سانحہ قصور میں قوم کی ایک بیٹی کا قتل ایک بڑا معاشرتی
المیہ ہے ،اس قسم کے واقعات ملک بھر میں تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں ۔قصور
میں بے قصور اور معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہونے والے گھناؤنے واقعات کی
ایک لمبی داستان ہے ۔معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی اور پھر اپنے جرم
کو چھپانے کیلئے ان کا قتل معمول بن چکا ہے ۔ایسے واقعات میں اضافے کی
بنیادی وجہ مجرموں کے خلاف کارروائی کا نہ ہونا ہے ۔سانحہ قصور میں ایک
معصوم کلی کو درندوں نے مسل کر پھینک دیا اس سانحہ پر ہر آنکھ اشکبار اور
نمناک ہے ۔ بیٹی تو بیٹی ہی ہے چاہے وہ کسی امیر باپ کی ہو یا کسی مزارعے
کی ۔اس سانحہ میں معصوم بچی کی جان کا چلا جانا نہایت افسوسناک ہے لیکن اس
سے بھی بڑی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ متاثرہ بچی کی ”تصویر” بھی قومی اخبارات
میں شائع کر دی گئی ہے اس کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر
بھی بے شمار لوگوں نے مذکورہ بچی کی تصویر پوسٹ کرکے اس واقعہ کی مذمت اور
مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی مہم چلا رکھی ہے ۔حتیٰ کہ علم و ادب سے
تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات بھی بچی کی تصویر کے ساتھ شعر و شاعری کے
ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں ۔اس سانحہ کے بعد کسی ناہنجار شخص نے
اس معصوم کلی کی تصویر میڈیا پر وائرل کرکے ایک مزید ظلم ڈھایا ہے ،اس
معصوم کے ساتھ جو ظلم ڈھایا گیا وہ یقیناً تکلیف دہ امر ہے لیکن اس معصومہ
کی تصویر وائرل کرکے اس کی روح کو کو مزید اذیت پہنچائی جا رہی ہے جس کا
کسی کو احساس نہیں ہوپا رہا ،میڈیا اور عوام نے اس روش سے بچی کے والدین
اور دیگر اہل خانہ کو الگ پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔میری ناقص رائے میں
بچی کی تصویر وائرل کرنے کی قطعاً ضرورت نہ تھی ۔تصویر کے بغیر بھی اس ظلم
پر اپنے جذبات کا اظہار کیا جاسکتا تھا ۔مجرموں کو پھانسی دینے یا سرعام
گولی مارنے کیلئے معصوم کلی کی تصویر لازم نہیں ہے ۔بس ایک بات ہمیں ذہن
نشین کر لینا چایئے کہ ”قوم کی ایک بیٹی” کے ساتھ ظلم ڈھایا گیا ہے ۔ اُس
کا کوئی نام نہیں ۔۔کوئی تصویر نہیں ۔ساری قوم کا بس ایک ہی مطالبہ ہے کہ
جس نے بھی یہ ظلم کیا ہے وہ ایک ہیں یا زیادہ اُن سب کو الٹا لٹکا دیا جانا
چاہئے۔
اسلامی عدل و انصاف کا ایک اصول بالکل واضح ہے کہ ”کان کے بدلے کان اور ناک
کے بدلے ناک ۔۔۔لہذا ء اس سانحہ میں ملوث فرد یا افراد کیلئے بھی یہی اصول
اپنا نا لازم ہے ۔جس طرح مجرموں نے اس بچی کے ساتھ ظلم کیا ہے اسی طرح ان
کے ساتھ بھی کیا جانا چاہئے اور اس کے بعد اُنہیں سرعام بیچ چوہرائے میں
لٹکا کر” نشان عبرت ”بنا دینا چایئے تاکہ وہ ظالم درندہ صفت لوگ دوسروں
کیلئے ”نشان عبرت ”بن سکیں۔
بچوں اور بچیوں کے قتل جیسے ان واقعات کو” بریکنک نیوز ”کے نام پر اچھالنا
اس سے بھی بڑا المیہ ہے ۔ کسی بھی سانحہ کے بارے میں اصل حقائق جانے بناء
اظہار خیال کرنا بذات خود المناک ہے ۔ ہمارے اینکر پرسنز اور تجزیہ نگار
ایسے سانحات کے بارے میں اپنی مدبرانہ گفتگو کے ذریعے ماحول کو مزید
پراگندہ کرنے باالفاظ دیگر جلتی پر تیل ڈالنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔سانحہ
قصور میں بھی الیکٹرنک میڈیا نے تسلسل کے ساتھ سارا دن عوام کو باخبر رکھنے
