قصور میں ہونے والے حالیہ افسوسناک واقعہ پر اٹھنے والے
میڈیا شور شرابے اور احتجاجی سیلاب کے ریلے میں کچھ تلخ اور سنگین پسِ منظر
حقائق غالباً بہہ کر دُور جا نکلے ہیں. یہ معاملہ بظاہر جتنا سادہ دکھائی
دے رہا ہے یا جس طرح دکھایا جارہا ہے، ہو سکتا ہے کہ اصل بات کچھ اور ہی
ہو. آئیے ماضی قریب سے اس واقعہ کا ربط تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں.
بچوں کو جنسی درندگی کا شکار بنانے کے واقعات ہمارے خطے میں کوئی نئے نہیں.
عام تھیوری یہ ہے کہ کوئی مخبوط الحواس جنونی انسان بعض محرکات کے باعث
کبھی جنسی درندہ بن گیا تو اپنی تسکین کے لئے اس طرح معصوم بچوں بچیوں کا
شکاری بن جاتا ہے. لیکن اس تھیوری میں ایک بہت بڑا خلا ہے جو یہ ہے کہ ایسا
جنسی درندہ ضروری نہیں کہ صرف کوئی جنونی یا مخبوط الحواس انسان ہی ہو بلکہ
اس وحشی پر کسی انتہائی مہذب اور معقول چہرے کا نقاب یا بہروپ بھی ہو سکتا
ہے. اگر یہ بات آپ کو سمجھنے میں دشواری کا سامنا ہے تو جان لیجئے کہ child
sex دنیا میں ایک بہت بڑی زیرزمین مجرمانہ سرگرمی بلکہ انڈسٹری ہے جس کے
"صارفین" بڑی تعداد میں مہذب دنیا کے مہذب معاشروں میں پس پردہ شرمناک
عزائم لئے چلتے پھرتے ہیں. ان "صارفین" میں بڑی تعداد متمول بگڑے رئیسوں کی
ہوتی ہے جو اپنی تسکین ہوس کی منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہیں. ان کے لئے
بھی دلال موجود ہوتے ہیں جو اس سنگین جرم کو دھندے کی باقاعدہ شکل دیتے
ہیں. تھائی لینڈ اور بھارت دنیا کے ان چند ملکوں میں سرفہرست ہیں جو Child
Sex دھندے کے لئے بدنام ہیں. یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ اس درندگی کی
تجارت کے خریدار بالعموم یورپی اور امریکی سیاح ہوتے ہیں. ظاہر ہے کہ بہت
پیسہ خرچ کرکے یہ لوگ دور دور سے یہاں آتے ہیں اور اپنی ہوس کو تفنن طبع کا
نام دے کر پورا کرتے ہیں.
اب ہم آگےچلتے ہیں اور پاکستان میں آتے ہیں. یہاں ہوسکتا ہے کہ بعض حضرات
اعتراض کریں کہ پاکستان ایسے ایک اسلامی ملک سے اس قبیح دھندے کا کیا
واسطہ؟ پہلا جواب تو یہ ہے کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ضرور ہے لیکن اسلامی
نظام کا حامل ملک نہیں ہے. اب اصل نکتے کی طرف آتے ہوئے آپ کو یاد دلاتے
ہیں کہ 90 کی دہائی کے آخر میں جاوید اقبال نامی ایک سو بچوں کے قاتل نے
پولیس سمیت مختلف اداروں کو ایک اعترافی خط ارسال کیا، اپنے جرائم کی تفصیل
لکھی اور خود روپوش ہو گیا. اس کی تلاش کے لئے اس وقت تک کی سب سے بڑی
پولیس کاروائی کی گئی لیکن ناکامی ہوئی. بالآخر اسے ایک اخبار کے دفتر میں
اعترافی بیان دیتے ہوئے پکڑ لیا گیا. اس کا کہنا تھا کہ اسے پولیس کی طرف
سے مار دئیے جانے کا ڈر تھا اور یہ کہ وہ اہم انکشافات کے لئے ازخود اخبار
دفتر پہنچا اور ما بعد گرفتاری کے لئے خود پیش ہوا. وہ دوران سماعت مقدمہ
عدالت میں بڑی پریس کانفرنس کا مطالبہ بھی کرتا رہا لیکن بدقسمتی سے اسے
اپنا بیان عوام کے لئے ریکارڈ کرانے کا موقع نہ مل سکا. اسے عدالت نے موت
کی سزا سنائی لیکن جیل میں دوران حراست "خودکشی" کے روایتی ڈرامے کی نذر
ہوگیا اور وہ جو کہا کرتا تھا کہ جب وہ بولے گا تو بڑے بڑے شرفاء کے چہروں
میں چھپا بھیانک روپ آشکار ہو جائے گا" تو وہ راز سینوں میں ہی دفن رہ گیا.
