ہمارے ہاں اس بات کو برا سمجھا جاتا ہے کہ بنا جہیز لیے
کوئی لڑکی اپنے سسرال میں جائے، اکثر اسی وجہ سے طلاق لے کر بھی واپس اپنے
گھر آجاتی ہیں کہ انکے ساتھ معقول جہیز نہیں دیا گیا ہوتا ہے جو کہ ایک
بدترین عمل کہا جا سکتا ہے اسلامی تعلیمات کے خلاف بھی ہے مگر پھر بھی اس
کا رواج عام ہے۔اکثر والدین اپنی بچیوں کی شادیوں کے لئے قر ض لے لیتے ہیں
اور پھر ساری عمر اس کو ادا کرتے رہتے ہٰں۔
دوسری طرف اگر جہیز میں کوئی شے کم رہ جائے تو پھر سے مطالبہ کر کے لی جاتی
ہے اور والدین جیسے کیسے محض اپنی بیٹی کے گھر بسائے رکھنے کی خاطر وہ
فراہم کرتے ہیں ۔جس کی وجہ سے لڑکی کا سسرال کم سے کم دیکھنے میں آیا ہے کہ
اور شیر ہو جاتا ہے اور پھر ہر شے کی ذمہ داری جو بھی اس کا خاوند نہ دے پا
رہا ہو اس کو ہی فراہم کرنے کا کہا جاتا ہے۔
اکثر لڑکیوں کو طعنہ بھی دیا جاتا ہے کہ تم آخر لے کر ہی کیا آئی ہو، اپنی
بیٹی کو چاہے تھوڑا ہی جہیز کی صورت میں ساز و سامان دیا گیا ہو مگر اپنے
بہو کے ساتھ لمبی فہرست تھاما دی جاتی ہے کہ یہ سب ہونا چاہیے۔اکثر مطلوبہ
اشیا فراہم نہ کرنے کی صورت میں رشتے بھی توڑ دیے جاتے ہیں جو کہ ایک غیر
اخلاقی فعل قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس طرح اسلام کی تعلیمات کے برخلاف کر
کے بھی ہم خود کو سچا مسلمان قرار دیتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو
‘‘۔
(الطلاق،65: 6)
یہ حکم بیوی کو رہائش کی فراہمی کو ظاہر کرتا ہے اور بعدازں طلاق عدت پر
بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے مگر یہاں یہ دستور بنا یا لیا گیا ہے کہ بیوی کو
ہی گھر کی تمام تر اشیا ساتھ لے کر آنے کا کہا جاتا ہے۔
’’حنفی فقہاء کی رائے یہ ہے کہ گھر (اور گھریلو سامان) کی تیاری خاوند کے
ذمہ ہے کیونکہ ہر قسم کا خرچہ مثلاً کھانا، لباس اور رہائش کی جگہ دینا اس
پر واجب ہے۔ اور گھریلو سازو سامان (جسے عرف عام میں جہیز کہا جاتا ہے)
رہائش کے مکان میں داخل ہے۔ پس اس اعتبار سے گھریلو سازو سامان کی تیاری
خاوند پر واجب ہوئی۔ حق مہر جہیز کا عوض نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ صرف اور صرف
عطیہ ہے جیسا کہ قرآن مجید نے اس کا نام نحلۃ (عطیہ) رکھا۔ وہ خالصتاً بیوی
کی ملکیت ہے اور خاوند پر اس کا حق ہے۔ مصادر شریعت میں کوئی ایسی دلیل
نہیں جس کی بنیاد پر گھریلو سازو سامان کی تیاری عورت کا حق قرار دیا جاسکے
اور بغیر دلیل کے کبھی کوئی حق ثابت نہیں ہوتا‘‘۔
(ابوزهره، محمد، محي الدين، الاحوال الشخصيه، السعادة القاهرة، 1985ء، 977)
شادی پر لڑکی کے والدین کا جہیز دینا کوئی شرعی حکم نہیں ہے اور نہ ہی یہ
لازمہ نکاح ہے اور نہ ہی سنت ہے۔ جہیز کا سامان مہیا کرنے کا ذمہ دار خاوند
ہے۔ گھریلو سازو سامان تو الگ رہا نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لئے خوشبو بھی مہر کی رقم سے منگوائی۔ یہ سب
کچھ تعلیم امت کے لئے تھا ورنہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر چاہتے تو
احد پہاڑ کو سونا بناکر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز میں دے دیتے۔
لیکن آج ہمارے معاشرے میں کئی ایسی رسومات پائی جاتی ہیں جن کا شریعت
اسلامی میں کوئی تصور نہیں پایا جاتا یعنی شریعت اسلامی میں نہ تو ان کا