اور ان میں اشتعال پیدا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جس کا نتیجہ یہ
نکلا کہ پولیس فائرنگ کی زد میں آکر 2افراد جاںبحق جبکہ کچھ زخمی بھی ہو
گئے ۔واقعہ کے بعد سے اب تک شہر میں صورتحال کشیدہ چلی آ رہی ہے ، مشتعل
عوام کے احتجاج میں مفاد پرست بھی شریک ہو کر مخالفین خاص طور سے لیگی
رہنماؤں کے گھروں پہ حملے کر رہے ہیں ۔سیاسی جماعتیں اس سانحہ کی آڑ میں
انتشار کومزید ہوا دے رہی ہیں۔
میڈیا پر انصاف کی دہائی کے نام پر جو کھیل کھیلا جاتا ہے اس کے نتیجے میں
آج تک کسی متاثرہ فرد کو انصاف تو نہیں مل سکا مگر ظلم کا شکار ہونے والوں
کو انصاف دلانے کے نام پرایسے ایسے انکشافات میڈیا پر آشکار کئے جاتے ہیں
کہ رہے نام اللہ کا۔۔گھٹن زدہ معاشرے میں ایسے واقعات کا ہونا کوئی نئی بات
نہیں ۔یہی واقعہ اگر سعودی عرب،ایران،دوبئی یا برطانیہ میں ہوا ہوتا تو
وہاں پر میڈیا کو اسے اس طرح اچھالنے کی جراء ت ہی نہ ہوتی ۔ اگر پاکستان
میں بھی سرعام سزاؤں کا نظام موجود ہوتا اور اگر آج تک کسی ایک بھی مجرم کو
کسی چوہرائے میں سرعام سرقلم کئے جانے کی سزا دی گئی ہوتی یا اسے سنگسار
کئے جانے کی روایت موجود ہوتی تو جرم کا ارتکاب کرتے وقت مجرم کئی بار
سوچتے۔لیکن ایسا نہیں ہے ۔پاکستان میں عدالتی سقم، پولیس کی کارستانیاں اور
بااثر لوگوں کے لمبے ہاتھ نظام میں موجود خرابیوں کی وجہ سے مجرموں تک
رسائی میں رکاوٹ ہیں ہمارے حاکم اور ایوانوں میں بیٹھے ہوئے عوامی نمائندے
ان خرابیوں کو دور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، ہمارے سیاستدان بھی ایسی
کسی قانون سازی پر توجہ دینے اور ظالموں کو سرعام الٹا لٹکانے کی کوئی
تدبیر کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر اپنی توانائیاں مرکوز
رکھے ہوئے ہیں ۔یہاں تو یہ عالم ہے کہ ایک لیڈر وزیر اعظم بننے کے لئے
مخالفین کو” چو ر چور ”کہہ کر اپنے سونامی سے ڈرا رہا ہے تو دوسرا ”مجھے
کیوں نکالا ۔۔؟کا واویلا کرتے ہوئے اپنی عوام اور ووٹروں سے انصاف مانگ رہا
ہے جبکہ تیسرا شہیدوں کے صدقے اس ملک کا شہزادہ بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔
کتنی ہی معصوم کلیاں گذشتہ ادوار میں ظالموں کے ہاتھوں مسلی جا چکی ہیں
۔طویل عدالتی نظام اور قانونی سقم کی بدولت مجرم ”شک” کی بناء پرپر وٹوکول
کے ساتھ برّی کر دئیے جاتے ہیں اس کے برعکس مظلوم اور بے گناہ افراد
پابندسلاسل یا تختہ دار پر چڑھادئیے جاتے ہیں ۔ ایسے کئی واقعات تاریخ کا
حصہ ہیں لیکن یہاں میں ایک واقعہ بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ غالباً دو
یا تین برس قبل لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں ایک معصوم بچے کے ساتھ زیادتی
اور پھر قتل کے بعد اس کی لاش کو مسجد میں لٹکا دیا گیا تھا اس واقعہ میں
بھی ملوث افراد کو کوئی سزا نہ دی جا سکی تھی بلکہ اس کیس میں پولیس نے ایک
گیارہ سالہ بچے کو پکڑکر اسے مجرم ثابت کرنے کی کوشش کی اور پھر ظلم یہ کیا
کہ مذکورہ بچے پر یہ الزام لگا کر کہ وہ پولیس اہلکار سے بندوق چھننے کی
کوشش کر رہا تھا کوراستے میں گولی مار کر” پھڑکا” دیا گیا تھا ۔جس کا مقصد
اصل مجرموں کو بچانا اور ایک بچے کو مجرم ظاہر کرکے مدعا ہی ختم کردینا تھا
۔عین ممکن ہے کہ سانحہ قصور میں بھی عوام کے قہر ا ور میڈیا کے زہر سے بچنے
کیلئے کسی بے گناہ کو ”پھڑکا ” دیا جائے۔اور اس کیس کو بھی بعد ازاں داخل
دفتر کر دیا جائے ۔میڈیا کسی کیس کو یوں بیدردی سے اچھال کر اگر کسی کو