نہ صرف وہ بلکہ اس کے ساتھ گرفتار شدہ دیگر چھوٹی عمر کے کم سن ساتھی جو
جرائم کے اس سلسلے کے اہم گواہ تھے وہ بھی پراسرار طور پر موت کے گھاٹ اتار
دئیے گئے. شادباغ کی چھوٹی سی بستی میں اس کا قلعہ نما گھر یا قتل گاہ تھی
جو کہ اندر سے کسی پرتعیش محل جیسی سہولیات سے مزین تھا. اس ہولناک انکشاف
سے قبل وہاں علاقے میں بڑی بڑی گاڑیوں پر آنے والے سرکاری و غیرسرکاری
نامعلوم افراد کی آمدورفت کا قریبی باشندوں یا ہمسایوں میں چرچا رہا کرتا
تھا. یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دوران ٹرائل جائے وقوعہ سے بیانیہ اہمیت کے
نزدیکی رہائشی بھی وہاں سے نقل مکانی کر کے نامعلوم مقامات کی طرف جا چکے
تھے!
خیر یہ تو ہوا ایک پرانا واقعہ. اب 2017 میں آتے ہیں، لاہور کے ایک ہوٹل
میں 14 سالہ لڑکی سے دس افراد کی اجتماعی زیادتی کا واقعہ تو یقیناً اتنا
پرانا نہیں. مرکزی کردار ن ـ لیگ یوتھ ونگ کا عہدیدار اور کسی صوبائی وزیر
کا قریبی معتمد خاص کہا جاتا تھا. اس کیس میں مرکزی ملزم کا نام خارج کرنے
اور کیس کا رخ کئی طرح سے بدلنے کی کوشش کی گئی، انصاف نہ ملنے کی مایوسی
پر متاثرہ لڑکی نے خودکشی کی کوشش بھی کی. بالآخر لڑکی نے عدالت میں یہ
بیان دے دیا کہ اس سے زبردستی نہیں کی گئی!
اب آگے چلتے ہیں.
2017 میں ایک قصور ہی سے تعلق رکھنے والے گروہ کا انکشاف ہوا جو کمسن بچوں
بچیوں کی اخلاق سوز عریاں تصاویر و ویڈیوز انٹرنیٹ پر اور "مقامی" طور پر
فروخت کرتا تھا. اور خبروں میں صرف اتنا ہی بتایا گیا. متاثرہ خاندان کے جو
افراد اتنا حوصلہ کرسکے کہ پولیس کو شکایت کریں تو ابتداءً پولیس کی طرف سے
معاملہ دبانے کی کوشش کی گئی لیکن میڈیا اور پریس نے بات کو اچھال دیا. اب
ہم اس مظلوم بچی زینب کے حالیہ واقعہ پر آتے ہیں جس میں کم از کم آٹھ بچیاں
پہلے سے اس علاقے میں متاثر ہو چکی ہیں جبکہ فیصل آباد میں بھی اس طرح کے
کئی تازہ واقعات رپورٹ کئے جا چکے ہیں. اب تک کی کاروائی کے دوران قصور
واقعہ میں ڈی-این-اے فرانزک رپورٹ کے مطابق تنہا کسی ایک شخص کے ملوث ہونے
کی خبر جاری کرا کے معاملہ بظاہر محدود کردیا گیا ہے. فرانزک رپورٹ جاری
کرنے والے یہ سرکاری ادارے سیاسی چھتری تلے انسانی خون کو بکرے کا خون قرار
دینے کی پرانی روایت رکھتے ہیں. اس حالیہ واقعہ سے پہلے جڑے دیگر واقعات کی
شکایت پر بھی اسی طرح حسب سابق انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے عدم تعاون کا
سلوک روا رکھا گیا. یا تو متاثرہ والدین کو ناقابل برداشت شرمناک سوالات کی
بوچھاڑ سے پسپا کر دیا گیا اور یا پھر روایتی لیت و لعل سے کام لے کر بددل
اور خاموش کردیا گیا. اب تازہ صورتحال میں اگر تو یہ معاملہ پولیس کے ہاتھ
میں رہا تو زبردست عوامی اور میڈیا دباؤ کی وجہ سے غالباً ایک قربانی کا
بکرا درندہ کے لیبل سے گرفتار کرکے پیش کیا جائے گا اور اس کا حشر بھی کیا
ہوسکتا ہے آپ خود اندازہ کر لیں.
تو میں اپنے قارئین سے استدعا کرتا ہوں کہ ھوش کی آنکھیں کھلی رکھیں.
درندگی اور حیوانیت کے یہ واقعات اس وقت تک ہوتے رہیں گے جب تک اس گھناؤنے
کھیل کے تماش بین مجرم بااثر افراد کی صفوں میں گھس کر روپوش رہیں گے.
انہیں ڈھونڈ نکالنے کا سنجیدہ اقدام کیجئے اور معاشرتی امن و سکون کو ممکن
بنائیے. ہمارے بچے خوفزدہ ہو کر ہماری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں.
|