اپنا جائزہ

جب سب کو (مُجھ سمیت) زینب واقعے پر حُکمرانوں کو گالیاں دینے سے فُرصت مل جائے تو ذرا خود سے سوال کیجیئے گا کہ کبھی اپنے بچوں، بھائی، کزنز، دوستوں کا موبائل فُون/لیپ ٹاپ دیکھا ہے کہ وہ اُس میں "کیا" دیکھ رہے ہیں کبھی اُن سے پُوچھا ہے کہ اُنکے موبائل یا لیپ ٹاپ میں کونسے ایٹم بم چلانے کے یا دُنیا کی مُعیشیت کے راز محفُوظ ہیں کہ اُنہوں نے موبائل فُون پر کوڈ لگایا ہُوا ہے۔
جب 12 سے زیادہ عُمر کے لڑکے/مرد "پورن فلمیں" دیکھیں گے اور اُنہیں اپنی جسمانی ضرُوریات پُوری کرنے کے لیے "جسم" نہیں ملے گا، اور پورن انڈسٹری والے اُسکا ذہن بنا دیں گے تو ایسا ہی ہوگا۔۔۔
حُکمرانوں پر ہم یہ ملبہ گرا سکتے ہیں کہ وہ سزاء نہیں دیتے، لیکن یقین جانیئے ایسے واقعات ہماری وجہ سے ہی ہورہے ہیں، ہم نے "پرائیویسی" نام کی جو چیز اپنی زندگیوں اور مُعاشروں میں اپلائی کرلی ہے وہ وجہ ہے ایسے واقعات کی۔۔۔
ماں باپ اور بڑوں کو پتہ ہی نہیں کہ بچے کیا کر رہے ہیں، کیا دیکھ رہا ہے، اُسکا ذہن کس طرف جا رہا ہے، بس مزے سے سہُولتیں دی جارہی ہیں،۔
رہی سیکس اور جسم کی تعلیم تو اُس پر بات کرنا ہمارے ہاں ایسا ہے جیسے گالی دی جارہی ہے چُپ چُپ یہ نہ بولو شرم کرو فلاں کرو،
جبکہ پورن فلمیں جس تک ہر ہر بندے کی پہنچ ہے اُن میں آج سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی چیز سگے/سوتیلے رشتوں کے ساتھ، اور چائلڈ سیکس ہے جب وہ یہ سب دیکھیں گے تو کیا کریں گے ؟؟
لہذا حُکمرانوں اور قانُون کو ضرُور کوسیں لیکن خُداراء خُداراء اپنے بچوں، اور اپنے اپنوں کی زندگی سے یہ پرائیویسی نکال دیں، وہ جو کُچھ کررہے ہیں اُن پر نظر رکھیں، اُنہیں ٹوکیں اُنہیں سیکس کی تعلیم دیں، اُنہیں اُنکا جسم سمجھنے میں مدد کریں کیونکہ ایسے واقعات صرف تربیت سے روکے جاسکتے ہیں قانُون سے نہیں۔
نوٹ :: یہ بہت لمبا لیکن حساس ترین موضُوع ہے، مُختصر بتا دوں کہ یورپ اور امریکا نے اپنے لوگوں کو "پرائیویسی" دی، والدین نے اپنے بچوں کو بھی پرائیویسی دی اور آج وہ بھی یہ سب سہ رہے ہیں باوجُود یہ کہ یورپ اور امریکا میں سیکس کی مُکمل آزادی ہے پھر بھی ریپ، بچوں سے زیادتی کے واقعات عام سی بات ہیں، کیوں ، کیونکہ اُنہیں فلمیں دکھا کر اس طرف مائل کیا جاتا ہے اور یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ وہ کام کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اُسے منع کیا جائے یا جس تک اُسکی پہنچ نہ ہو، لہذا آج ایک بات پلے سے باندھ لیں آپکی ذات آپکے بچوں کے لیے اور اُنکی زندگی آپ کے کیے ہرگز ہرگز پرسنل نہیں ہونی چاہیئے اگر حقیقتا حل چاہتے ہیں تو اصل چیز پر فوکس کریں اور اُسے حل کریں، ورنہ نعرے سب لگارہے ہیں، ڈی پی میں نے بھی بدل لی ہے، اور حُکمرانوں کو گالیاں بھی دے لی ہیں۔
آخر میں بس اتنا کہ جب جذباتیت سے نکل آئیں تو آج ہی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں یا بچوں کا موبائل/لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ دیکھیئے گا، اُسکی گیلری اُس میں سرچ ہونیوالی چیزیں دیکھیئے گا یقین کریں 60% لوگ آج ہی جان جائیں گے کہ مُستقبل قریب میں اگلی زینب اُنکے بھائی یا بچے کی درندگی کا شکار بنے گی

Muhammad Shoaib Awan
About the Author: Muhammad Shoaib Awan Read More Articles by Muhammad Shoaib Awan: 20 Articles with 20206 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.