انصاف دلانے میں کامیاب ہوجائے تو یہ اس کے لئے ایک بڑا اعزاز ہو گا جبکہ
گذشتہ کئی سالوں سے ایساکچھ نہیں ہو سکا اور نہ آئندہ ہو سکے گا ۔سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ ہم مرنے والوں کی روح کو اذیت پہنچاکر کیا مقاصد حاصل کرنے
کے خواہاں ہیں۔آج معصوم زینب کی روح ہم سے یہ سوال ضرور کر رہی ہو گی کہ اے
میرے ہمدردوں ،میرے ہم وطنوں کیوں مجھے تماشہ بنا رکھا ہے ،ظالموں نے تو
میری بے حرمتی کی مگر وہ سب پردے میں تھا تم لوگ تو مجھے سرعام رسوا کرنے
میں لگے ہو ،خدا کے لئے بند کرو یہ سب کچھ ۔۔مجھے انصاف چاہئے اور انصاف
یہی ہے کہ ان درندوں کو نشان عبرت بنا دیا جائے مگر مجھے مزید رسوا نہ کیا
جائے ۔کاش! ہم اس کیفیت کا ادراک کر سکتے۔
سانحہ قصور میں بچی کو قتل کئے جانے کے واقعہ کا چیف جسٹس جناب ثاقب نثار
نے از خود نوٹس لے کر احسن اقدام اٹھایا ہے ،لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس
واقعہ میں ملوث افراد اگر قانون کی گرفت میں آ ہی جائیں تو انہیں لمبے
عدالتی ٹرائل سے گذارنے کی بجائے فوری طور پر سرعام پھانسی دلوانے کی کوشش
کی جائے ۔اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس صاحب اگر قوم کے ساتھ یہ بھلا بھی کریں
کہ کسی کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعے کے بعد متاثرہ بچے یا بچی کی تصویر
کو میڈیا پر وائرل کرنے پر پابندی لگادیں اور اگر کوئی فرد یا ادارہ اس قسم
کی حرکت کا مرتکب ہو تو اس کیخلاف بھی سخت کارروائی کی جانا چاہئے ۔تو یہ
اُ ن کا قوم پر احسان ہوگا ۔ قوم کی بہو بیٹیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم
تو اپنی جگہ تکلیف دہ ہیں مگر اس دنیا سے کوچ کر جانے والوں کو انصاف دلانے
کی آڑ میں ان کی مزید رسوائی کا سامان کرنا کسی کو زیب نہیں دیتا ۔ ایک طرف
ایسے ظلم پر والدین اور عزیز و اقارب زندہ درگور ہو جاتے ہیں دوسری طرف
میڈیا انہیں مزید ذہنی کوفت سے دوچار کرنے میں اخلاقی حدود سے ہی تجاوز کر
جاتا ہے ۔اس حوالے سے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذمہ داران کو بھی اس بات
کا ادارک کرنا چاہئے جبکہ سوشل میڈیا پر حق وانصاف کی دہائی دینے والوں کو
بھی اخلاقی اقدار کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
ایک بات توجہ طلب ہے کہ حاکموں نے حق و انصاف کی فراہمی کا جو عزم کر رکھا
ہے،جرائم کی روک تھام کیلئے نئی نئی فورسز بنا دی گئی ہیں اس کے باوجود
جرائم میں کمی نہیں آ رہی ،کیونکہ حکومتی مقاصد کو ثبوتاژ کرنے میں بھی
پولیس اور اداروں کا بہت ہاتھ ہے ۔خادم اعلیٰ جس قدر اداروں کی مانیٹرنگ
اور عوامی مسائل کو حل کرانے کی سعی کرتے ہیں اتنا ہی ان کے زیر سایہ کام
کرنے والے ادارے اور ان کے افسران ان کیلئے مشکلات پیدا کرنے میںلگے ہیں
۔آج پنجاب میں امن و امان کی خراب صورتحال بھی خادم اعلیٰ کی ان شبانہ روز
کاوشوں کا شاخسانہ ہے ۔ممکن ہے کہ میری رائے سے کوئی اتفاق نہ کرے لیکن
حقیقت یہی نظر آتی ہے ۔لہذاء ضرورت اس امر کی ہے کہ خادم اعلیٰ کم ازکم
پنجاب کی حد تک ان تمام معاملات کا ازسرنو جائزہ لیں اور ایسے عناصر کی
سرکوبی کیلئے اپنی حکمت عملی تبدیل کریں جو ان کے لئے امن و امان سمیت دیگر
مسائل پیدا کرنے کی سازشوں میں سہولت کاری کا فریضہ ادا کر رہے ہیں ۔امن و
امان کی بحالی اور ناپسندیدہ عناصر کی سرکوبی کیلئے بھرپور اقدامات اٹھانا
ہونگے ورنہ آنے والے دنوں میں حکومت کا جانا کوئی روک نہ سکے گا۔
|