔
یہ بچیاں تو سبھی کی سانجھیں ہوتیں ہیں اگر انہیں اس چیز کا احساس ہوتا تو وہ ادھر آتے ۔حکمرانوں کے بچے قیمتی ہیں انکی جانیں قیمتی ہیں باقی تو لوگ انسان ہی نہیں باقی تو کیڑےمکوڑے ہیں انکو تو پروٹیکشن ہے آئین کے تحت تو پروٹیکشن ہمیں یے
کہاں ہے آئین؟
کہاں ہے حکومت کی پروٹیکشن؟ مجھے بتائیں کہیں حکومت کی ریٹ نظر آتی ہے ؟ اسی لئے میں نے آرمی چیف صاحب اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ اسکو دیکھیں ۔
اگر حکومت ہوتی تو ایسے واقعات ہوتے؟
کبھی نہ کوئی ایسا واقعہ ہو
صرف وہی لوگ انسان ہیں اور فرشتے ہیں باقی لوگوں کی بیٹیاں اور انکو کوئی تحفظ نہیں “
یہ دل کی آواز صرف زینب کے والد کی ہی نہیں بلکہ ہر اس عزت دار انصاف کے طالب باپ کی ہے جس کی کمسن بیٹی کو اسی معاشرے کے نامعلوم، بدکردار، ذہنی مریض انسان نما جانور نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور بعد میں قتل کر کے لاش کوڑے کے ڈھیڑ پر پھینک دی۔۔۔۔
اور انکے معصوم ، پریشان حال والدین کو آج تک انصاف نہ ملا ۔۔
نہ جانے حکومت نے ماضی میں کن افراد کو اس سانحہ قصور میں ملوث پا کر سزا دی ؟

افسوس بے حد افسوس!!!
میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ میرے وطن میں وارات کے بعد ہی کیوں کوئی جے-آئی-ٹی بنائی جاتی ہے جرم ہونے سے پہلے اسکو روکنے کے اقدامات کیوں نہیں کئے جاتے؟
حالانکہ قصور میں ریپ کا کوئی یہ پہلا سانحہ تو نہ تھا ۔
غریب ہی کیوں بے دردی سے مرتے ہیں؟
اور کیوں خادمِ اعلی مرنے کے بعد متاثرہ خاندانوں سے ملنے جاتے ہیں آخر پہلے کیوں نہیں انکے مسائل انکے موقف سنتے؟

بہت گہرے صدمے کے ساتھ میں یہ کہنے لگی ہوں کہ اگر اسی حالت کے ساتھ ہم نے اگلی زندگی بھی گزار دی تو (اللہ نہ کرے) اور نہ جانے کتنی زینبوں کے ریپ ہوتے رہیں گے اور وہ بے بسی کا لبادہ اوڑھے منوں مٹی تلے دبا دی جائیں گی ۔
اگر ہم نے دوسروں کی غلطیوں کو نصیب اور قسمت کا کھیل سمجھ کر چپ سادھی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم خود اپنے بچوں کو اس آگ میں دھکیل رہے ہیں جسکا انجام رسوائی کے سوا اور کچھ نہیں!

میری محترم عوام سے ایک گزارش ہے،
کہ چونکہ یہ ریاست ایک اسلامی ریاست ہے اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ اور رسول اللہ کے بنائے ہوئے قوانین میں ہی زندگی کی بقاء ہے تو بھلا وہ اسلامی ریاست کیسے کامیاب ہو سکے گی جہاں دین کا نفاذ ہی نہ ہو ؟
کیا آپ یہ محسوس نہیں کرتے کہ ہم سب جی تو رہیں ہیں مگر اندر سے مکمل طور پر مردہ ہو چکے ہیں اور اسکی وجہ کچھ اور نہیں صرف دین سے دوری ہے۔
ایک مسلمان ہونے کے ناطے میرا یہ ایمان ہے کہ دینِ اسلام زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے تو ذرا بتائیں اگر آج میرے وطن میں شریعی سزاٶں کا راج ہوتا تو کون مائی کا لال گناہ کرنے کے بعد دھن دھناتا پھرتا ؟
کون آئے روز بچیوں کو ریپ کرتا ؟
کون بچوں کے ساتھ بد فعلی کر کے ویڈیوز ریلیز کرتا؟
اگر شریعی سزاٶں کا تعلق میرے وطن سے ہوتا تو ہر انسان جرم سے پہلے کڑوڑ دفعہ سوچتا ۔۔
اسی لئے اگر آئندہ آنے والی زندگی پرسکون چاہتے ہیں تو اس ملک میں دینِ اسلام کے نفاذ کے لئے آواز اٹھائیں ۔
دین کی تعلیم کے لئے آواز اٹھائیں کہ دینِ اسلام کی تعلیم سے ہی معاشرے میں سدھار پیدا ہوتا ہے۔۔

اس امید کے ساتھ بات مختصر کرتی ہوں کہ آنے والوں دنوں میں ہم اس ریاست میں اسلام کا جھنڈا بلند پائیں انشا اللہ۔
ربِ کائنات سے دعا ہے کہ میری ، آپکی اور تمام تر بیٹیوں کی عزتیں محفوظ رکھیں اور ہمیں شیطانی آنکھ سے بچائیں آمین !
اور زینب سمیت اب تک وطنِ عزیز میں جتنی ننھی کلیایوں کو روندا گیا ہے انکے والدین کو صبرِ جمیل عطا فرمائیں آمین یا رب العالمین۔
آخر میں جا تے جاتے میں بھی ایک پاکستانی ہونے کے ناطے چیف جسٹس آف پاکستان سے اور آرمی چیف صاحب سے اپیل کرتی ہوں کہ سانحہ قصور کے مجرموں کو پکڑ کر کڑی سے کڑی سزا دی جائے اور انہیں عبرت کا نشان بنانے میں کوئی قصر نہ چھوڑی جائے ایک ایسی سزا ان مجرموں کی نظر کی جائے جسے تاریخ کبھی فراموش نہ کر سکے ۔۔۔
اللہ آپکا اور میرا حامی و ناصر ہے۔
طالبِ دعا
آمنہ یوسف۔

Amna yousaf
About the Author: Amna yousaf Read More Articles by Amna yousaf: 16 Articles with 18530 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.