درس ملتا ہے اور نہ ہی اس کی ممانعت ملتی ہے ایسے امور کو فقہ اسلامی کی
روشنی میں مباح کہتے ہیں ان میں سے ایک جہیز بھی ہے۔ جو ہمارے معاشرے میں
آگیا ہے اور جڑ پکڑ چکا ہے۔جس کی وجہ سے پاکستان بھر میں کئی لڑکیاں بالوں
میں چاندی لیے بوڑھی ہو رہی ہیں کہ انکے سرپرستوں کے پاس اس قدر رقوم نہیں
ہیں کہ وہ انکے لئے جہیز کا بندوبست کر سکیں۔اکثر مرد بھی اپنے گھرانے کی
خواتین کے زور پر بھی بنا جہیز شادی پر رضا مند نہیں ہوتے ہیں جو کہ ایک
لمحہ فکریہ کہا جا سکتا ہے۔
’’عورت کو اس بات پر مجبور کرنا جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند کے پاس سامان
جہیز لائے۔ نہ ہی اس مہر کی رقم سے جو خاوند نے اسے دی ہے اس کا اپنا مال
مہر جو سارے کا سارا اس کی ملکیت ہے اس میں وہ جو چاہے کرے خاوند کو اس میں
کسی قسم کا دخل دینے کا کوئی حق نہیں۔
(ابن حزم، علی بن احمد، المحلی، دارالافاق الجديده، بيروت، لبنان، 404)
کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں ہے:
’’اگر کوئی آدمی ایک ہزار روپے مہر پر کسی عورت سے نکاح کرے اور عادت یہ ہو
کہ اتنا مہر ایک بڑے جہیز کے مقابلے میں ہوتا ہو مگر وہ عورت ایسا نہ کرے
(جہیز نہ لائے) تو خاوند کو اس بات کا حق نہیں کہ اس سے جہیز لانے کا
مطالبہ کرے۔ اگر بیوی جہیز بھی لائے تو اس کی مالک بیوی ہی ہوگی خاوند کا
اس میں کوئی حق نہیں ہے۔ آدمی پر واجب ہے کہ وہ عورت کے لئے ایسی رہائش کی
جگہ تیار کرے جو ضروریات زندگی پر مشتمل ہو۔
(الجزيری، عبدالرحمن، ترجمه: منظور احسن عباسی، کتاب الفقه علی مذهب
الاربعة، علماء اکيدمي، شعبه مطبوعات محکمه اوقاف پنجاب، 2006ء، ج4، ص217)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’صحیح یہ ہے کہ خاوند بیوی کے باپ سے کسی شے کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ مال
نکاح میں مقصود نہیں۔
(مواهب الرحمن، ترجمه: مولانا سيد امير علی، فتاویٰ عالمگيری، مکتبه
رحمانيه، اردو بازار، لاهور، س،ن، ج2، ص223
کتابوں میں درج یہ باتیں سوچنے والوں کے ذہن بخوبی کھول سکتی ہیں مگر اس کے
لئے بھی حوصلہ چاہیے کہ وہ سب کچھ جان کر عمل کی طرف آئیں۔ اصل بات نیت کی
ہوتی ہے جب نیت صاف ہو تو انسان کچھ بھی کرنا چاہیے تو وہ کر سکتا ہے۔مگر
یہاں تو لوگوں کی خوشی کی خاطر بھی بسا اوقات جہیز قبول کرنا پڑتا ہے کہ
اگر ایسا نہ کیا جائے تو لوگ کیا کہیں گے کہ بیٹی کو کچھ دیے بنا ہی رخصت
کر دیا ہے۔
جہیز آخر کیوں دیا جاتا ہے اس حوالے سے دلائل سے اپنے موقف کو دینے والے
ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر حساس دل رکھنے والوں کے نزدیک جو لوگ جہیز
لیتے ہیں وہ ڈاکو ہیں جو جونک کی طرح لڑکی کا بعدازں خون چوستے ہیں کہ
والدین نے کچھ نہیں دیا ہے۔اسی وجہ سے اکثر گھرانوں میں نا چاہتے ہوئے بھی
جہیز دیا جانے لگا ہے تاکہ وہ اپنی بیٹی کو کم سے کم اس حوالے سے تو محفوظ
کر لیں کہ طعنوں سے جان بچی رہے۔
برصغیر میں ہندو رسم و رواج اسلامی معاشرے میں رچ بس رہے ہیں تبھی یہ جڑ
پکڑ چکے ہیں اس حوالے سے سب کو مل کرکوشش کرنی چاہیے کہ اس طرح کی رسم
ورواج جو کہ کسی کی زندگی کو متاثر کر رہے ہوں تر ک کر دیئے جائیں اور
اسلام کی تعلیمات کے مطابق سادگی سے زندگی کو گذارنے کی کوشش کرنی
چاہیے۔تاکہ محض اس کی وجہ سے لڑکیوں کی شادی نہ رک سکے کہ وہ جہیز لے کر
نہیں جا سکتی ہیں۔ |